بھارتی میڈیا کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان کیخلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکا  کو نشانہ بنانے کے لیے پاکستان انٹر کانٹی نینٹل میزائل کی تیاری کر رہا ہے، جس کی رینج اتنی ہے کہ یہ باآسانی امریکا  پہنچ سکتا ہے۔

دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پاس نہ تو ایسا کوئی میزائل ہے نہ ہی پاکستان ایسا کوئی میزائل تیار کررہا ہے، البتہ بھارتی نیوکلیئر پروگرام کے تحت بھارت کے پاس 2 انٹر کانٹی نینٹل میزائل ہیں؛ ایک اگنی اور ایک سوریا اگنی کی رینج 5500 کلومیٹر جبکہ اس سوریا میزائل کی رینج 10 ہزار کلومیٹر تک ہے۔

وی نیوز نے دفاعی تجزیہ کاروں سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان کے پاس کوئی ایسا میزائل ہے اور بھارت کیوں پاکستان کیخلاف جھوٹا پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا اس وقت بھی پاکستان کے خلاف ایک انتہائی خطرناک پروپیگنڈا کر رہا ہے، انڈیا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کہ جب وہ پاکستان کی امریکا  اور اسرائیل کے خلاف کوئی غلط فہمی پیدا نہ کرے۔

’۔۔۔لیکن پاکستان امریکا پر واضح کر چکا ہے کہ پاکستان کا جو بھی نیوکلیئر پروگرام ہے وہ صرف اور صرف بھارت کے لیے ہے، امریکا  اور اسرائیل کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر بھی پاکستان سے خوش ہیں اور انہوں نے فیلڈ مارشل سے ملاقات کی۔‘

بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کے مطابق اسرائیل سے پاکستان کا اختلاف دو قوموں کا ہے، اور اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو پاکستان کو اسرائیل سے کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔

 

بریگیڈیئر  ریٹائرڈ حارث نواز نے کہا بھارت کو ابھی حال میں بھی پاکستان سے بہت مار پڑی ہے اور ان کا جھوٹا پروپیگنڈا بھی دنیا کے سامنے آیا ہے، بھارت کبھی کہتا ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کو کہا ہے کہ اگر وہ ایران پر نیوکلیئر میزائل داغے گا تو پاکستان اسرائیل پر نیوکلیئر میزائل مارے گا۔

’بھارتی میزائل سوریہ 10 ہزار کلومیٹر تک جا سکتا ہے جبکہ پاکستان کا جو سب سے دور جانے والا میزائل ہے اس کی رینج صرف 5 ہزار کلومیٹر ہے اور اس کا نشانہ انڈیا کا ہر کونہ کونہ ہے، ہماری تمام پاکستان کے میزائل کی رینج میں انڈیا ہے، جس کے علاوہ پاکستان کا کسی ملک پر ایٹمی ہم لوگ کا ارادہ نہیں ہے۔‘

بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے واضح کیا کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام صرف بھارت کے لیے ہے بھارت سے ڈرنے کے لیے پاکستان نے نیوکلیئر اثاثے حاصل کیے تھے اور اسی وجہ سے پاکستان ابھی بہت محفوظ ہے۔

 

دفاعی تجزیہ کار ریئر ایڈمرل فیصل شاہ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے ایک جھوٹا بیانیہ مسلسل پاکستان کے خلاف جاری ہے، جب سے بھارت کو پاکستان سے جنگ میں شکست ہوئی ہے بھارت جھوٹے پروپیگنڈے کے تحت کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کو کسی بھی طرح نیچے دکھا سکے۔

’بھارت نے پہلے ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور یہ خبر چلائی کہ پاکستان نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل پر ایران نیوکلئیر حملہ کرے گا تو پاکستان جوابی طور پر اسرائیل پر نیوکلیئر حملہ کرے گا لیکن یہ اتنا جھوٹا اور بے وقوفانہ خبر تھی کہ اس کو کسی نے تسلیم نہیں کیا۔‘

ریئر ایڈمرل فیصل شاہ نے کہا کہ ایس ای او کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے موقع پر پہلگام واقعے کو شامل کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی بھارت کو شکست ہوئی، اب بھارت کی جناب سے میزائلز کی تیاری کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے تو شاید ان کو یہ پتا نہیں ہے کہ ہمارا ازلی دشمن صرف انڈیا ہے، اور ہماری ساری تیاری انڈیا کے خلاف ہے۔

 

’دنیا میں اور کہیں کسی سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے اور یہ ساری دنیا کو بھی پتا ہے، دنیا کو بھارت سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے 10 ہزار کلومیٹر کی رینج والا میزائل سوریا کس کے لیے بنایا ہوا ہے نہ پاکستان کے خلاف اس کی ضرورت ہے اور نہ چین کیخلاف۔‘

ریئر ایڈمرل فیصل شاہ کا کہنا تھا کہ پھر اس کا مطلب ہے کہ یہ سوچ رہے ہیں کہ ایک زمانے میں یہ اتنے بڑے ہو جائیں گے کہ یہ امریکا  سے ٹکر لینے کی کوشش کریں گے یا دنیا کے اور یورپین ممالک یا افریقن ممالک سے تکر لینے کی کوشش کریں گے۔

’بھارتی جھوٹے پروپیگنڈے کی کوششیں اتنی احمقانہ ہوتی ہیں کہ دنیا کو پتا چل جاتا ہے اور کوئی بھی ان پر یقین نہیں کرتا، بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کا ایک جھوٹا بیانیہ بنایا حالانکہ خود اوورسیز ٹیررازم ان کے اپنے لوگ پکڑے گئے ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ریٹائرڈ حارث نواز پاکستان کے خلاف ہے کہ پاکستان ہزار کلومیٹر پاکستان کا کر رہا ہے کی کوشش کی رینج نہیں ہے ہے اور اور اس کے لیے

پڑھیں:

سلامتی کونسل میں پاکستان کو امریکی قر اداد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا نے غزہ کے بارے میں اپنے 20نکاتی پلان کو دنیا کے سامنے قانونی جواز بنا کر پیشکیا جائے ۔۔ اس منصونے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے فلسطینی ریاست کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس منصوبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی فوج غزہ میں کسی نہ کسی صورت موجود رہے اور ٹونی بیلر نگران ہوں گے جو اسرائیل کے حمایت یافتہ ہیں ، اس قراقرداد کی عرب ممالک کھل کر مخالفت نہیں کر سکتے ا اس کی وجہ یہ ہے وی خود حماس جیسی فلسطین کی آزادی کے کام کر نے والے لوگوں کے عملی طور پر مخالف ہیں اور وہ امریکا ڈرتے ہیں ۔
ٹرمپ پلان امریکا کان امریکا کا اور اسرائیل کے اتحاد ما مظہر ہے اور اس پلان اما مقصد اسرائیل کو غزہ پر مکمل کنٹرول کر انا ہے ۔اس لیے اس پلان کی روس اور چین بھی مخالت نہیں کر یں گے۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ نے غزہ میں بین الاقوامی فورس کی حکومت کے لیے ایک قرارداد سلامتی کونسل کے بعض اراکین کو پیش کی ہے۔ اس قرارداد کے مطابق اس بین الاقوامی فورس کی حکومت کی مدت 2 سال معین کی گئی ہے۔

سحرنیوز/دنیا: ایکسیوس نیوز ویب سائٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض اراکین کو ایک قرارداد کا مسودہ بھیجا ہے جس میں اس نے غزہ میں کم از کم 2 سال کے مشن کے ساتھ ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کی تجویز ہے۔
ایکسیوس کی رپورٹ میں اس قرارداد کو “حساس لیکن غیر خفیہ” قرار دیا گیا ہے اور قرارداد میں بین الاقوامی فورس میں شریک امریکہ اور دیگر ممالک کو غزہ پر حکومت کرنے اور سنہ 2027 کے آخر تک سیکورٹی فراہم کرنے کے وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں۔ قرارداد کے مطابق اس مدت کے بعد مشن میں توسیع کا امکان ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا ا ±ن کا منصوبہ ممکنہ طور پر تاریخ کے عظیم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے اور یہ ’مشرق وسطیٰ میں دائمی امن‘ لا سکتا ہے۔

یہ مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے مگر ان کا 20 نکاتی مجوزہ منصوبہ بلاشہ ایک اہم سفارتی قدم ضرور ہے، جس کا اعلان پیر کو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں نتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔اس منصوبے میں کافی ابہام بھی ہے جسے کوئی بھی فریق اس پورے عمل کو سبوتاڑ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، اور اس کی ناکامی کا ذمہ دار دوسرے فریق کو ٹھہرا سکتا ہے۔
اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ٹرمپ نے نتن یاہو پر یہ بات واضح کرتے ہوئے پیر کو انھیں بتایا کہ اگر حماس اس مجوزہ منصوبے پر راضی نہیں ہوتی تو انھیں (اسرائیل) ’(حماس کو ختم کرنے کے لیے) جو کچھ کرنا پڑے گا اس کے لیے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔‘اگرچہ ٹرمپ نے اسے ایک معاہدے کے طور پر پیش کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ مزید مذاکرات کے لیے ایک ڈھانچہ ہے- یا جیسا کہ انھوں نے ایک موقع پر کہا کہ ’اصولوں‘ کا ضابطہ کار ہے۔ یہ اس قسم کے تفصیلی منصوبے سے بہت دور ہے جو غزہ میں جنگ کے خاتمے پر اتفاق کے لیے درکار ہو گا۔
یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کا مقصد مرحلہ وار جنگ بندی اور معاہدے کے تحت جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ٹرمپ ایک ’آل اِن ون‘ امن معاہدہ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے یرغمالیوں کی رہائی کے بارے میں مخصوص تفصیلات، رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی شناخت اور جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی کے لیے مخصوص شرائط جیسے بہت سے دیگر امور کے علاوہ اسرائیلی انخلا کی تفصیلات کا نقشہ تیار کرنے کے لیے کافی کام کی ضرورت ہے۔

2۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے پر کام نہیں ہو رہا اور بظاہر مستقبل میں بھی نہیں ہو گا۔
اسرائیل کا دورہ کرنے والی اعلیٰ سطح کی امریکی شخصیات، جن میں نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور صدر کے داماد اور خصوصی ایلچی جیرڈ کشنر شامل ہیں، کوئی پیش رفت حاصل نہ کر سکے۔
یہ صورت حال پہلے مرحلے سے مختلف ہے، جسے اگرچہ دو سال کی تکلیف دہ بےعملی کے بعد نافذ کیا گیا، مگر نسبتاََ بلارکاوٹ نافذ کر لیا گیا۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پہلے مرحلے نے فریقین کا کم از کم ایک اہم مقصد پورا کیا، یعنی قیدیوں کی رہائی اور نسل کشی روکنا اور اس کے نفاذ کے لیے امریکہ کا شدید دباو ¿ تھا۔
شدید باہمی اختلافات کے باوجود فلسطینی گروپ اور بہت سی عرب حکومتیں، خاص طور پر مصر، اس منصوبے کے دوسرے مرحلے سے جڑے تین مسائل پر متفق ہیں۔
پہلا مسئلہ یہ کہ یہ منصوبہ مقبوضہ علاقوں کے دو جغرافیائی حصّوں یعنی مغربی کنارے اور غزہ کو پیش رفت، پالیسیوں اور قیادت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔یہ علیحدگی اسرائیل کے اس طرزِ عمل کی تائید کرتی ہے، جو فلسطینی سیاست کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش ہے۔
فلسطینی توقع کرتے ہیں کہ دونوں علاقے ایک ہی انتظامیہ کے تحت آئیں یا کم از کم باہم منسلک رہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کو غیر ملکی سرپرستی میں دے رہا ہے۔ یہ براہ راست فلسطینی آزادی اور خود ارادیت کی خواہش کے منافی ہے۔
3۔یہ فلسطینی جدوجہد کو اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی بجائے ایک اور غیر ملکی فوج یا فوجوں کے زیرِ اختیار چھوڑ رہی ہے، جس کا کوئی واضح اختتام نہیں۔ اس کے علاوہ مصر محتاط معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سرحد پر غیر ملکی فوج موجود ہو اور اس لیے وہ نفاذ سے پہلے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی خواہش ظاہر کر رہا ہے۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ منصوبے کے دوسرے مرحلے نے، جسے ٹرمپ کی اسرائیلی کنیسٹ کی تقریب میں دیے گئے متنازع خطاب نے واضح کیا، غزہ کے بحران کی سیاسی فطرت کو نظرانداز کیا اور اسے صرف انسانی اور اقتصادی بحران کے طور پر پیش کیا۔
یہ بہت زیادہ اہم ہوتا کہ منصوبہ بحران کو اس سیاسی تنازعے کے حصّے کے طور پر سامنے لاتا، جس کا حل 1967 کے بعد کے اسرائیلی قبضے کے خاتمے میں مضمر ہے اور اس طرح فلسطینیوں کو آزادی، خودارادیت اور خود مختاری دینے کا راستہ ہموار ہوتا۔اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ غزہ میں وہی ماڈل نافذ کرے جو اس نے مغربی کنارے میں تیار کیا، البتہ یہ شرط لگا کر کہ فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہ ہو۔
اس ماڈل کا مقصد اسرائیلی قبضہ کرنے والی فورسز اور پی اے کے مابین ذمہ داریوں کو تقسیم کرنا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل صرف خود، یکطرفہ اور جبراً اپنی سرحدوں، سرزمین اور سلامتی کا کنٹرول رکھتا ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ پہلے مرحلے کے بعد غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی نصف سے زیادہ زمین پر موجود ہیں، جو ایک نئی ’زرد لکیر‘ بناتا ہے۔
اسی دوران، مغربی کنارے میں اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو تعلیم، صحت، قانون و نظم، میونسپل خدمات وغیرہ کی ذمہ داری دے رہا ہے۔
وہ فریق جائز نہیں ہوگا اور صرف اسرائیلی غیرقانونی فوجی موجودگی اور قبضے کو مکمل کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
ان دو ہولناک برسوں سے حاصل ہونے والے سبق یہ ہیں کہ فلسطین کے سیاسی حقوق نظر انداز کرنے سے وہ ختم نہیں ہو جاتے۔
فلسطینیوں کی زمین اور مقدّس مقامات سے باہم وابستگی اور اسرائیل کو بین­ الاقوامی قانون سے مستثنیٰ سمجھنے کا رویہ معمول نہیں بن سکتا۔
اسرائیل کو اس کی مرضی پر چھوڑ دینا علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے اور عالمی سطح پر بھی۔
فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو کمزور کرنا، نہ کہ مضبوط بنانا، جیسا کہ اسرائیل کر رہا ہے، صرف انتہاپسندی کو بڑھا سکتا ہے جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔
اسرائیل کو اپنی مرضی پر چھوڑنے کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں بہت تیزی سے وہ تغیرات رونما ہو رہے ہیں جو دو ریاستی حل کی کوئی جھلک نہیں چھوڑ رہے، بلکہ ایک ریاستی نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کا تیزی سے ابھرتا ہوا منظرنامہ اور مسلسل سفاکی و تشدد کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
غسان الخطب برزت یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعہ جات کے لیکچرر ہیں اور انہوں نے فلسطینی اتھارٹی میں متعدد عہدے سنبھالے ہیں۔ انہوں نے یروشلم میڈیا اینڈ کمیونیکیشنز سینٹر کی بنیاد رکھی اور اس کے ڈائریکٹر رہے۔اس پوری صورتحا ل میں کیا پاکستان کو امریکا کی قراقر داد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے۔

قاضی جاوید گلزار

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھارت سے ہتھیاروں کا معاہدہ
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات؟ محمد بن سلمان کا دورہ امریکا سے قبل اہم پیغام
  • سلامتی کونسل میں پاکستان کو امریکی قر اداد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے؟
  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم: مارشل کا رینک حاصل کرنے والا تاحیات یونیفارم، صدر پر زندگی میں کوئی کیس نہیں
  • ایران میکسیکو میں اسرائیل کے سفیر کو قتل کرنے کی سازش کر رہا تھا، امریکا کا الزام
  • شمالی کوریا کے میزائل تجربے سے امریکا کو فوری خطرہ نہیں: امریکی فوج
  • امریکا کا جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • امن چاہتے ہیں لیکن کسی کے دباؤ کے آگے نہیں جھکیں گے، ایرانی صدر