Daily Ausaf:
2025-08-11@17:32:02 GMT

تمہیں یارو مبارک ہو عمرؓ ابن خطاب آیا

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
حضرت عمرؓیہ آیات پڑھتے گئے ،اورایک ایک لفظ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا،دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دنیابدل گئی اورپھربے اختیاریوں کہنے لگے:کیایہی وہ کلام ہے جس کی وجہ سے قریش نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوران کے ساتھیوں کواس قدرستارکھاہے؟۔اورپھراگلے ہی لمحے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے بے تابانہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ا ن دنوں رسول اللہ ﷺ بیت اللہ سے متصل صفاپہاڑی کے قریب دارالارقم نامی گھر میں رہائش پذیرتھے ،جہاں مسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کے دین کاعلم حاصل کیاکرتے تھے۔ چنانچہ عمرؓ اسی دارالارقم کی جانب روانہ ہوگئے۔اس وقت وہاں دارالارقم میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چند مسلمان موجودتھے،انہوں نے جب حضرت عمرؓ کواس طرف آتے دیکھا تووہ پریشان ہوگئے۔ اتفاق سے اس وقت ان کے ہمراہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ بھی موجود تھے،جن کااس معاشرے میں بڑامقام ومرتبہ اور خاص شان وشوکت تھی،جن کی بہادری کے بڑے چرچے تھے، خاندانِ بنوہاشم کے چشم وچراغ نیزرسول اللہ ﷺ کے چچا تھے اورمحض تین دن قبل ہی مسلمان ہوئے تھے انہوں نے جب یہ منظردیکھااوروہاں موجودکمزوروبے بس مسلمانوں کی پریشانی دیکھی توانہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے، فکرکی کوئی بات نہیں ،عمرؓ اگرکسی اچھے ارادے سے آرہے ہیں توٹھیک ہے، اوراگرکسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو آج میں ان سے خوب اچھی طرح نمٹ لوں گا اورپھر حضرت عمرؓ وہاں پہنچے، آمد کا مقصد بیان کیاحضرت حمزہ ؓ انہیں ہمراہ لئے ہوئے اندررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے، سیدنا عمرؓنے وہاں آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکر اشھد ان لا اِلہ الا اللہ و اشھد انک عبد اللہِ ورسولہ،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا،اورآپ ﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔اس موقع پروہاں موجود مسلمانوں کی مسرت اورجوش وخروش کایہ عالم تھاکہ ان سب نے یک زبان ہوکراس قدرپرجوش طریقے سے نعرہ تکبیربلندکیاکہ مکے کی وادی گونج اٹھی مشرکینِ مکہ کے نامورسرداروں کے کانوں تک جب اس نعرے کی گونج پہنچی تووہ کھوج میں لگ گئے کہ آج مسلمانوں کے اس قدرجوش وخروش کی وجہ کیاہے؟ اورآخرجب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آج حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے ہیں تووہ نہایت رنجیدہ وافسردہ ہوگئے اوربے اختیاریوں کہنے لگے کہ ا ٓج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا۔
حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام سے قبل تک مسلمان کمزوروبے بس تھے،چھپ چھپ کراللہ کی عبادت کیاکرتے تھے جس روزحضرت عمرؓ نے دین اسلام قبول کیا، تورسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیاکہ : السنا علی الحقِ یا رسول اللہ؟ یعنی اے اللہ کے رسولﷺ!کیاہم حق پرنہیں ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا، بلی یا عمرؓ یعنی ہاں اے عمرؓ۔ تب عمرؓکہنے لگے ، ففِیم الاِخفاء؟ یعنی توپھرہمیں چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟اورتب پہلی بارمسلمان وہاں سے بیت للہ کی جانب اس کیفیت میں روانہ ہوئے کہ انہوں نے دوصفیں بنارکھی تھیں ، ایک صف کی قیادت حضرت عمرؓ جبکہ دوسری صف کی قیادت حضرت حمزہ ؓ کررہے تھے حتیٰ کہ اسی کیفیت میں یہ تمام مسلمان بیت اللہ کے قریب پہنچے جہاں حسبِ معمول بڑی تعدادمیں روسائے قریش موجودتھے،ان سب کی نگاہوں کے سامنے مسلمانوں نے پہلی بارعلی الاعلان بیت اللہ کا طواف کیااورنمازبھی اداکی یہی وہ منظرتھاجسے دیکھ کررسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو الفاروق یعنی حق وباطل کے درمیان فرق اورتمیزکردینے والاکے یادگارلقب سے نوازاتھا۔حضرت عمر ؓکے مزاج میں طبعی اورفطری طورپرہی تندی اورشدت تھی قبولِ اسلام کے بعداب ان کی یہ شدت اسلام اورمسلمانوں کی حمایت ونصرت میں صرف ہونے لگی،جس سے کمزوروبے بس مسلمانوں کوبڑی تقویت نصیب ہوئی جیساکہ مشہورصحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ما زِلنا اعِزۃ منذ اسلم عمر یعنی جب سے عمرمسلمان ہوئے ہیں تب سے ہم طاقت ورہوئے ہیں۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
یعنی عمرؓکاقبولِ اسلام ہمارے لئے بڑی فتح تھی،ان کی ہجرت ہمارے لئے نصرت تھی، اوران کی خلافت ہمارے لئے رحمت تھی،اللہ کی قسم!عمرؓکے قبولِ اسلام سے قبل ہم کبھی بیت اللہ کے قریب نمازتک نہیں پڑھ سکتے تھے ۔حضرت عمر ؓکے قبولِ اسلام سے قبل کیفیت یہ تھی کہ مکہ میں جوکوئی مسلمان ہوجاتا وہ اپنے قبولِ اسلام کوحتی الامکان چھپانے کی کوشش کیاکرتاتھاجبکہ اس بارے میں حضرت عمر کاحال یہ تھاکہ تمام سردارانِ قریش کے پاس جاجاکرانہیں اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں خودآگاہ کیاکرتے تھے۔حضرت صہیب بن سنان الرومی فرماتے ہیں :
یعنی’’ جب عمر(رضی اللہ عنہ)مسلمان ہوئے تودین اسلام کوغلبہ نصیب ہوا، اوردینِ اسلام کی طرف علی الاعلان دعوت دی جانے لگی،بیت اللہ کے قریب ہم اپنے حلقے بناکر (بے خوف وخطر)بیٹھنے لگے،بیت اللہ کاطواف کرنے لگے،اورماضی میں جولوگ (ہمارے قبولِ اسلام کی وجہ سے) مارے ساتھ ظلم وزیادتی اورناانصافی کرتے چلے آرہے تھیاب ہم کسی حدتک ان سے اپناحق بھی وصول کرنے لگے تھے۔یوں حضرت عمرؓ کاقبولِ اسلام مسلمانوں کے لئے فتح ونصرت جبکہ کفارومشرکین کے لئے شکست وہزیمت کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیت اللہ کہنے لگے کے قریب اللہ کے

پڑھیں:

دنبہ کی آمد

’’ دنبہ‘‘ جانور ایک اہم مذہبی فریضہ سے منسوب ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں بسے مسلمان کے سامنے جب دنبہ کا ذکر یا حوالہ آتا ہے تو اُس کے ذہن میں فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات سے وابستہ جذبہ قربانی اور توکل عَلَی اللہ کی چاشنی سے لبریز پختہ ایمان کی زندہ جاوید مثال آ جاتی ہے۔

دنبہ، سنتِ ابراہیمی اور پانچ ارکانِ اسلام کا چوتھا رُکن ’’ حج‘‘ یہ تمام ماہِ ذوالحجہ سے منسلک ہیں لیکن دنبہ کی انسانی زندگی میں آمد محض ایک اسلامی مہینے تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو علامتی طور پر انسانوں کی زندگیوں میں قدم قدم پر اپنا آپ ظاہر کرتا رہتا ہے اور میری ذات پر یہ انکشاف ابھی چند ماہ قبل ہی عیاں ہوا ہے۔

دنبہ درحقیقت مددِ خداوندی ہے جو کسی بھی رنگ، ساخت اور شکل میں ربِ الٰہی کے صابر بندوں کی زندگیوں میں اُس ذاتِ عظیم کے حکم سے بھیجی جاتی ہے۔ دراصل مددگار تک یہ مدد باآسانی نہیں پہنچتی ہے بلکہ سب سے پہلے تخلیق کا آزمائشی امتحان لیا جاتا ہے جس کے ذریعے اُس کے وجود میں موجود توکل و ایمان کو باریک بینی سے جانچا جاتا ہے پھر اُس کے صبر کو آزمایا جاتا ہے۔ انسان اپنے خالق کی آزمائش میں اگر صابر، شاکر، ثابت قدم اور ایماندار پایا جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد اُس تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی بھی طاقت روک نہیں سکتی ہے۔

 یہ باتیں لکھنا اور کہنا جتنا آسان ہے، اس کے برعکس ان حالات سے گزرنا اتنا ہی کٹھن ہے۔ درج بالا باتیں پڑھ کر اگر کوئی انسان سوچ رہا ہے، معاملہ اس قدر سہل ہوگا کہ انسان پر مصیبت آئی اور کچھ وقت گزرنے کے بعد اُس تک خدا تعالیٰ کی مدد پہنچ گئی تو وہ غلطی پر ہے کیونکہ جب اس کائنات کو خلق کرنے والی بڑی ذات کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں اپنی جگہ بنانے کی بات آتی ہے تو دشوار گزار راستوں پر تخلیقِ خداوند کا چلنا لازم و ملزوم ہوجاتا ہے۔

دراصل دنبہ کی جلوہ افروزی سے قبل زیستِ انسانی تابناک حالات سے دوچار ہوتی ہے، جان سولی پر اور تیز دھار چُھری انسان کو اپنے حلق پر رکھی محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک سانس کے بعد دوسری سانس لینا انسان کو محال لگ رہا ہوتا ہے، اُس کا جسم سُن اور عقل بالکل ماؤف ہو جاتی ہے۔ ایسے وقت میں انسان کو اپنے آگے کنواں اور پیچھے کھائی دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ ہر گزرتا لمحہ انسانی وجود پر صرف اور صرف بوجھ میں اضافے کا باعث بن رہا ہوتا ہے جو اُس کی روح کو بھی شدید زخمی کر کے رکھ دیتا ہے۔

قرآنِ کریم کی سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، ’’ اور ہم تمہیں اچھائی اور برائی (دونوں طرح) سے آزماتے ہیں۔‘‘ سورۃ العنکبوت میں ربِ جلیل اس بات کو مزید اس طرح واضح کرتے ہیں، ’’ اور بے شک ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا جو ان سے پہلے تھے، تاکہ اللہ جان لے کہ واقعی ایمان والے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔‘‘

خاتم النبیین حضور اکرم ﷺ نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا، ’’ خداوند عالم ایسے سرکش و نافرمان بندے پر سخت ناراض ہوتا ہے جس کی جان و مال میں کوئی آزمائش یا آفت نہ آئے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ سے مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’ بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انھیں آزماتا ہے۔ پس جو اس پر راضی ہو، اس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے ناراضگی ہے۔‘‘

جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے خالق پر توکل چٹان کی مانند مضبوط تھا تو اُن کے گلے پر رکھی چُھری بھی چل نہ پائی اور دنبہ کی آمد وقوع پذیر ہوئی، بالکل اسی طرح جس انسان کا ربِ الٰہی کی ذات پر پختہ یقین ہوگا طوفان کی خطرناک سے خطرناک موجیں بھی اُس کا بال بیکا نہیں کر پائیں گی۔

ہم انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں بیشمار مشکلات کا سامنا کرتے ہیں جن میں سے بعض کی نوعیت ہلکی جب کہ کچھ نا قابلِ برداشت ثابت ہوتی ہیں جو ہمارا دن کا چین اور راتوں کی نیندیں اُڑا کر رکھ دیتی ہیں، اُس دوران ہمیں اپنا دم گھُٹتا، جان نکلتی اور حلق پر کسی بھی لمحے چلنے کو تیار تیز دھار چُھری محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔

یہی رحمٰن و رحیم پر کامل یقین رکھتے ہوئے اُس بڑی ذات کی مدد کو پکارنے کا اصل وقت ہوتا ہے، جس انسان نے اس موقع پر اپنے ایمان و یقین کو متزلزل ہونے سے بچا لیا اور اپنے خالق کو صدقِ دل سے پکار لیا اُس کی چند لمحے قبل نکلتی ہوئی جان اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجے گئے دنبہ پر ٹل جاتی ہے۔

یہ فلسفہ غیبی مدد اللہ تعالیٰ کے جس بندے کی سمجھ میں آگیا، اُس کے لیے اپنی زندگی میں موجود اذیتوں کو جھیلنا سہل ہو جاتا ہے اور ایک عجب لطف کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جہاں اُسے ہر بار اپنے حلق پر چُھری آنے پر دنبہ کی آمد کا انتظار رہتا ہے کہ ستر ماؤں سے زیادہ اُس سے محبت کرنے والا ربِ کائنات اب کس رنگ، ساخت اور شکل میں اپنی مدد مجھ تک پہنچائے گا اور جیسی ہی دنبہ منظر پر ظاہر ہوتا ہے اُس کے جسم کا روم روم اس کرم نوازی پر سرشار ہوتا ہوا بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  •  عام تعطیل کا اعلان
  • توہین رسالت قانون کیساتھ کوئی چھیڑچھاڑ قبول نہیں کریں گے، ملی یکجہتی کونسل
  • غزہ میں انٹرنیشنل پروٹیکشن فورس تعینات کی جائے، پاکستانی مندوب کا سیکیورٹی کونسل میں خطاب
  • دنبہ کی آمد
  • فلسطین فلسطینیوں کا ہے، بے دخلی کی کوشش ناقابل قبول ہے: ترک وزیرِ خارجہ
  • وزیراعظم نے ریاض میں منعقد ہونے والی فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو فورم میں شرکت کیلئے دعوت قبول کرلی
  • قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی برسی کے موقع پر مجلس عزا
  • وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی سفیر کی ملاقات، ریاض میں 9ویں فیوچر انویسٹمنٹ فورم میں شرکت کی دعوت قبول
  • گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان عراق کے 7 روزہ دورے پر روانہ
  • گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان 7 روزہ دورے پر عراق روانہ ہو گئے