فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جون2025ء)پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے سابق وزیراعظم عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس بات کریں ، پاکستان کی مسلح افواج، پاکستان کی فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے،ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں، بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے،سٹریٹجک غلط فہمیوں کا شکار لوگ اپنا ذہن صاف کریں،بلوچستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں،یہ حقائق ہیں اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے،بلوچستان میں جو دہشت گرد کام کر رہے ہیں، وہ کس کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ ہم سے براہ راست مقابلے سے گھبراتے ہیں،کسی کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ کسی کو غائب کرے،سب سے پہلے ہمیں بیانیے، جھوٹ اور سچ میں فرق کرنا ہوگا،پاکستان میں قانون کے نظام کو موثر اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے،اظہارِ رائے کی آزادی کے کچھ اصول اور قوانین ہیں ، معاشرہ ان کے بغیر چل نہیں سکتا،ایک پاکستانی شہری کی زندگی ہمیں ہزاروں افغان شہریوں سے زیادہ مقدم ہے،ہمیں معلوم ہے ہم کس سے نمٹ رہے ہیں، یہ افغان نہیں ہیں انڈین پیسہ، انڈین مدد اور انڈیا کی حکمت عملی ہے ،ان میں سے کچھ افغانوں کے پیچھے ہیں، ہم اپنے ملک اور اس کی حفاظت میں کسی چیز سے گریز نہیں کر سکتے، افغانستان سے درخواست ہے اپنی زمین کو ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔
(جاری ہے)
بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوںنے کہاکہ ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں، یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس میں بات کریں، پاکستان کی مسلح افواج، پاکستان کی فوج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس انٹرویو میں بلوچستان میں مبینہ جبری گمشدگیوں، فوج پر سیاست میں مداخلت کے الزامات سمیت انڈیا اور افغانستان سے متعلق کردار سے متعلق سوالات کے جواب دیے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ ہم سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، ہم پاکستان کی ریاست سے بات کرتے ہیںجو کہ آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے،جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے اور افواجِ پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔جب ڈی جی آئی ایس پی آر سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو، فوجی قیادت کا ہی نام آتا ہی انہوںنے جواب دیاکہ میرا خیال ہے کہ یہ سوال ان سیاستدانوں یا سیاسی قوتوں سے پوچھنا چاہیے جو اس کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس معاملے کو ہی اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں اور شاید یہ ان کی اپنی نااہلی یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہے جن کی طرف وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ میں ان کے سیاسی مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا،ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس سے دور رکھیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سیاست میں مداخلت کے تاثر کو ردّ کیا ہے اور اسے سیاسی ایجنڈوں کو تقویت دینے کیلئے پھیلائی گئی افواہ قرار دیا۔انہوںنے کہاکہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں،یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے لیکن جب معرکہِ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی نہیں، بالکل نہیں،ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے،یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ اس لیے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج، جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے، یہ سب کچھ کر سکتی ہی ہرگز نہیں۔ ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں، بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی فوج متعدد مواقع پر سیاسی حکومت، چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی، کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے۔انہوںنے کہاکہ میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا لیکن کورونا کے دوران پاکستان میں ردعمل کی قیادت کس نے کی وزارت صحت نی فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم این سی او سی کون چلا رہا تھا اس پورے ردعمل کی قیادت کس کے پاس تھی فوج کے پاس۔انہوںنے کہاکہ اس وقت کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، اس ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کے لیے نکلتی ہیں، تو فوج ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے، جب واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتے ہیں، تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے کیونکہ مقامی لوگ وہاں مسئلہ کھڑا کرتے ہیں، اس ملک میں، اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں،ہم عوام کی فوج ہیں اور جب بھی حکومت وقت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، جب وہ ہمیں کہتی ہے تو آرمی حتی الامکان حد تک پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے آتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں،اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں، ہم اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کی حکومت ہے، ہم عوام کے تحفظ اور بھلائی کے لیے آتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ جو داخلی سلامتی کے لیے فوج خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود ہے، وہ بھی صوبائی حکومت کے احکامات پر ہے۔ ہم یہ فیصلے خود نہیں کرتے،یہ سیاسی قوتیں طے کرتی ہیں کہ فوج کو کہاں تعینات کیا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق بھی بات کی اوراس سوال پر کہ مقامی آبادی کی حمایت کے بغیر کیا بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے کوئی آپریشن کامیاب ہو سکتا ہی ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ انڈیا کی جانب سے پھیلایا گیا پراپیگنڈہ ہے کہ بلوچستان کے عوام پاکستانی فوج کے ساتھ نہیں ہیں۔انھوں نے واضح کیا کہ جو لوگ سٹریٹجک غلط فہمیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں، انھیں اپنا ذہن صاف کرنا چاہیے، یہ خیال کہ بلوچستان کے لوگ پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ نہیں ہیں، یہ بالکل غلط ہے، بلوچستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں،یہ حقائق ہیں اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان اور پاکستان ایک ہیں۔ یہ ہمارے سر کا تاج ہے۔ بلوچستان اور پاکستان کے درمیان کوئی علیحدگی نہیں ہے،ایک بلوچ، پنجابی، پختون، کشمیری یا سندھی کے درمیان ہم سب ایک ہیں۔انہوںنے کہاکہ یہ مفروضے ان لوگوں نے پیدا کیے ہیں جو انڈین پیسے سے ملازمت کر رہے ہیں اور یہ الٹے سیدھے آئیڈیاز دے رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ را نے ہزاروں جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنائے ہیں جو یورپ میں چل رہے ہیں اور وہ ایک خام خیالی میں رہتے ہیں کہ جیسے بلوچستان میں وسیع پیمانے پر پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ بالکل سچ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بلوچستان میں جو دہشت گرد کام کر رہے ہیں، وہ کس کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ ہم سے براہ راست مقابلے سے گھبراتے ہیں،اگر وہ ہمارے سامنے آئیں تو ہم انھیں مار دیتے ہیں۔ وہ گوادر آئے، ہم نے انھیں ختم کر دیا،جہاں بھی وہ ہماری پوسٹوں پر حملہ کرنے آتے ہیں، ہم انھیں مار دیتے ہیں۔ وہ کس کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں،وہ عوام پر حملہ کر رہے ہیں، بسوں سے لوگوں کو اتار کر قتل کر رہے ہیں،وہ آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں،کیا ایسی کارروائیاں انھیں عوام میں کوئی عزت دلا رہی ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عوام کہہ رہے ہیں کہ آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں وہ اصل میں کس چیز کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ ہر اس چیز پر حملہ کر رہے ہیں جو بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور بلوچستان کی حکومت بلوچستان کے لوگوں کی خوشحالی کے لیے مختلف شعبوں میں دن رات کام کر رہی ہیں، معدنیات، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کمیشن کام کر رہا ہے، تاہم یہ بھی کہا کہ فوج جبری گمشدگیوں کی اجازت نہیں دیتی۔انہوںنے کہاکہ سب سے پہلے ہمیں بیانیے، جھوٹ اور سچ میں فرق کرنا ہوگا، کیا لاپتہ افراد کا مسئلہ پاکستان میں منفرد ہی نہیں، ایسا نہیں ہے،کیا انڈیا میں لاپتہ افراد ہیں جی ہاں، بہت بڑی تعداد میں، لاکھوں میں، کیا برطانیہ میں لاپتہ افراد ہیں جی ہاں،کیا امریکہ میں ہیں جی ہاں، وہاں بھی ہیں،اب پاکستان میں لاپتہ افراد کے معاملے پر، ایک کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیرنسز ہے، جو ایک مستقل کمیشن ہے، اس کی سربراہی سپریم کورٹ کی سطح کے ایک جج کر رہے ہیں، حکومت پاکستان ہر ایک ایک بندے کو تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ کہنے کے بعد میں واضح کر دوں کہ کسی کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ کسی بھی شخص کو غائب کرے، اس کو اٹھائے اور اس کو حبس بے جا میں رکھے،اس کی کوئی قانون اجازت نہیں دیتا، ہم سختی سے اس کی ممانعت کرتے ہیں اور جو بھی ذمہ دار ہیں انھیں تلاش کیا جاتا ہے اور انھیں ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔انھوں نے تسلیم کیا کہ لاپتہ افراد کی تعداد پر بحث سے قطعہ نظر، یہ الزام فوج پر آتا ہے۔انھوں نے کہا کہ اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ ایسی صورت میں ایف سی کو اس کی تفتیش کرنا نامناسب ہوتا ہے کیونکہ ان پر الزام ہے، اس لیے ریاست نے ایک مناسب قانونی عمل وضع کیا ہے۔ اس نے ایک ایسا کمیشن بنایا ہے جو بہت آزاد، بااختیار اور خاص طور پر انہی کیسز کی تحقیقات پر مامور ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ میرے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم تحقیق کریں،یہ ادارہ جاتی نظام کی بات ہے،میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ کسی بھی فرد کو اس کے گھر سے اٹھانا اور غیر قانونی حراست میں رکھنا بالکل غلط ہے، اس کا ایک قانونی عمل ہے،کسی بھی فرد کو قانون کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے اور اگر وہ قصوروار ہے تو قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں قانون کے نظام کو موثر اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے جس طرح یورپ میں ہوتا ہے کہ فسادات ہوئے تو ایک ہفتے میں سزا ہوئی لوگوں کو۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری سے سائبرنگرانی اور آزادی اظہاررائے پر کنٹرول بارے سوال اور پوچھا کہ اگر یہ الزام سچ ہے تو پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ہی شہریوں کی سائبر نگرانی کی ضرورت کیوں ہی ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلق بنیادی دستاویز ہے جس میں لکھا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی تو ہو گی تاہم اس کے کچھ اصول اور پابندیاں ہوں گی،یہ پابندیاں بالکل واضح ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں کی جا سکتی جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہو، یا پاکستان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرے، ہمارے عدالتی نظام کی توہین کرے، عوام کی اخلاقیات کو تباہ کرے۔انھوں نے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے کچھ اصول اور قوانین ہیں اور یہ اس لیے اہم ہیں کہ معاشرہ ان کے بغیر چل نہیں سکتا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستان میں آزادی اظہار رائے کا تقابل انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران انڈیا میں مبینہ قدغنوں سے کرتے ہوئے کہا کہ اس بات پر بھی غور کریں کہ پاکستان میں کتنی اظہارِ رائے کی آزادی ہے اور اس کا گذشتہ دنوں انڈیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت سے موازنہ کریں،آپ نے دیکھا کہ انھوں نے نہ صرف بین الاقوامی یا پاکستان کے اکاؤنٹس بند کیے بلکہ اپنے ہی انڈین سمجھدار لوگوں کے اکاؤنٹس بھی بند کر دیے۔ وہ اب بھی ایسا کر رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں تاہم اس سوال پر کہ اس حالیہ کشیدگی کی بجائے گذشتہ چند سالوں میں دیکھا جائے تو پاکستان میں صحافیوں کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور میڈیا ہاؤسز پر دباؤ کی باتیں بھی سامنے آئیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ میڈیا چینلز کی اپنی رپورٹنگ کے حوالے سے اپنی ترجیحات اور ایڈیٹوریل کنٹرول ہوتے ہیں،پھر پیمرا کا ایک قانونی فریم ورک ہوتا ہے۔ انھوں نے خود اس پر دستخط کیے ہوتے ہیں اور بطور لائسنس ہولڈر اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں،اب جب وہ خود ان اصولوں پر عمل کرتے ہیں تو لوگ اس پر مفروضے بنا لیتے ہیں، جن پر ہم کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔کالعدم تحریک طالبان کے حملوں بارے میں بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم عبوری افغان حکومت سے مختلف سطحوں پر رابطے میں رہے ہیں کہ آپ ہمارے برادر مسلم ہمسایہ ہیں اور آپ برائے مہربانی ان خوارج اور دہشت گردوں کی حمایت نہ کریں، یہ ان کے ہیڈکوارٹرز اور مراکز ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں اور ساتھ ہی جب ہم بہت سلیقے اور سفارتی احترام کے ساتھ بات کرتے ہیں تو اسی سانس میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک پاکستانی کی زندگی اور خون ہمارے لیے ہزار افغانوں سے زیادہ قیمتی ہے فکیونکہ یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے مسلح افواج بنی ہیں یعنی پاکستانی عوام کی جان، عزت اور خودمختاری کا تحفظ اور ہم نے یہ صرف کہا نہیں، بلکہ بارہا کر کے دکھایا ہے، میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔انہوںنے کہاکہ ہمیں معلوم ہے ہم کس سے نمٹ رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ یہ افغان نہیں ہیں بلکہ انڈین پیسہ، انڈین مدد اور انڈیا کی حکمت عملی ہے اور ان میں سے کچھ افغانوں کے پیچھے ہیں۔اس سوال پر کہ کیا پاکستان افغانستان کے اندر دہشت گرددوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم ہمیشہ اس معاملے پر افغان حکومت سے کھل کر بات کرتے ہیں کہ ہماری اوّلین ترجیح پاکستانی شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہے اور یہ ہمارا مقدس فریضہ ہے،یہ وہ مقدس ذمہ داری ہے جو ہمیں سونپی گئی ہے،ہم جو بھی ضروری ہو گا، کریں گے اور آپ نے اس کا عملی مظاہرہ 10 مئی کو آپریشن بنیان المرصوص میں دیکھا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے 26 مقامات پر اعلانیہ حملہ کیا، صرف ایل او سی یا ورکنگ باؤنڈری پر نہیں بلکہ بین الاقوامی سرحد پار بھی جا کر ان کو مارا، ہم اپنے ملک اور اس کی حفاظت میں کسی چیز سے گریز نہیں کر سکتے لیکن ساتھ ہی ہم افغانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنی زمین کو ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر نے کہا کہ کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ پاکستان کی مسلح افواج نے کہا کہ پاکستان سیاست میں ملوث انہوںنے کہاکہ رائے کی ا زادی سیاسی جماعتوں بلوچستان میں کہ بلوچستان پاکستان میں اور پاکستان لاپتہ افراد پاکستان کے کر رہے ہیں ا پاکستان دیتے ہیں نہیں ہیں کیا جائے قانون کے کی ضرورت کرتے ہیں انڈیا کی نے کہاکہ کی حکومت بات کرتے ہیں کہ ا ساتھ ہی عوام کی کے ساتھ ہیں اور نہیں کر فوج کے کے لیے ہے اور ہیں کی کہ فوج اور اس کسی کو کام کر ہیں ان کی فوج فوج کو اور ان کے پاس
پڑھیں:
پاک افغانستان مذاکرات کی ناکامی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251109-03-2
پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی برقرار ہے۔ ناکام مذاکرت افغانستان پاکستان کسی کے لیے ٹھیک نہیں، اور پاکستان کے لیے تو بالکل ٹھیک نہیں، پڑوسی ملک افغانستان کے درمیان تازہ ترین کشیدگی، جس کے بعد دوحا اور استنبول میں مصالحانہ مذاکرات کی کوششیں ہوئیں، لیکن اعتماد کے بحر ان کی وجہ سے نتیجہ خیز نہیں ہوا، مذاکرات میں بظاہر مقصد ایک پائیدار جنگ بندی، نگرانی کے میکانزم اور سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے واضح شرائط طے کرنا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اعتماد کی کمی، عسکری اور سیاسی موافقت کا فقدان، اور علاقائی طاقتوں کے مختلف مفادات نے گفتگو کو بارہا ناکام کیا یا کم از کم اس کی تاثیر کم کر دی ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں نے دونوں اطراف میں انسانی جانوں کا شدید نقصان دکھایا ہے، فوجی اور شہری، دونوں ہلاک ہوئے ہیں اور یہ تصادم اس بات کا ثبوت ہیں کہ محض ڈپلومیسی کی بات چیت سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، جب تک اس کے پیچھے ایک قابل ِ عمل اور قابل ِ جانچ میکانزم قائم نہ ہو۔ دوحا میں پہلی ملاقات کے بعد ایک غیر مستحکم جنگ بندی پر اتفاق ہوا، جبکہ استنبول میں گفتگو کے اگلے مرحلے میں نگرانی کے طریقہ کار کے قیام پر عمومی اتفاق اور بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ سامنے آیا تھا؛ مگر متعدد رپورٹس اور تجزیہ کار کے مطابق یہ معاہدے عملی جامہ پہنانے میں بہت کم کامیاب رہے یا پھر معاملات جلد از جلد دوبارہ الجھ گئے۔
افغان فریق کے نقطہ ٔ نظر سے ان کے نمائندے اپنی تجاویز کو ’منطقی اور پاکستان کے لیے آسانی سے قابل ِ عمل‘ قرار دیتے ہیں؛ تاہم اسلام آباد کا مؤقف یہ ہے کہ پیش کردہ مطالبات ناقابل قبول اور جارحانہ ہیں، اس کشمکش کا مرکز عموماً وہ مطالبات ہیں جو پاکستان طرف سے ’سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے‘ کے شقوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اسلام آباد نے اپنے شواہد کی بنیاد پر جو مطالبات ثالثوں کے سامنے رکھے، ان کا کہنا تھا کہ مقصد محض سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہے اور یہ مطالبات جائز اور منطقی ہیں۔ پاکستانی ترجمانوں نے واضح کیا کہ اگر ان مذاکرات میں عمل درآمد نہ ہوا تو اسلام آباد اپنے عوام اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ بات چیت کے عمل کی ناکامی کے معاشی، سفارتی اور انسانی قیمتیں بڑی ہوں گی۔ پالیسی سازوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان نے پچھلے چالیس سال میں افغانستان کے اندرونی بحرانوں میں براہِ راست اور بالواسطہ طور پر زندگیوں، معیشت اور سلامتی کے اعتبار سے جو قربانیاں دیں، وہ معمولی نہیں تھیں، پناہ گزینوں کی اکثریت کا بوجھ، سرحدی دہشت گردی کے خلاف طویل فوجی مہمات، اور علاقائی عدم استحکام کے اثرات نے پاکستان کی استعدادِ کار پر دباؤ ڈالا ہے۔ اس پس منظر کا تحفظ یہ بتاتا ہے کہ اسلام آباد کیوں سخت موقف اپناتا ہے اور کیوں اس کے مطالبات کو محض سفارتی الفاظ میں نمٹا کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ اگر ہم مذاکراتی ناکامی کی اندرونی وجوہات پر نظر ڈالیں تو چند ایسے بنیادی مسائل نظر آتے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا سیاسی خود فریبی ہوگی۔ پہلا مسئلہ اعتماد کا فقدان ہے، دونوں اطراف میں سنجیدہ سطح کا اعتماد موجود نہیں جس کی بنا پر کوئی بھی فریق اپنے دفاعی یا سیکورٹی اقدامات میں نمایاں ڈھلاؤ دکھائے۔ دوسرا، عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین ہم آہنگی کا فقدان ہے؛ پاکستان میں ملکی حکمت ِ عملی جب عسکری اور سفارتی سطح پر یکساں نہیں تو مذاکراتی ٹیم کے پاس عملی لچک کم رہ جاتی ہے۔ تیسرا، خطے میں بیرونی طاقتوں اور ثالثوں کے کردار اہم رہا جہاں ترکی اور قطر نے ثالثی کا کردار ادا کیا، اس عمل کو بظاہر سہارا تو ملا مگر یہ سہارا طویل المدتی ہم آہنگی میں تبدیل نہ ہو سکا۔ ثالثی اس وقت تک کامیاب رہتی ہے جب فریقین اپنے اندر بنیادی توازن اور سیاسی تیاری رکھتے ہوں، ورنہ ثالثی عارضی طور پر صورتِ حال کو ٹھنڈا کر دیتی ہے مگر بنیادی تضادات برقرار رہتے ہیں۔ پاکستان کے لیے مخدوش بات یہ ہے کہ اگر مذاکرات بارہا ناکام رہیں تو یہ سلسلہ خانہ جنگی یا بڑے پیمانے پر عسکری کارروائی کی طرف نہیں جانا چاہیے، اور نہ ہی عوامی سطح پر ایسی تجاویز قابل قبول ہوں جو نہ صرف خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلیں بلکہ خانگی وسائل اور معیشت پر ناقابل ِ تلافی اثرات ڈالیں۔ اس اعتبار سے ’تمام ضروری آپشنز‘ کے جملے، جو سرکاری سطح پر استعمال کیے جاتے ہیں، بعض اوقات داخلی مسائل اور بین الاقوامی تشویش کو جنم دیتے ہیں۔ مذاکرات کے ناکام ہونے کی صورت میں فوجی یا مخصوص کٹے ہوئے آپریشنز ممکن ہیں مگر ان کے نتیجے میں سیکورٹی کی وہ صورتِ حال جن کا تذکرہ کیا جاتا ہے، مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے خاص طور پر جب افغانستان میں مرکزی کنٹرول کمزور ہو اور علاقائی علٰیحدہ گروہ یا امن دشمن عناصر خود کو کسی فضا میں آزاد محسوس کریں۔
اس صورتِ حال میں پاکستان کو دو متوازی حکمت ِ عملیاں اپنانی ہوں گی: ایک تو مختصر المدت، عملی اور تکنیکی نوعیت کی، جس میں سرحدی نگرانی کے بہتر طریق کار، مشترکہ کارروائی کے اہداف، اور ثالثی کے ذریعے قابل ِ عمل میکانزم کو نافذ کرنا شامل ہو؛ دوسری، طویل المدت پالیسی جس میں خطے کی مستقل استحکام کے لیے سیاسی شمولیت، اقتصادی روابط کی تعمیر، اور افغانستان کے اندر موثر ریاستی کنٹرول کو فروغ دینے کی کوششیں شامل ہوں۔ درحقیقت، صرف عسکری یا سفارتی کوششیں اکیلے مسئلے کو حل نہیں کریں گی، ایک جامع نقطہ ٔ نظر درکار ہے جس میں معاشی امداد، انفرا اسٹرکچر کا اشتراک، اور باہمی اعتماد پیدا کرنے والے اقدامات شامل ہوں۔ ایک دانش مندانہ راستہ یہ ہو گا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کو ’دشمن‘ سمجھنے کے بجائے باہمی مفادات کی روشنی میں تعلق بنائیں جہاں انسانی فلاح، اقتصادی استحکام اور بین الاقوامی تعلقات کو مقدم رکھا جائے۔ افغان قیادت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں اس کے خود کے مستقبل کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ خطے کی سلامتی دونوں فریقین کے مشترکہ مفاد میں ہے؛ اس لیے ناکام مذاکرات کسی کو بھی فائدہ نہیں دیں گے، نہ پاکستان کو، نہ افغانستان کو، اور نہ ہی خطے کے دوسرے ملکوں کو۔ اس کا کوئی فائدہ ہوگا۔ ضرورت دونوں کے لیے اس وقت یہ ہے کہ مذاکراتی ناکامی پر غم و غصہ دکھانے کے بجائے، ایک منظم، شواہد پر مبنی، اور شفاف حکمت ِ عملی مرتب کی جائے جس میں ثالثی کو ایک معاون کردار دیا جائے مگر آخری فیصلے دونوں ملک اپنے قومی مفادات اور بین الاقوامی ذمے داریوں کے پیش ِ نظر کریں۔ اگرچہ تعلقات کی بحالی پیچیدہ اور دیر طلب ہو سکتی ہے، مگر یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ جبر یا عسکری تسلط کی حکمت ِ عملیاں طویل المدت استحکام فراہم نہیں کرتیں، استحکام تبھی ممکن ہے جب دونوں اطراف اپنی پالیسیوں میں عملی لچک اور سیاسی عزم دکھائیں۔