معروف سیاسی و مذہبی شخصیت آغا مرتضیٰ پویا طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)معروف سیاسی و مذہبی شخصیت آغا مرتضیٰ پویا طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے،وہ کچھ عرصہ سے کراچی کے اسپتال میں زیر علاج تھے۔
آغا مرتضیٰ پویا معروف انگریزی اخبار کے بانی مالک تھے،وہ وفاقی وزیر اور انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ بھی رہے۔
آغا مرتضیٰ پاکستان عوامی تحریک کے سینئر نائب صدر کے طور پر سیاست میں فعال رہے،مرحوم کی نماز جنازہ آج بعد نماز جمعہ امام بارگاہ صادق جی نائن اسلام آبادمیں ادا کی جائے گی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
سفر میں دو نمازیں جمع کرنا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نماز کے سلسلے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”نماز درحقیقت ایسا فرض ہے جو پابندئ وقت کے ساتھ اہلِ ایمان پر لازم کیا گیا ہے“ (النساء :103)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت ہی میں ادا کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے عمل سے ہر نماز کے اوّلِ وقت اور آخرِ وقت کی تعیین فرمادی تھی اور ہمیشہ ہر نماز کو اس کے وقت کے اندر ہی ادا کرنے کا اہتمام فرمایا ہے۔ سفر کے دوران میں جہاں کہیں آپ قیام فرماتے وہاں قصر تو کرتے تھے، لیکن جمع بین الصلاتین نہیں کرتے تھے، بلکہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا فرماتے تھے، البتہ سفر جاری رہنے کی صورت میں بعض اوقات آپ نے جمع بین الصلاتین کیا ہے۔
اس لیے آپ کی سنّت کی اتباع کا تقاضا ہے کہ دورانِ سفر کہیں قیام ہو اور ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا ممکن ہو تو اس کا اہتمام کرنا چاہیے، لیکن اگر دو نمازوں (ظہر و عصر اور مغرب و عشا) میں سے کسی نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ناممکن یا زحمت طلب ہو تو جمع بین الصلاتین کیا جاسکتا ہے۔
کیا سفر میں ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں؟ اس سلسلے میں معروف یہ ہے کہ حنفی مسلک میں یہ جائز نہیں ہے۔ حنفی علما جمع صوری کی اجازت دیتے ہیں، یعنی ظہر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز بالکل اوّل وقت میں، اسی طرح مغرب کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھی جائے اور عشا کی نماز بالکل اوّل وقت میں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کے اوقات متعین کردیے ہیں۔ صرف دو صورتیں مستثنیٰ ہیں: ایامِ حج کے دوران میں 9 ذی الحجہ کو عرفات میں زوال کے بعد جمع تقدیم، یعنی ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھنا اور غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ پہنچ کر جمع کرنا، یعنی مغرب اور عشا کی نمازیں عشا کے وقت میں پڑھنا ۔ ان دو مواقع کے سوا کسی نماز کو اس کے وقت کے علاوہ دوسرے وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے۔ یہ حضرات اپنے اس موقف پر بعض احادیث اور آثارِ صحابہ سے استدلال کرتے ہیں، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ (فتاویٰ شامی ،کتاب الصلاۃ)
دیگر فقہاء (امام مالک، امام شافعی اور امام احمدؒ) کے نزدیک جمع بین الصلاتین (دو نمازوں کو جمع کرنا) کی دونوں صورتیں جائز ہیں: جمعِ تقدیم بھی، یعنی ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر اور مغرب کے وقت میں مغرب اور عشا دونوں نمازیں پڑھ لینا اور جمعِ تاخیر بھی، یعنی عصر کے وقت میں ظہر اور عصر اور عشا کے وقت میں مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کرنا۔ ان حضرات کا استدلال بعض ان احادیث سے ہے جن میں رسولؐ کے جمع بین الصلاتین کا عمل انجام دینے کا ثبوت ملتا ہے ۔ مثلاً صحیح مسلم میں حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ایک روایت میں وہ بیان کرتے ہیں:
”ہم نبیؐ کے ساتھ غزوۂ تبوک میں نکلے تو آپ ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو ایک ساتھ پڑھتے تھے“۔
جمعِ صوری کو اختیار کرنا بظاہر دشوار معلوم ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے موجودہ دور کے بعض حنفی علما نے جمع بین الصلاتین کو مطلق جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا عبد الشکور فاروقیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ اب حنفی مسلک پر عمل کرنے والے بہت سے لوگوں کا عمومی رجحان مطلق جمع بین الصلاتین کی طرف ہوگیا ہے۔ سفر کی زیادہ سے زیادہ مدّت 14دن ہے۔ چنانچہ ان کا کہیں چند دنوں کے لیے قیام ہو تو وہ بلا تکلّف قصر نماز پڑھنے کے ساتھ دو نمازوں کو جمع کرلیتے ہیں۔
اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہؒ کا ایک فتویٰ نظر سے گزرا، جو قابلِ غور معلوم ہوتا ہے۔ ان سے دریافت کیا گیا کہ سفر میں جمع بین الصلاتین افضل ہے یا قصر؟ اس کا انھوں نے یہ جواب دیا:
”ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا افضل ہے، اگر دو نمازوں کو جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہو۔ اس لیے کہ سفر میں رسولؐ زیادہ تر نمازیں ان کے اوقات میں ادا کرتے تھے۔ آپ نے بہت کم مواقع پر جمع بین الصلاتین کیا ہے“ (مجموع الفتاویٰ)۔
انھوں نے مزید فرمایا:
”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں قصر کی طرح جمع سنّتِ نبوی نہیں ہے، بلکہ ایسا صرف وقتِ ضرورت کیا جائے گا، چاہے سفر میں ہو یا حضر میں“ (مجموع الفتاویٰ)۔