Daily Ausaf:
2025-06-27@13:31:59 GMT

تمہیں یارو مبارک ہو عمرؓ ابن خطاب آیا

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
حضرت عمرؓیہ آیات پڑھتے گئے ،اورایک ایک لفظ ان کے دل کی گہرائیوں میں اترتاچلاگیا،دیکھتے ہی دیکھتے دل کی دنیابدل گئی اورپھربے اختیاریوں کہنے لگے:کیایہی وہ کلام ہے جس کی وجہ سے قریش نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوران کے ساتھیوں کواس قدرستارکھاہے؟۔اورپھراگلے ہی لمحے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے بے تابانہ وہاں سے روانہ ہوگئے۔ا ن دنوں رسول اللہ ﷺ بیت اللہ سے متصل صفاپہاڑی کے قریب دارالارقم نامی گھر میں رہائش پذیرتھے ،جہاں مسلمان آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کے دین کاعلم حاصل کیاکرتے تھے۔ چنانچہ عمرؓ اسی دارالارقم کی جانب روانہ ہوگئے۔اس وقت وہاں دارالارقم میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ چند مسلمان موجودتھے،انہوں نے جب حضرت عمرؓ کواس طرف آتے دیکھا تووہ پریشان ہوگئے۔ اتفاق سے اس وقت ان کے ہمراہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ بھی موجود تھے،جن کااس معاشرے میں بڑامقام ومرتبہ اور خاص شان وشوکت تھی،جن کی بہادری کے بڑے چرچے تھے، خاندانِ بنوہاشم کے چشم وچراغ نیزرسول اللہ ﷺ کے چچا تھے اورمحض تین دن قبل ہی مسلمان ہوئے تھے انہوں نے جب یہ منظردیکھااوروہاں موجودکمزوروبے بس مسلمانوں کی پریشانی دیکھی توانہیں تسلی دیتے ہوئے کہنے لگے، فکرکی کوئی بات نہیں ،عمرؓ اگرکسی اچھے ارادے سے آرہے ہیں توٹھیک ہے، اوراگرکسی برے ارادے سے آرہے ہیں تو آج میں ان سے خوب اچھی طرح نمٹ لوں گا اورپھر حضرت عمرؓ وہاں پہنچے، آمد کا مقصد بیان کیاحضرت حمزہ ؓ انہیں ہمراہ لئے ہوئے اندررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے، سیدنا عمرؓنے وہاں آپؐ کی خدمت میں حاضرہوکر اشھد ان لا اِلہ الا اللہ و اشھد انک عبد اللہِ ورسولہ،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اورمیں گواہی دیتاہوں کہ آپؐ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کیا،اورآپ ﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔اس موقع پروہاں موجود مسلمانوں کی مسرت اورجوش وخروش کایہ عالم تھاکہ ان سب نے یک زبان ہوکراس قدرپرجوش طریقے سے نعرہ تکبیربلندکیاکہ مکے کی وادی گونج اٹھی مشرکینِ مکہ کے نامورسرداروں کے کانوں تک جب اس نعرے کی گونج پہنچی تووہ کھوج میں لگ گئے کہ آج مسلمانوں کے اس قدرجوش وخروش کی وجہ کیاہے؟ اورآخرجب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آج حضرت عمرؓ مسلمان ہوگئے ہیں تووہ نہایت رنجیدہ وافسردہ ہوگئے اوربے اختیاریوں کہنے لگے کہ ا ٓج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا۔
حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام سے قبل تک مسلمان کمزوروبے بس تھے،چھپ چھپ کراللہ کی عبادت کیاکرتے تھے جس روزحضرت عمرؓ نے دین اسلام قبول کیا، تورسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیاکہ : السنا علی الحقِ یا رسول اللہ؟ یعنی اے اللہ کے رسولﷺ!کیاہم حق پرنہیں ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا، بلی یا عمرؓ یعنی ہاں اے عمرؓ۔ تب عمرؓکہنے لگے ، ففِیم الاِخفاء؟ یعنی توپھرہمیں چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟اورتب پہلی بارمسلمان وہاں سے بیت للہ کی جانب اس کیفیت میں روانہ ہوئے کہ انہوں نے دوصفیں بنارکھی تھیں ، ایک صف کی قیادت حضرت عمرؓ جبکہ دوسری صف کی قیادت حضرت حمزہ ؓ کررہے تھے حتیٰ کہ اسی کیفیت میں یہ تمام مسلمان بیت اللہ کے قریب پہنچے جہاں حسبِ معمول بڑی تعدادمیں روسائے قریش موجودتھے،ان سب کی نگاہوں کے سامنے مسلمانوں نے پہلی بارعلی الاعلان بیت اللہ کا طواف کیااورنمازبھی اداکی یہی وہ منظرتھاجسے دیکھ کررسول اللہ ﷺ نے حضرت عمرؓ کو الفاروق یعنی حق وباطل کے درمیان فرق اورتمیزکردینے والاکے یادگارلقب سے نوازاتھا۔حضرت عمر ؓکے مزاج میں طبعی اورفطری طورپرہی تندی اورشدت تھی قبولِ اسلام کے بعداب ان کی یہ شدت اسلام اورمسلمانوں کی حمایت ونصرت میں صرف ہونے لگی،جس سے کمزوروبے بس مسلمانوں کوبڑی تقویت نصیب ہوئی جیساکہ مشہورصحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ما زِلنا اعِزۃ منذ اسلم عمر یعنی جب سے عمرمسلمان ہوئے ہیں تب سے ہم طاقت ورہوئے ہیں۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
یعنی عمرؓکاقبولِ اسلام ہمارے لئے بڑی فتح تھی،ان کی ہجرت ہمارے لئے نصرت تھی، اوران کی خلافت ہمارے لئے رحمت تھی،اللہ کی قسم!عمرؓکے قبولِ اسلام سے قبل ہم کبھی بیت اللہ کے قریب نمازتک نہیں پڑھ سکتے تھے ۔حضرت عمر ؓکے قبولِ اسلام سے قبل کیفیت یہ تھی کہ مکہ میں جوکوئی مسلمان ہوجاتا وہ اپنے قبولِ اسلام کوحتی الامکان چھپانے کی کوشش کیاکرتاتھاجبکہ اس بارے میں حضرت عمر کاحال یہ تھاکہ تمام سردارانِ قریش کے پاس جاجاکرانہیں اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں خودآگاہ کیاکرتے تھے۔حضرت صہیب بن سنان الرومی فرماتے ہیں :
یعنی’’ جب عمر(رضی اللہ عنہ)مسلمان ہوئے تودین اسلام کوغلبہ نصیب ہوا، اوردینِ اسلام کی طرف علی الاعلان دعوت دی جانے لگی،بیت اللہ کے قریب ہم اپنے حلقے بناکر (بے خوف وخطر)بیٹھنے لگے،بیت اللہ کاطواف کرنے لگے،اورماضی میں جولوگ (ہمارے قبولِ اسلام کی وجہ سے) مارے ساتھ ظلم وزیادتی اورناانصافی کرتے چلے آرہے تھیاب ہم کسی حدتک ان سے اپناحق بھی وصول کرنے لگے تھے۔یوں حضرت عمرؓ کاقبولِ اسلام مسلمانوں کے لئے فتح ونصرت جبکہ کفارومشرکین کے لئے شکست وہزیمت کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیت اللہ کہنے لگے کے قریب اللہ کے

پڑھیں:

مسلمان سے شادی کرنے پر زندہ بھارتی لڑکی کی آخری رسومات ادا

بھارت(نیوز ڈیسک)بھارت میں مذہبی تعصب اور سماجی اقدار کے نام پر انتہاپسندی کی ایک اور چونکا دینے والی مثال سامنے آگئی۔

مغربی بنگال کے ضلع ندیا کے قصبے کرشنا گنج میں ایک ہندو خاندان نے اپنی زندہ بیٹی کی محض اس وجہ سے آخری رسومات ادا کردیں کہ اُس نے ایک مسلمان نوجوان سے محبت کی شادی کرلی۔

یہ افسوسناک واقعہ کھتورا اُترپارہ علاقے میں پیش آیا ہے، جہاں ایک لڑکی نے خاندان کی مرضی کے خلاف جا کر ایک مسلمان نوجوان سے شادی کرلی۔

مذکورہ لڑکی کرشنا گنج سدھیر رنجن لہری کالج میں فرسٹ ایئر کی طالبہ ہے اور پہلے بھی ایک بار اپنے اسی مسلمان محبوب کے ساتھ گھر سے بھاگ چکی تھی، لیکن تب گھر والے اُسے واپس لے آئے تھے اور انہوں نے جلد از جلد اس کی شادی اپنی مرضی کے لڑکے سے کروانے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔

تاہم لڑکی ایک بار پھر اپنے اسی محبوب کے ساتھ فرار ہوگئی اور اس بار باقاعدہ شادی بھی کرلی۔

لڑکی کے اس قدم سے اسکے خاندان میں شدید غصہ پھیل گیا، اور اس کے والد کو جب اپنی بیٹی کے اِس فیصلے کی اطلاع ملی تو انہوں نے شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اپنی زندہ بیٹی کو ‘مردہ’ قرار دے دیا۔

لیکن معاملہ صرف یہیں نہیں رکا بلکہ لڑکی کی شادی کے 12 دن بعد اس کے خاندان نے مکمل طور پر اُسے اپنی زندگی سے نکال باہر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ہندو روایات کے مطابق اس کی آخری رسومات بھی ادا کردیں۔

ان رسومات میں مرد اہل خانہ کے سر منڈوائے گئے، پنڈتوں سے باقاعدہ تمام رسومات ادا کروائی گئیں اور آخری رسومات کے بعد پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے لیے کھانے کا بھی اہتمام کیا گیا۔

اس موقع پر لڑکی کا سارا سامان، کپڑے، کتابیں، تعلیمی اسناد، سب کچھ نذرِ آتش کر دیا گیا۔

لڑکی کی والدہ نے ‘ٹائمز آف انڈیا’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہماری بیٹی نے مسلمان لڑکے سے شادی کرکے ہمیں ذلیل و رسوا کردیا ہے، ہم نے جو اسکی آخری رسومات ادا کی ہیں وہ ہمارے احتجاج کا طریقہ ہے’۔

لڑکی کے چچا نے بھی میڈیا سے گفتگو کے دوران جذباتی انداز میں کہا کہ ‘اس نے ہمارے لیے کوئی چارہ نہیں چھوڑا تھا، اس نے خاندان کی عزت خاک میں ملا دی، اس لیے اب ہم نے اپنے لیے اُسے مردہ سمجھ لیا ہے’۔

یہ واقعہ نہ صرف سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے بلکہ مقامی افراد بھی خاندان کے اس اقدام پر ششدر ہیں۔

تاحال دونوں خاندانوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کوئی قانونی شکایت درج نہیں کی گئی، تاہم انسانی حقوق کیلئے سرگرم سماجی کارکنان اور باشعور حلقے اس واقعے کو انتہائی خطرناک سماجی رجحان قرار دے رہے ہیں۔

دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ لڑکی اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ خوش و خرم اور محفوظ زندگی گزار رہی ہے۔

کراچی: ملیر سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے 4 ایجنٹس گرفتار

متعلقہ مضامین

  • حضرت عمر فاروقؓ، عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ
  • مُراد ِرسول ﷺسیدنا عمر فاروقؓ
  • آیت اللہ خامنہ ای کی جنگ میں فتح پر ایرانی قوم کو مبارکباد‘آج قوم سے خطاب کریں گے
  • حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ
  • محرم کی حساسیت اور اسرائیل کی ممکنہ شرارت
  • منی پور میں مسلمان معذور نوجوان کا قتل؛بھارت میں اقلیتوں کیخلاف بڑھتا ظلم و تشدد
  • مسلمان سے شادی کرنے پر زندہ بھارتی لڑکی کی آخری رسومات ادا
  • جنگ بندی قبول، آپریشن رائزنگ لائن کے تمام مقاصد حاصل کرلیے: نیتن یاہو
  • اسلام آباد میں حجاج بیت اللہ کی خدمت پر بین الاقوامی کانفرنس، سعودی عرب کو خراجِ تحسین