تمہیں یارو مبارک ہو عمرؓ ابن خطاب آیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
حضرت عمرؓیہ آیات پڑھتے گئے ،اورایک ایک لفظ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا،دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دنیابدل گئی اورپھربے اختیاریوں کہنے لگے:کیایہی وہ کلام ہے جس کی وجہ سے قریش نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوران کے ساتھیوں کواس قدرستارکھاہے؟۔اورپھراگلے ہی لمحے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے بے تابانہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ا ن دنوں رسول اللہ ﷺ بیت اللہ سے متصل صفاپہاڑی کے قریب دارالارقم نامی گھر میں رہائش پذیرتھے ،جہاں مسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کے دین کاعلم حاصل کیاکرتے تھے۔ چنانچہ عمرؓ اسی دارالارقم کی جانب روانہ ہوگئے۔اس وقت وہاں دارالارقم میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چند مسلمان موجودتھے،انہوں نے جب حضرت عمرؓ کواس طرف آتے دیکھا تووہ پریشان ہوگئے۔ اتفاق سے اس وقت ان کے ہمراہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ بھی موجود تھے،جن کااس معاشرے میں بڑامقام ومرتبہ اور خاص شان وشوکت تھی،جن کی بہادری کے بڑے چرچے تھے، خاندانِ بنوہاشم کے چشم وچراغ نیزرسول اللہ ﷺ کے چچا تھے اورمحض تین دن قبل ہی مسلمان ہوئے تھے انہوں نے جب یہ منظردیکھااوروہاں موجودکمزوروبے بس مسلمانوں کی پریشانی دیکھی توانہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے، فکرکی کوئی بات نہیں ،عمرؓ اگرکسی اچھے ارادے سے آرہے ہیں توٹھیک ہے، اوراگرکسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو آج میں ان سے خوب اچھی طرح نمٹ لوں گا اورپھر حضرت عمرؓ وہاں پہنچے، آمد کا مقصد بیان کیاحضرت حمزہ ؓ انہیں ہمراہ لئے ہوئے اندررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے، سیدنا عمرؓنے وہاں آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکر اشھد ان لا اِلہ الا اللہ و اشھد انک عبد اللہِ ورسولہ،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا،اورآپ ﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔اس موقع پروہاں موجود مسلمانوں کی مسرت اورجوش وخروش کایہ عالم تھاکہ ان سب نے یک زبان ہوکراس قدرپرجوش طریقے سے نعرہ تکبیربلندکیاکہ مکے کی وادی گونج اٹھی مشرکینِ مکہ کے نامورسرداروں کے کانوں تک جب اس نعرے کی گونج پہنچی تووہ کھوج میں لگ گئے کہ آج مسلمانوں کے اس قدرجوش وخروش کی وجہ کیاہے؟ اورآخرجب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آج حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے ہیں تووہ نہایت رنجیدہ وافسردہ ہوگئے اوربے اختیاریوں کہنے لگے کہ ا ٓج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا۔
حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام سے قبل تک مسلمان کمزوروبے بس تھے،چھپ چھپ کراللہ کی عبادت کیاکرتے تھے جس روزحضرت عمرؓ نے دین اسلام قبول کیا، تورسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیاکہ : السنا علی الحقِ یا رسول اللہ؟ یعنی اے اللہ کے رسولﷺ!کیاہم حق پرنہیں ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا، بلی یا عمرؓ یعنی ہاں اے عمرؓ۔ تب عمرؓکہنے لگے ، ففِیم الاِخفاء؟ یعنی توپھرہمیں چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟اورتب پہلی بارمسلمان وہاں سے بیت للہ کی جانب اس کیفیت میں روانہ ہوئے کہ انہوں نے دوصفیں بنارکھی تھیں ، ایک صف کی قیادت حضرت عمرؓ جبکہ دوسری صف کی قیادت حضرت حمزہ ؓ کررہے تھے حتیٰ کہ اسی کیفیت میں یہ تمام مسلمان بیت اللہ کے قریب پہنچے جہاں حسبِ معمول بڑی تعدادمیں روسائے قریش موجودتھے،ان سب کی نگاہوں کے سامنے مسلمانوں نے پہلی بارعلی الاعلان بیت اللہ کا طواف کیااورنمازبھی اداکی یہی وہ منظرتھاجسے دیکھ کررسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو الفاروق یعنی حق وباطل کے درمیان فرق اورتمیزکردینے والاکے یادگارلقب سے نوازاتھا۔حضرت عمر ؓکے مزاج میں طبعی اورفطری طورپرہی تندی اورشدت تھی قبولِ اسلام کے بعداب ان کی یہ شدت اسلام اورمسلمانوں کی حمایت ونصرت میں صرف ہونے لگی،جس سے کمزوروبے بس مسلمانوں کوبڑی تقویت نصیب ہوئی جیساکہ مشہورصحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ما زِلنا اعِزۃ منذ اسلم عمر یعنی جب سے عمرمسلمان ہوئے ہیں تب سے ہم طاقت ورہوئے ہیں۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
یعنی عمرؓکاقبولِ اسلام ہمارے لئے بڑی فتح تھی،ان کی ہجرت ہمارے لئے نصرت تھی، اوران کی خلافت ہمارے لئے رحمت تھی،اللہ کی قسم!عمرؓکے قبولِ اسلام سے قبل ہم کبھی بیت اللہ کے قریب نمازتک نہیں پڑھ سکتے تھے ۔حضرت عمر ؓکے قبولِ اسلام سے قبل کیفیت یہ تھی کہ مکہ میں جوکوئی مسلمان ہوجاتا وہ اپنے قبولِ اسلام کوحتی الامکان چھپانے کی کوشش کیاکرتاتھاجبکہ اس بارے میں حضرت عمر کاحال یہ تھاکہ تمام سردارانِ قریش کے پاس جاجاکرانہیں اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں خودآگاہ کیاکرتے تھے۔حضرت صہیب بن سنان الرومی فرماتے ہیں :
یعنی’’ جب عمر(رضی اللہ عنہ)مسلمان ہوئے تودین اسلام کوغلبہ نصیب ہوا، اوردینِ اسلام کی طرف علی الاعلان دعوت دی جانے لگی،بیت اللہ کے قریب ہم اپنے حلقے بناکر (بے خوف وخطر)بیٹھنے لگے،بیت اللہ کاطواف کرنے لگے،اورماضی میں جولوگ (ہمارے قبولِ اسلام کی وجہ سے) مارے ساتھ ظلم وزیادتی اورناانصافی کرتے چلے آرہے تھیاب ہم کسی حدتک ان سے اپناحق بھی وصول کرنے لگے تھے۔یوں حضرت عمرؓ کاقبولِ اسلام مسلمانوں کے لئے فتح ونصرت جبکہ کفارومشرکین کے لئے شکست وہزیمت کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیت اللہ کہنے لگے کے قریب اللہ کے
پڑھیں:
عوامی لیگ پر پابندی ہٹائے بغیر انتخابات ناقابلِ قبول ہوں گے، حسینہ واجد کا اعلان
سابق بنگلہ دیش وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ ان کی وطن واپسی کا دارومدار ’شمولیتی جمہوریت‘ کی بحالی، عوامی لیگ پر عائد پابندی کے خاتمے اور آزاد، منصفانہ اور جامع انتخابات کے انعقاد پر ہے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بھارت میں ایک نامعلوم مقام سے دیے گئے خصوصی ای میل انٹرویو میں حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ
انہوں نے کہا کہ غیر منتخب ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو خطرے میں ڈالتے ہوئےانتہا پسند قوتوں کو بااختیار بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ عبوری حکومت کی خارجہ پالیسی کے برعکس، ان کے دور میں ڈھاکا اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات ’وسیع اور گہرے‘ تھے، اور یہ تعلقات ’یونس دور کی حماقتوں‘ سے متاثر نہیں ہونے چاہییں۔
PTI INFOGRAPHICS | PTI Exclusive Interview with ousted former Bangladesh PM Sheikh Hasina
In an exclusive email interview with Press Trust of India from an undisclosed location in India, ousted former Bangladesh prime minister Sheikh Hasina said her return home hinges on the… pic.twitter.com/nUAVJYUcxZ
— Press Trust of India (@PTI_News) November 12, 2025
شیخ حسینہ نے بھارتی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارتی حکومت اور عوام کی میزبانی پر بے حد شکر گزار ہیں۔
’میری بنگلہ دیش واپسی کی سب سے اہم شرط وہی ہے جو عوام چاہتے ہیں، جمہوریت کی بحالی۔‘
شیخ حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ عبوری حکومت کو عوامی لیگ پر پابندی ختم اور آزاد، منصفانہ اور جامع انتخابات کرانے ہوں گے۔
مزید پڑھیں: بھارت نے شیخ حسینہ کی میزبانی کرکے بنگلہ دیش سے تعلقات خراب کیے، محمد یونس
شیخ حسینہ نے، جو بنگلہ دیش کی طویل ترین عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی رہنما ہیں، 5 اگست 2024 کو ملک چھوڑ دیا تھا۔
ان کے استعفے سے قبل کئی ہفتوں تک ملک میں پُرتشدد احتجاج جاری رہا، جس کے نتیجے میں وہ بھارت منتقل ہوئیں اور یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم ہوئی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی حکومت نے احتجاجی صورتِ حال کو غلط طریقے سے سنبھالا، تو 78 سالہ رہنما کا مؤقف تھا کہ یقیناً ان کی حکومت حالات پر قابو کھو بیٹھی تھی۔
مزید پڑھیں:سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی رہائشگاہ کو میوزیم میں تبدیل کردیا گیا
’جو افسوسناک ہے، ان واقعات سے کئی سبق حاصل ہوئے ہیں، مگر کچھ ذمہ داری اُن نام نہاد طلبا رہنماؤں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے ہجوم کو بھڑکایا۔‘
انہوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر عوامی لیگ کو انتخابات سے باہر رکھا گیا تو ایسے انتخابات غیر قانونی اور غیر جمہوری ہوں گے۔
’لاکھوں لوگ عوامی لیگ کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر ہمیں باہر رکھا گیا تو یہ ملک کے لیے ایک بڑی بدقسمتی ہوگی۔ ہمیں عوام کی حقیقی رضامندی پر مبنی حکومت کی ضرورت ہے۔‘
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: شیخ حسینہ واجد کو توہین عدالت پر 6 ماہ قید کی سزا
انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ پابندی ختم کی جائے گی۔ ’چاہے ہم حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، عوامی لیگ کو سیاسی مکالمے کا حصہ ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیشہ بنگلہ دیش کا سب سے اہم بین الاقوامی تعلق رہا ہے اور یونس حکومت نے ’احمقانہ اور خود تباہ کن‘ پالیسیوں سے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے۔
’محمد یونس کی بھارت دشمنی انتہائی احمقانہ اور خود کو نقصان پہنچانے والی ہے۔ وہ ایک کمزور اور غیر منتخب حکمران ہیں جو انتہا پسندوں پر انحصار کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں:شیخ حسینہ کا گھر ان کے اپنے بیان کی وجہ سے منہدم ہوا، بنگلہ دیش حکومت
’امید ہے کہ وہ مزید سفارتی غلطیاں نہیں کریں گے۔‘
بھارت میں موجود شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے حسینہ نے کہا کہ عبوری حکومت بنگلہ دیش کے عوام کی نمائندہ نہیں۔ بھارت ہمارا سب سے قریبی دوست تھا، ہے اور رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ بین الاقوامی نگرانی میں مقدمہ چلانے کے لیے تیار ہیں، حتیٰ کہ عالمی فوجداری عدالت میں بھی، مگر الزام لگایا کہ یونس حکومت اس سے گریزاں ہے کیونکہ غیر جانب دار عدالت انہیں بری قرار دے گی۔
مزید پڑھیں:حوالگی کی بنگلہ دیشی درخواست کے باوجود شیخ حسینہ کے بھارتی ویزے میں توسیع
’میں نے بارہا یونس حکومت کو چیلنج کیا کہ اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو میرا مقدمہ عالمی فوجداری عدالت میں لے جائیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک غیر جانب دار عدالت مجھے ضرور بری کردے گی۔‘
انہوں نے بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کو ’جعلی عدالت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ان کے خلاف سزائے موت کی کارروائی ’سیاسی انتقام‘ ہے۔
’وہ مجھے اور عوامی لیگ دونوں کو سیاسی طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں، مخالفین کو دبانے کے لیے سزائے موت جیسے حربے استعمال کرنا اس بات کی علامت ہے کہ انہیں نہ تو جمہوریت کی پرواہ ہے اور نہ انصاف کے تقاضوں کی۔‘
مزید پڑھیں:شیخ حسینہ کی فسطائیت کا شکار بنگلہ دیش میں قید 178 نیم فوجی اہلکاررہا
شیخ حسینہ کے مطابق، محمد یونس کو کچھ مغربی لبرل حلقوں کی خاموش حمایت حاصل رہی، جو اب ان کی انتہا پسندوں کو حکومت میں شامل کرنے، اقلیتوں کے خلاف امتیاز برتنے اور آئین کو کمزور کرنے کے بعد پیچھے ہٹنے لگے ہیں۔
’اب جب وہ دیکھ رہے ہیں کہ محمد یونس نے شدت پسندوں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا ہے، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے، اور آئینی ڈھانچے کو توڑا ہے، تو امید ہے وہ اپنی حمایت واپس لے لیں گے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت حسینہ واجد عالمی فوجداری عدالت عبوری حکومت عوامی لیگ نئی دہلی وطن واپسی