data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کررہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتظامیہ کے ذریعے ایران کو 30 ارب ڈالرز کی مالی امداد دینے پر غور کر رہے ہیں تاکہ ایران سویلین جوہری پروگرام بنا سکے۔

لیکن حقائق کی جانچ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ حتیٰ کہ صدر ٹرمپ نے ایسی کسی تجویز کی سختی سے تردید کی ہے۔

سی این این اور این بی سی نیوز نے اپنی رپورٹس میں کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ابتدائی سطح پر اس منصوبے پر غور کر رہی ہے کہ اگر ایران یورینیم کی افزودگی روک دے تو اسے معاشی مراعات دی جائیں، تاہم ان رپورٹس میں اس بات کا ذکر تھا کہ تجاویز ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔

ان رپورٹس پر صدر ٹرمپ نے جمعے کی شب اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’سوشل ٹرتھ‘ پر ردِعمل دیتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ جعلی میڈیا کے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ ایران کو ایک سویلین جوہری تنصیب کے لیے 30 ارب ڈالر دینا چاہتے ہیں، لیکن انہوں نے ایسا کوئی مضحکہ خیز خیال کبھی نہیں سنا اور یہ ایک بڑا جھوٹ ہے۔

واضح رہے کہ اپریل سے امریکا اور ایران کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کے سفارتی حل کے لیے بالواسطہ بات چیت جاری ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے جبکہ امریکہ کا اصرار ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کو 30 ارب ڈالرز دینے کے دعوے کی کوئی حقیقت نہیں، یہ محض افواہ ہے جس کی صدر ٹرمپ خود سختی سے تردید کرچکے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جوہری پروگرام ایران کو کے لیے

پڑھیں:

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری کشیدگی میں ممکنہ کمی کے آثار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) بدھ کے روز ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب کہا کہ ایران کبھی بھی ایٹمی بم بنانے کی کوشش نہیں کرے گا، تو اس کے چند ہی گھنٹے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا، ''ہم انہیں نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔‘‘

وٹکوف نے نیویارک میں کونکورڈیا سمٹ میں کہا،''ہم ان سے بات کر رہے ہیں۔

اور کیوں نہ کریں؟ ہم سب سے بات کرتے ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمارا کام مسائل کو حل کرنا ہے۔‘‘

قبل ازیں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے کبھی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ کبھی کرے گا۔

(جاری ہے)

مسعود پزشکیان نے ایران کے دیرینہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا، ''میں اس اسمبلی کے سامنے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں کہ ایران نے کبھی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ کبھی کرے گا۔

‘‘ انہوں نے تاہم یہ بھی کہا کہ ایرانی قوم بارہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ ’’وہ جارح طاقت کے سامنے کبھی نہیں جھکے گی۔‘‘ ایران کا امریکہ پر الزام

جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ سے پہلے، تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری مذاکرات کے پانچ دور ہوئے لیکن بڑے اختلافی مسائل برقرار رہے، خصوصاً ایران میں یورینیم کی افزودگی، جسے مغربی طاقتیں صفر تک کم کرنا چاہتی ہیں تاکہ ایٹمی ہتھیار سازی کے خطرے کو ختم کیا جا سکے۔

تہران کا الزام ہے کہ واشنگٹن نے "سفارتکاری سے غداری" کی اور جنگ کے بعد سے جوہری مذاکرات رکے ہوئے ہیں۔

ایران کے ایک اندرونی ذریعے نے روئٹرز کو بتایا ''گزشتہ ہفتوں میں ثالثوں کے ذریعے کئی پیغامات واشنگٹن کو بھیجے گئے ہیں تاکہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکیں، لیکن امریکہ نے جواب نہیں دیا۔‘‘

منگل کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، جو خارجہ پالیسی اور ایران کے جوہری پروگرام جیسے اہم ریاستی امور پر آخری فیصلہ کرتے ہیں، نے دھمکی کے تحت امریکہ سے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا۔

امریکہ، اس کے یورپی اتحادی اور اسرائیل ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

کچھ ہی گھنٹے باقی

برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے 28 اگست کو "اسنیپ بیک" کے نام سے جانے جانے والے عمل کا آغاز کیا، جس کے تحت 30 دنوں میں اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد ہو جائیں گی۔

یہ عمل 27 ستمبر کو ختم ہو رہا ہے۔

یورپی طاقتوں نے تہران پر الزام لگایا ہے کہ وہ 2015 کے معاہدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا ہے، جو ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔

یورپی ممالک نے پیشکش کی ہے کہ اگر ایران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی دیتا ہے، افزودہ یورینیم کے ذخیرے پر خدشات دور کرتا ہے اور امریکہ کے ساتھ بات چیت میں شامل ہوتا ہے، تو پابندیاں چھ ماہ تک مؤخر کی جا سکتی ہیں تاکہ طویل المدتی معاہدے پر بات چیت کا موقع مل سکے۔

وٹکوف نے کہا،''ہم چاہتے ہیں کہ یا تو ایک مستقل حل نکل آئے اور اسنیپ بیک پر بات ہو جائے، اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر اسنیپ بیک ہی درست علاج ثابت ہو گا۔‘‘

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا کہ ایران کے پاس اب بھی موقع ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں کی بحالی کو روک سکے۔

انہوں نے ایکس پر لکھا، ''ابھی بھی معاہدہ ممکن ہے۔

چند ہی گھنٹے باقی ہیں۔ یہ ایران پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے طے شدہ جائز شرائط پر پورا اترے۔‘‘

یورپی سفارتکاروں نے روئٹرز کو بتایا کہ ایران، ای 3 (برطانیہ، فرانس، جرمنی) اور یورپی یونین نے بدھ کو ایک اور دور کے مذاکرات کیے۔

ہفتے کی ڈیڈلائن

اگر 27 ستمبر تک تہران اور ای 3 کسی توسیعی معاہدے تک نہ پہنچ سکے تو ایران پر اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔

ایران کی معیشت پہلے ہی 2018 میں ٹرمپ کے معاہدہ توڑنے کے بعد لگائی گئی سخت پابندیوں سے بری طرح متاثر ہے۔

’اسنیپ بیک‘ کے عمل کے تحت ہتھیاروں کی پابندی، یورینیم کی افزودگی اور ری پروسیسنگ پر پابندی، ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائلوں کی سرگرمیوں پر پابندی، عالمی سطح پر اثاثے منجمد کرنے اور ایرانی افراد و اداروں پر سفری پابندیاں شامل ہوں گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • ایران نے تین یورپی ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا
  • ایران جوہری ہتھیاروں کے پیچھے نہیں، عراقی صدر
  • ایران اور روس کا نئے جوہری بجلی گھروں کی تعمیر کا 25 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ
  • ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا ضرروی، نیتن یاہو
  • روس JCPOA نامی جوہری معاہدے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، رافائل گروسی
  • ایران کا جوہری مسئلہ دباو اور پابندیوں سے حل نہیں ہو گا، بیجنگ
  • روس اور چین کی ایران پر پابندیاں موخر کروانے کے لئے چارہ جوئی
  • امریکی صدر پر میئر لندن کا جوابی وار، نفاذ شریعت کے دعوے کو قطعی جھوٹ قرار دےدیا
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری کشیدگی میں ممکنہ کمی کے آثار
  • 7 ارب ڈالرز قرض پروگرام: آئی ایم ایف مشن پاکستان پہنچ گیا