اسرائیل کی سائنسی و اقتصادی تنصیبات پر ایران کی کاری ضرب کی کچھ داستانیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کویت ٹائمز نے اسرائیل کے چینل 12 کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بارہ روزہ جنگ کے دوران ایرانی میزائلوں نے اسرائیل میں 31 ہزار عمارتوں اور 4 ہزار گاڑیوں کو تباہ کیا یا شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ان نقصانات کی مجموعی لاگت 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ ترتیب و تنظیم: ایل اے انجم
"ایران اگلے چند دنوں تک اسرائیل پر فتح کا جشن منائے گا۔ اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والے سائنسدانوں اور کمانڈروں کی تدفین ہو گی جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرینگے۔ دوسری طرف تل ابیب کا ماحول سوگوار ہے، نہ کوئی تقریب، نہ تقاریر، صرف خاموشی اور یہ تلخ احساس کہ اسرائیل کے پاس منانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔" جنگ بندی کے بعد مختلف تبصروں میں سے ایک بہترین تبصرہ جو سوشل میڈیا پر ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 12 روزہ جنگ کے دوران ایرانی میزائلوں کی تباہی کو چھپانے کیلئے صیہونی ریاست میں سخت فوجی سنسرشپ نافذ کر دی گئی تھی لیکن تباہی اتنی وسیع تھی کہ چھپانے کی لاکھ کوششوں کے باؤجود تل ابیب اور حیفہ کو کھنڈر بنتے دیکھا، دنیا نے ہائپر سونک میزائلوں کو تل ابیب کے دل پر لگتے اور حیفہ بندرگاہ میں آگ اور دھواں کا خوفناک لائیو مناظر کا مشاہدہ کیا۔ ایران کے مقابلے میں صرف اسرائیل نہیں پورا مغرب تھا، کل ہی فرانس نے بھی اعتراف کیا کہ جنگ کے دوران انہوں ںے اسرائیل فوج کو خوب سپورٹ کی تھی۔ بعض عرب ممالک کے کردار بھی فراموش نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
اسرائیل میں ٹیکنالوجی کی تباہی
جنگ کے دوران مغربی میڈیا تصویر کا صرف ایک رخ دکھانے کی بھرپور کوشش کی کہ ایرانی ملٹری قیادت، کئی جوہری سائنسدان نشانہ بن گئے، پورے ایران میں موساد کے جاسوسوں کا جال بچھایا گیا تھا، ایرانی قیادت کو مفلوج کیا گیا تھا، ایئر ڈیفنس اور فضائیہ ختم ہو گئی، وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کی بڑے بڑے کمانڈرز اور جوہری سائنسدانوں کا نقصان ہوا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اس جنگ کے دوران ایران کی سٹریٹجی کیا تھی، کیا اسرائیل پر اندھا دھند میزائل داغے گئے تھے، یا کوئی ٹارگٹ لاک تھا؟ بین گوریون یونیورسٹی کے صدر کا بیان اس منظر نامے کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ بین گوریان یونیورسٹی کے صدر نے ایران کے میزائل حملوں کے دوران حیفہ، تل ابیب اور بئر السبع میں چار صہیونی یونیورسٹیوں اور ٹیکنالوجی اداروں کے تباہ ہونے کی اطلاع دی۔ یہ مراکز بنیادی طور پر اسرائیلی فوج کے پائلٹوں کی تربیت اور اسرائیلی ریاست کے فوجی اور اسلحہ سازی کے شعبوں کے لیے اہلکار تیار کرنے پر کام کرتے تھے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے خاتمے اور مقبوضہ علاقوں کے دل پر ایران کے میزائل حملوں کے کچھ عرصے بعد، صہیونی ریاست کے تعلیمی اور سائنسی ڈھانچے کو پہنچنے والے تباہ کن نقصانات کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ ادارے اسرائیلی ریاست کے سیکورٹی، فوجی اور انٹیلیجنس اداروں سے گہرے طور پر منسلک ہیں۔ ابتدائی تشخیصات کے مطابق، ایران کے میزائل حملوں میں حیفہ، تل ابیب اور بئر السبع میں کم از کم چار یونیورسٹیوں اور ٹیکنالوجی اداروں کو مکمل طور پر تباہ یا شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ اعداد و شمار پروفیسر "ڈینیئل چیمووٹز" نے تسلیم کیے، جو بنی گورین یونیورسٹی کے صدر ہیں اور صہیونی ریاست کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں نقصانات کا اعتراف کرنے والے پہلے اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ (وائزمین انسٹی ٹیوٹ پر ایرانی میزائل حملے کے بعد اس ادارے کی تباہی کی تفصیلات اور اہمیت کے حوالے سے اسلام ٹائمز پر ایک رپورٹ پہلے شائع ہو چکی ہے)
وائزمین ریسرچ سینٹر کی 40-45 لیبارٹریز تباہ
ایرانی میزائل حملوں کے نتیجے میں وائزمین ریسرچ سینٹر کی عمارت کو پہنچنے والا نقصان اسرائیلی فوجی افسران اور اس ادارے کے محققین کے ذہنوں پر برسوں تک نقش رہے گا۔ پروفیسر چیمووٹز کے مطابق، صرف وائزمین انسٹی ٹیوٹ میں 40 سے 45 تحقیقی لیبارٹریز مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں جبکہ 20 دیگر لیبارٹریز کو بھی مختلف سطح کا نقصان پہنچا ہے۔ ایرانی میزائل حملوں کے دھماکوں نے نہ صرف وائزمین ریسرچ سینٹر کی عمارت کو نقصان پہنچایا بلکہ یونیورسٹی کیمپس کی 40 دیگر عمارتوں کو بھی متاثر کیا۔ بئر السبع میں، سوروکا ہسپتال کے قریب گرنے والے میزائل نے قریب کی یونیورسٹی عمارت اور اسپورٹس سینٹر کو شدید نقصان پہنچایا۔ چیمووٹز کا کہنا تھا: "بنی گورین یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ہیلتھ سائنسز مکمل طور پر متاثر ہوئی ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ ہم وہاں کیسے تدریس دوبارہ شروع کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ چھ لیبارٹریز مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "دھماکے کی لہریں سڑک کے دوسری طرف یونیورسٹی کیمپس تک پہنچی ہیں جہاں 60 عمارتوں میں سے کم از کم 30 کو نقصان پہنچا ہے۔ صرف ایک عمارت سے 42 فیکلٹی ممبران اور طلباء کو نکالا گیا ہے۔" بئر السبع میں، ماہرین ابھی تک نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں، لیکن ابتدائی اندازوں کے مطابق نقصانات کا تخمینہ کروڑوں شیکیل (اسرائیلی کرنسی) میں ہے۔ دریں اثنا، تل ابیب یونیورسٹی نے میزائل حملوں سے بے گھر ہونے والے ہر طالب علم کو 2,000 شیکیل (تقریباً 590 ڈالر) کی اسکالرشپ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
غیر ملکی محققین اسرائیل چھوڑ کر چلے گئے
چیمووٹز نے وضاحت کی کہ دوسرا بڑا نقصان محققین کی جنگ کی صورت حال میں کام جاری رکھنے میں ناکامی ہے۔ یہ مسئلہ خاصا اہم ہے کیونکہ اسرائیل کا تحقیق و ترقی کا شعبہ عالمی سطح پر ایک لیڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت سے محققین دنیا بھر سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تحقیق کے لیے آتے ہیں۔ لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد، ان میں سے بہت سے لوگ چلے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: "ہر چیز کے الیکٹرانک بیک اپ موجود ہیں، لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ بیکٹیریا، ٹشوز، ڈی این اے کے نمونوں جیسی حیاتیاتی مواد کے لیے بیک اپ کی ضرورت پڑ سکتی ہے اگر عمارت تباہ ہو جائے۔ بیک اپ موجود تھے لیکن اکثر اسی عمارت میں فریزر میں رکھے ہوتے تھے جو اب ایران کے اسلامی انقلابی گارڈز کے میزائل حملوں سے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ بعض صورتوں میں، اسرائیلی پروفیسروں اور طلباء کی دہائیوں کی تحقیق اور محنت ہمیشہ کے لیے ضائع ہو گئی ہے۔"
صہیونی ریاست پر تحقیقی پابندیوں کا خطرہ
بن گورین یونیورسٹی کے صدر کے نقطہ نظر سے، تیسرا بڑا نقصان بین الاقوامی سطح پر سائنسی تعلقات کو پہنچا ہے، خاص طور پر مغربی یورپ کے تحقیقی مراکز کے ساتھ، جو بنیادی طور پر غزہ میں جنگ کے نتائج کی وجہ سے ہے۔ چیمووٹز نے کہا: "غزہ میں جاری جنگ کے خلاف عالمی دباؤ اور نیٹن یاہو کی پالیسیوں کی مخالفت کی وجہ سے اسرائیل کی "ہورائزن 2020" ریسرچ پروگرام میں رکنیت معطل کرنے کے خطرات موجود ہیں جو شاید دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تحقیقی فنڈنگ پروجیکٹ ہے۔" اس کے علاوہ، نیدرلینڈز، سپین، اٹلی، بیلجیم اور دیگر ممالک کی کچھ یونیورسٹیوں نے اس پروگرام میں اسرائیلی تحقیقی مراکز کی شرکت معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ صہیونی ریاست کے اعلیٰ ترین سیاسی حلقوں تک پہنچ چکا ہے، کیونکہ یہ اسرائیل کے تحقیق و ترقی کے شعبے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
اسرائیلی پائلٹوں اور اسلحہ ساز انجینئرز کے تربیتی مراکز کی تباہی
چیمووٹز نے تسلیم کیا کہ ان کی یونیورسٹی اسرائیلی فوج کے پائلٹوں اور فوجی صنعت میں کام کرنے والے انجینئرز کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا: "پچھلے 20 سالوں میں تربیت یافتہ تمام اسرائیلی فضائیہ کے پائلٹ بن گورین یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ انٹیلیجنس یونٹس کے تحقیقی شعبوں کے تقریباً تمام اعلیٰ افسران انہی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ یہاں تک کہ آئرن ڈوم، ڈیوڈز سیلنگ جیسے دفاعی نظام اور دیگر ایئر ڈیفنس سسٹمز بھی اسرائیل کے ٹیکنالوجی سیکٹر کی پیداوار ہیں، جو انہی یونیورسٹیوں کی تحقیق سے وجود میں آئے اور بعد میں ترقی پائی۔" چیمووٹز نے اسرائیلی قیادت کی تحقیق و ترقی کے شعبے کی طرف عدم توجہی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ایرانی حکام کی ترجیحات میں جامعات اور تعلیمی اداروں کو جو اہم مقام حاصل ہوا ہے وہ ہمیں غمگین کر دیتا ہے۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ایرانیوں نے ہماری اہمیت کو ہماری اپنی کابینہ کے بعض اراکین سے بہتر طور پر سمجھ لیا ہے۔"
معاشی نقصانات اور ابتدائی اندازے
کویت ٹائمز نے اسرائیل کے چینل 12 کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بارہ روزہ جنگ کے دوران ایرانی میزائلوں نے اسرائیل میں 31 ہزار عمارتوں اور 4 ہزار گاڑیوں کو تباہ کیا یا شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ان نقصانات کی مجموعی لاگت 20 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ سخت سنسرشپ کے سائے میں اعداد و شمار نقصانات کی مجموعی لاگت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے کیونکہ صیہونی ریاست ہمیشہ اپنے نقصانات کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ بدھ کے روز عبرانی میڈیا نے ایران کے حملوں سے اسرائیلی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں بتدریج معلومات جاری کرنا شروع کیا ہے۔
ایران کیساتھ جنگ سے اسرائیل کو 20 ارب ڈالر تک کا نقصان
العربیہ الجدید کے مطابق، صہیونی ریاست کی معاشی رپورٹس کے مطابق ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ نے اسرائیلی معیشت کو تقریباً 12 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچایا ہے، جس میں فوجی اخراجات، ایران کے میزائل حملوں سے ہونے والے نقصانات، کاروباری افراد کو معاوضے کی ادائیگی، اور تعمیر نو کے اخراجات شامل ہیں۔ صہیونی ریاست کے معاشی حلقوں کے اندازوں کے مطابق، اگر بالواسطہ نقصانات اور داخلی محاذ کے معاوضوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ لاگت 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔ عبرانی اخبار یدیعوت احرونوت نے رپورٹ کیا کہ اس جنگ نے کابینہ کے خزانے پر تقریباً 7 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ ڈالا ہے۔ اس صہیونی میڈیا نے زور دے کر کہا کہ اسرائیلی فوج نے کابینہ سے اپنے نقصانات کی تلافی کے لیے تقریباً 11 ارب 70 کروڑ ڈالر کی درخواست کی ہے، جس میں انٹرسیپٹر میزائل اور دیگر اسلحہ کے ذخائر کی خریداری شامل ہے۔ اعلان کردہ نقصانات کئی اہم شعبوں میں تقسیم ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
- فوجی براہ راست اخراجات کے لیے 10 ارب شیکل (اسلحہ، میزائل انٹرسیپشن، جنگی جہازوں کی پروازوں اور ریزرو فورسز کے سازوسامان کے اخراجات)
- متاثرہ کاروباریوں، مزدوروں اور 15,000 سے زائد بے گھر ہونے والوں کو معاوضہ دینے کے لیے 5 ارب شیکل
- ایران کے میزائل حملوں سے متاثرہ عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت کے لیے 5 ارب شیکل
ایران کی صہیونی ریاست کی کمپنیوں اور بجٹ پر کاری ضرب
یدیعوت احرونوت نے واضح کیا کہ یہ اعداد و شمار ہزاروں اسرائیلیوں کے ہوٹلوں میں رہنے کے اخراجات، عارضی رہائش کے بعد متبادل رہائش کے لیے کرایے، اور بند ہونے والے کاروباروں کے معاوضے کو شامل نہیں کرتے۔ تقریباً ایک تہائی متاثرہ جائیدادوں کے صحیح نقصانات کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا ہے، اور ان کی تعمیر نو کے لیے اربوں شیکل درکار ہوں گے۔ اس عبرانی میڈیا نے صہیونی ریاست کے وزارت خزانہ کے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل جنگ کے اخراجات اور فوری دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امریکہ سے مزید مالی امداد اور ضمانتوں کی درخواست کرے گا۔ اس ذریعے نے ایران کے ساتھ جنگ کے بعد صہیونی ریاست کی کمپنیوں کی خراب مالی حالت پر بھی روشنی ڈالی اور زور دیا کہ 12 دنوں میں اسرائیلی کمپنیوں پر جنگ کا معاشی بوجھ 3.
صہیونی ریاست کے معاشی اخبار کالکالیست نے بھی رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے ایران کے ساتھ جنگ پر تقریباً روزانہ 72.5 کروڑ ڈالر خرچ کیے، اور ابتدائی اندازوں کے مطابق معاوضہ فنڈ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1.5 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ اس سال بجٹ خسارہ 6 فیصد سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ واضح رہے کہ بعض عبرانی میڈیا نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ دوران جنگ روزانہ ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ کرنا پڑ گئے تھے۔عبرانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ایران کے میزائل حملوں نے ایندھن اور توانائی کے بہاؤ میں بڑی رکاوٹیں پیدا کی ہیں، نیز تل ابیب میں اسٹاک ایکسچینج کی مرکزی عمارت کو نشانہ بنانے کے بعد سرمایہ کاری کے بازار کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ اگر جنگ جاری رہتی تو اسرائیل کو مکمل معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا۔ فنانشل ایکسپریس ویب سائٹ نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے ایران کے ساتھ جنگ کے پہلے ہفتے میں 5 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے، جبکہ وال اسٹریٹ جرنل نے بتایا کہ اسرائیل کے ایئر ڈیفنس میزائل سسٹمز کی روزانہ لاگت 20 کروڑ ڈالر تھی۔
صہیونی ریاست کی ہوائی نقل و حمل اور ایئرلائنز کو نقصان
فلسطین کی امریکن یونیورسٹی میں فنانس کے اسسٹنٹ پروفیسر ناصر عبد الکریم نے اناطولیہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست اور ایران کی جنگ نے نہ صرف اسرائیل پر براہ راست فوجی اخراجات مسلط کیے ہیں، بلکہ اسرائیل کی صنعتی پیداواری سرگرمیوں کو بھی منفی طور پر متاثر کیا ہے، اور اسرائیل پر براہ راست اور بالواسطہ 20 ارب ڈالر تک کا بوجھ پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے بجٹ خسارے میں 6 فیصد اضافے کی توقع ہے، اور ایران کے حملوں میں متاثرہ صہیونی آبادکاروں کو معاوضے کی ادائیگی اسرائیل کی مالی حالت کو مزید خراب کر دے گی۔ صہیونی ریاست اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے تین اقدامات میں سے ایک پر غور کر رہی ہے: صحت اور تعلیم کے شعبوں میں عوامی اخراجات میں کمی، ٹیکس میں اضافہ، یا قرض کا حصول جو قرضے اور آمدنی کا تناسب 75 فیصد سے زیادہ بڑھا سکتا ہے۔
فنانشل ٹائمز ویب سائٹ نے بھی رپورٹ کیا کہ ایران نے تل ابیب اور حیفا میں اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا، جس میں حیفا ریفائنری پر حملہ بھی شامل ہے جو اسرائیل کی سب سے بڑی ریفائنری ہے اور جسے بند کر دیا گیا ہے، جس سے روزانہ تقریباً 30 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایران کے حملوں کے نتیجے میں صہیونی ریاست کا بین گورین ہوائی اڈہ بھی جنگ کے دوران معطل ہو گیا، جبکہ عام طور پر یہ ہوائی اڈہ روزانہ 300 پروازیں انجام دیتا تھا اور 35,000 مسافروں کو منتقل کرتا تھا۔ صہیونی ریاست کے سب سے بڑے ہوائی اڈے پر پروازوں کے معطل ہونے کے ساتھ ساتھ اہم اسرائیلی ایئرلائنز کی پروازیں بھی معطل یا موڑ دی گئیں، جس سے تقریباً روزانہ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ ایران کے شدید میزائل حملوں، خاص طور پر اسرائیل کے اسٹاک ایکسچینج پر حملے جس سے اسرائیل کی کل برآمدات کا تقریباً 8 فیصد حصہ وابستہ ہے، کے نتیجے میں صہیونی ریاست کے مالیاتی بازاروں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
اسٹاک پر حملے نے مقبوضہ فلسطین میں سرمایہ کاروں میں خوف و ہراس پھیلا دیا، جس سے اسٹاک کی بڑے پیمانے پر فروخت اور مارکیٹ میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، جس نے اسرائیل کی معاشی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا۔ عبرانی میڈیا نے وائزمین انسٹی ٹیوٹ اور حیفا ریفائنری کو ایران کے میزائل حملوں سے پہنچنے والے اربوں ڈالر کے نقصانات کا بھی حوالہ دیا ہے، اور زور دیا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں سے اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات کی مکمل تصویر بتدریج سامنے آ رہی ہے۔ یہ نقصانات سخت سنسرشپ کے باؤجود جاری ہونے والے محتاط اعداوشمار پر مشتمل ہے۔ صیہونی ریاست کے عکسری ڈھانچے اور تنصیبات کو پہچنے والے نقصانات اور تباہی کو ابھی تک بلیک آؤٹ کیا گیا ہے۔ ایک جرمن خاتون صحافی کی ویڈیو حال ہی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تیزی سے وائرل ہوئی جس میں وہ بتا رہی ہے کہ اسرائیلی فوج نے عسکری تنصیبات کو پہچنے والے نقصانات کی کوریج پر سختی سے پابندی عائد کر رکھی ہے اور کسی بھی صحافی کو متاثرہ علاقوں تک رسائی نہیں دی جا رہی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران کے میزائل حملوں سے جنگ کے دوران ایران شدید نقصان پہنچا یونیورسٹی کے صدر مکمل طور پر تباہ گورین یونیورسٹی صہیونی ریاست کی عبرانی میڈیا نے صہیونی ریاست کے میزائل حملوں کے نقصان پہنچا ہے نقصان پہنچایا ایرانی میزائل بئر السبع میں ایران کے ساتھ والے نقصانات اسرائیلی فوج نے رپورٹ کیا رپورٹ کیا کہ پہنچنے والے نے ایران کے تل ابیب اور کے حوالے سے ارب ڈالر تک روزہ جنگ کے چیمووٹز نے نقصانات کا نے اسرائیل اسرائیل کے نقصانات کی کہ اسرائیل کے اخراجات سے اسرائیل اسرائیل کی والے نقصان اسرائیل پر ہونے والے براہ راست کو پہنچنے کے مطابق ساتھ جنگ کا نقصان انہوں نے ایران کی کہ ایران کی تباہی سے زیادہ ڈالر کا کرنے کے تباہ ہو کو بھی کیا ہے سے ایک اور اس کے بعد کے لیے لاگت 20
پڑھیں:
امریکی و اسرائیلی حملوں سے ایٹمی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا، ترجمان ایرانی وزارت خارجہ
تہران :ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی اور اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا۔
الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے جب ان سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ہونے والے حملوں سے متعلق سوال کیا گیا تو اسماعیل بقائی نے کہا کہ ’جی ہاں، ہماری جوہری تنصیبات کو بری طرح نقصان پہنچا ہے، یہ بات یقینی ہے کیونکہ ان پر بار بار حملے کیے گئے ہیں‘۔
اسماعیل بقائی نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک تکنیکی معاملہ ہے جس پر ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم اور دیگر متعلقہ ادارے کام کر رہے ہیں‘۔
خیال رہے کہ یہ کسی ایرانی عہدیدار کی جانب سے امریکی و اسرائیلی حملوں سے ایرانی جوہری تنصیبات کو خاطر خواہ نقصان پہنچنے کا پہلا بیان ہے۔
اس سے قبل امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ابتدائی امریکی انٹیلی جنس اندازے کے مطابق ایران پر امریکی حملوں میں جوہری تنصیبات تباہ نہیں ہوئیں، امریکی حملوں سے ایرانی جوہری پروگرام صرف کچھ مہینوں کے لیے پیچھے ہوگیا ہے۔
تاہم امریکی صدر نے ان رپورٹس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حملے میں ایرانی کی جوہری تنصیبات مکمل طورپر تباہ ہوچکی ہے۔
یاد رہے کہ ہفتے کے روز امریکا نے ایران اسرائیل جنگ میں کودتے ہوئے ایران کی 3 جوہری تنصیبات پر بمباری کی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ امریکی طیاروں نے فردو، نطنز اور اصفہان جوہری سائٹس کو نشانہ بنایا۔