وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہمیں بھارت کے خلاف ڈیڑھ ماہ میں 3 فتوحات ملی ہیں اور بھارتی قیادت اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کرے گی۔سماء کے پروگرام ’ دو ٹوک ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے خیبرپختونخوا حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سوات سانحہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے ، اس سے پہلے بھی کے پی میں حادثات ہوئے ہیں، وہ مشینری لے کر اسلام آباد پر حملہ آور ہوتے ہیں جبکہ کرپشن کے ریلے میں سارا صوبہ بہہ رہا ہے، آپس کے حصہ کیلئے ان میں لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔

وزیراعلیٰ مریم نواز  کی شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے کی شدید مذمت

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے ایک عرصہ تک پارٹی الیکشن نہیں کرائے، ان کا نام کبھی سنی اتحاد کبھی پی ٹی آئی کبھی کچھ اور ہو جاتا ہے ، یہ کونسی پارٹی ہے ، کونسا برینڈ ہے ، کیا شناخت ہے ، کسی کو نہیں پتا۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے بہت سے لوگ آزاد ہوگئے ہیں اور ہوسکتا ہے وہ لوگ علیحدہ پارٹی بنا کر حکومتی اتحاد میں شامل ہوجائیں، یا تو وہ لوگ کوئی پارٹی جوائن کریں گے یا علیحدہ پارٹی بنالیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سیٹوں پر گئے اور اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر سے ملے لیکن پی ٹی آئی میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں کہ بانی  پی ٹی آئی رہا ہوں۔

قوم   شہدائے وطن کی عظیم قربانیوں کی ہمیشہ سے  مقروض ہے اور رہے گی: محسن نقوی

ان کا کہنا تھا کہ ہائبرڈ سسٹم سے پاسپورٹ رینکنگ اور کریڈٹ رینکنگ بہتر ہوئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بھارت کے خلاف فتح حاصل ہوئی ہے، بھارت ایس سی او سے بھاگا ہے، سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھی گزشتہ روز فتح ملی، ڈیڑھ ماہ میں ہمیں 3 فتوحات ملی ہیں، بھارتی قیادت اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کرے گی۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی

پڑھیں:

شہیدِ مقاومت کی پہلی برسی اور امت کیلئے بیداری کا پیغام

اسلام ٹائمز: سید حسن نصراللہ نے اپنی زندگی اور اپنی شہادت سے ہمیں سکھایا کہ حقیقی قربانی میں اختلافات نہیں اتحاد ہوتا ہے، خوف نہیں، حوصلہ ہوتا ہے اور مایوسی نہیں عزم ہوتا ہے۔ آج امت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اس قربانی کو خراجِ عقیدت صرف الفاظ سے پیش نہ کرے، بلکہ عمل سے ثابت کرے، کیونکہ اگر ہم آج اس راستے پر متحد ہو جائیں تو بلاشبہ ہم ظلم کی جڑوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مسلمانو اب جاگو، اب اٹھو، اب متحد ہو کر ظلم کے سامنے ڈٹ جاؤ، کیونکہ بلاشبہ، ظلم بڑھتا ہے تو مٹتا بھی ہے، لیکن مٹانے کے لیے ہمیں قدم آگے بڑھانا ہوگا۔ تحریر: محمد حسن جمالی

آج امت مسلمہ ایک سنجیدہ موڑ پر کھڑی ہے۔ سید حسن نصراللہ کی شہادت کی پہلی برسی قریب ہے اور یہ دن صرف ایک یادگار نہیں، بلکہ ایک بیدار کرنے والی صدا ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے، جس میں تاریخ کے صفحات سرخ ہو جاتے ہیں اور ہر مسلمان کے دل میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا ہم اس قربانی کو صرف یاد رکھیں گے یا اس کی روشنی میں اپنی بقاء کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔؟ شہید کی پہلی برسی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی صرف ایک لمحے کا جذبہ نہیں، بلکہ ایک مسلسل عزم ہے، جو نسلوں کو جیتی جاگتی تاریخ عطا کرتا ہے۔ یہ دن ہمیں چیلنج دیتا ہے کہ ہم اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں، کیونکہ سید حسن نصراللہ کی راہ یقیناً امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

سید حسن نصراللہ نے اپنی پوری زندگی اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کی سب سے بڑی آرزو مقامِ شہادت کا حصول تھا، جو بالآخر پوری ہوگئی۔ "عاشَ سعیداً وماتَ سعیداً"ان کی شہادت حزب اللہ کے لیے مزید تقویت کا باعث بنے گی، ان کے پیروکاروں میں مقاومت کا عزم پختہ ہوگا، ان میں اصولوں پر قائم رہنے کی ہمت بڑھے گی اور وہ فلسطین کی آزادی و دفاع کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ میدان میں ڈٹے رہیں گے۔ شہید کے پاکیزہ لہو کی قربانی دنیا کی مظلوم قوموں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ مزاحمتی تحریک کا سفر مشکلات و صعوبتوں سے بھرا ہوتا ہے اور جتنی زیادہ فداکاری ہوگی، منزل مقصود اتنی ہی جلد حاصل ہوگی۔

سید حسن نصراللہ کی شہادت کا ایک بڑا پیغام یہ ہے کہ استکباری قوتوں کے خلاف جدوجہد ہی مسلمانوں کی عزت و سربلندی کا راز ہے۔ ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنا ہر غیرت مند مسلمان کا فریضہ ہے۔ سید حسن نصراللہ نے غزہ کے دفاع میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ شیعہ مراجع عظام کا اہلسنت کو اپنا بھائی کہنا صداقت پر مبنی ہے۔ شیعوں کے لیے اہلسنت کی جان، مال اور عزت اتنی ہی عزیز ہے، جتنی کہ شیعوں کی عزیز ہے۔ یہ قربانی مسلمانوں کو اجتماعی ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے اور یہ سبق دیتی ہے کہ شیعہ و سنی کی چار دیواری پھلانگ کر ایک دوسرے کا دست و بازو بننا اور اپنے مشترکہ دشمن امریکہ و اسرائیل کے خلاف متحد ہونا ضروری ہے۔

بدقسمتی سے اہلسنت کی اکثریت تکفیری پروپیگنڈے کے زیر اثر غزہ کے مظلوم عوام سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔ تکفیریوں نے سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ فکری بیج بو دیا ہے کہ اگر اہلسنت غزہ کی حمایت کریں گے تو وہ ایران اور حزب اللہ کی طاقت کو بڑھائیں گے اور اس سے سنیوں کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان جیسے ممالک میں اہلِ سنت امریکہ و اسرائیل کے دباؤ کے تحت غزہ کے مسئلے سے لاتعلق ہیں۔ مولویوں کا اثر و رسوخ، مالی امداد کے سیاسی تعلقات اور عوام کی عام بے خبری اس خاموشی کو بڑھا رہے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی موجودگی لبنان میں ایک طاقتور علامت تھی۔ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیل کے مقابلے میں کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کی شہادت ایک امتحان ہے۔ ان کی شہادت سے اسرائیل کو شاید جشن منانے کا موقع ملا ہو، لیکن حقیقت میں اس نے اپنی ہی قبر کھودی ہے۔ حزب اللہ مزید طاقتور ہو کر سامنے آرہی ہے۔

امت کو اپنی حفاظت کے لیے بیدار ہونا ہوگا۔ ظلم کا مقابلہ نہ کرنا بھی ظلم ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی سفاکیت اور بے رحمی تاریخ میں بدترین مثال ہے۔ نہتے عوام پر بمباری، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا انسانی ضمیر کو جھنجوڑ دینے والا عمل ہے۔ اس کے باوجود بہت سے اہلِ سنت خاموش ہیں اور بعض مذہبی رہنماء ان مظالم کی مذمت سے گریزاں ہیں۔ یہ خاموشی بہت بڑا المیہ ہے۔ یہ  سوال ہر مسلمان کے ضمیر پر گونج رہا ہے کہ کیا امت اب بھی خاموش رہے گی یا اس شہیدِ مقاومت کے لہو سے بیدار ہوگی۔؟ سید حسن نصراللہ کی شہادت کی پہلی برسی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ ظلم کے سامنے خاموشی جرم ہے اور وحدت ہی مسلمانوں کی بقاء کا راز ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امت اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائے اور مزاحمت کے اس سفر کو جاری رکھے، کیونکہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی پہلی برسی کا موقع امت مسلمہ کو ایک بار پھر یاد دلایا جا رہا ہے کہ سید حسن نصراللہ صرف ایک انسان نہیں تھے، بلکہ وہ ایک تحریک، ایک عزم اور ایک روشنی تھے، جو امت کے ہر گوشے کو جگانے کی قوت رکھتے تھے۔ ان کی قربانی صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ پیغام ہے کہ آزادی اور حق کی راہ میں جان کا نذرانہ دینا انسانی عظمت کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ آج جب ہم ان کی پہلی برسی کے قریب ہیں تو یہ صرف ایک یادگار دن نہیں بلکہ ایک بیداری کا دن ہونا چاہیئے۔ اس سنہری موقع ہر ہمیں سوچنا چاہیئے کہ ہم ان کی راہ پر چلتے ہوئے ظلم کے خلاف متحد ہو جائیں گے یا خاموشی اختیار کر کے اپنی نسلوں کے حق میں ایک بڑا فکری نقصان قبول کریں گے۔

سید حسن نصراللہ نے اپنی زندگی اور اپنی شہادت سے ہمیں سکھایا کہ حقیقی قربانی میں اختلافات نہیں اتحاد ہوتا ہے، خوف نہیں، حوصلہ ہوتا ہے اور مایوسی نہیں عزم ہوتا ہے۔ آج امت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اس قربانی کو خراجِ عقیدت صرف الفاظ سے پیش نہ کرے، بلکہ عمل سے ثابت کرے، کیونکہ اگر ہم آج اس راستے پر متحد ہو جائیں تو بلاشبہ ہم ظلم کی جڑوں کو ختم کرسکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مسلمانو اب جاگو، اب اٹھو، اب متحد ہو کر ظلم کے سامنے ڈٹ جاؤ، کیونکہ بلاشبہ، ظلم بڑھتا ہے تو مٹتا بھی ہے، لیکن مٹانے کے لیے ہمیں قدم آگے بڑھانا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • آپریشن بنیان مرصوص نے پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کیا،ترجمان پاک فوج
  • حارث رؤف پر ہوا جرمانہ محسن نقوی اپنی جیب سے ادا کریں گے، بھارتی میڈیا کا دعویٰ
  • غزہ میں قتل عام روکنے اور سیکیورٹی کیلئے کوئی بھی کردار ادا کرنے پر خوشی ہوگی، وزیراعظم
  • امریکا پاکستان سے کوئی مطالبہ نہیں کر رہا ہے، خواجہ آصف
  • غزہ میں جنگ کے بعد عبوری انتظامیہ کی قیادت کیلئے ٹونی بلیئر کا نام گردش کرنے لگا
  • 6-0 کے اشارے پر بھارتی بورڈ کو کیا اعتراض ہے؟ حارث رؤف کا سماعت کے دوران آئی سی سی سے سوال
  • شہیدِ مقاومت کی پہلی برسی اور امت کیلئے بیداری کا پیغام
  • جاپانی سیاسی جماعت نے قیادت ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کو سونپنے کا اعلان کر دیا
  • بی جے پی کو انتخابات میں اپنی شکست کی سزا کشمیریوں کو نہیں دینی چاہیے، عمر عبداللہ
  • آئین اصل شکل میں بحال کیا جائے،محمود اچکزئی،جینے کا حق بھی نہیں دے رہے،اسد قیصر