Express News:
2025-06-29@02:07:02 GMT

لارنس آف عربیہ سے غزہ تک

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس، عرف لارنس آف عربیہ ایک ایسا کردار جس کو انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس مشن کے لیے پہلے لارنس عربیہ نے برطانیہ کے لیے جاسوسی کی، مقامی لوگوں کو غداری کے لیے خریدا مگر اس کامیابی پر بھی بس نہ کیا اور جلد بھرپور نتائج کے حصول کے لیے کام شروع کردیا۔

ظاہری طور پر اسلام قبول کیا، عرب بدووں میں پیسے تقسیم کیے، ان کا اعتماد حاصل کیا یہاں تک کہ ان کی نظروں میں ہیروکا مقام حاصل کر لیا، پھر گورنر مکہ حسین ہاشمی تک رسائی حاصل کی۔ تمام عربوں کو ظاہرکیا کہ وہ ان کا خیر خواہ ہے اور عرب قوم کی بہتری چاہتا ہے۔

عربوں کو یہ ذہین نشین کراتا رہا کہ وہ ایک عظیم قوم ہی نہیں ہیں بلکہ اس خطے میں حکمرانی کے درست معنوں میں حقدار ہیں انھیں ترکوں پر فضیلت بھی حاصل ہے جب کہ ترک بلاوجہ سلطنت عثمانیہ کے نام پر عربوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ لارنس کی ترکوں کے خلاف یہ نفرت رفتہ رفتہ جڑ پکڑگئی اور ایک وقت وہ آگیا کہ عرب ترکوں کے خلاف لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔

اس کے بعد دوسرے ہدف میں ترکوں کے خلاف گوریلا کارروائیوں کو آغاز کر دیا گیا جس میں لارنس نے اہم ترین کردار ادا  کیا جس کی وجہ سے مقامی عربوں نے لارنس کو ’’ امیر ڈائنا میٹ‘‘ کا لقب دیا۔ لارنس نے ترکوں اور عربوں کو تقسیم کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی اور عربوں کو آزادی کا خواب دکھایا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوا مگر برطانیہ نے اس سے بھی آگے بڑھ کرکام دکھا دیا۔

سلطنت عثمانیہ کو تقسیم در تقسیم کر دیا چنانچہ آج ہمیں دنیا کے نقشے پر اس خطے میں بے شمار مسلم ریاستیں نظر آتی ہیں، یوں جو مسلم آبادیاں ایک امت کے نام پر یکجان تھی ان کے درمیان نہ صرف سرحدوں کی خلیج قائم کردی گئی بلکہ قوم، وطن پرستی اور فرقہ واریت کی خلیج بھی نہایت ہوشیاری کے ساتھ قائم کردی گئی۔ رفتہ رفتہ وطنیت کا تصور جہاں دنیا بھر میں مضبوط ہوا، مسلم دنیا میں بھی اپنی جڑیں جماتا چلا گیا۔

ان تمام خلیجوں میں امت مسلمہ کے نقطہ نظر سے سب سے خطرناک خلیج قوم پرستی اور وطن پرستی کی ثابت ہوئی گوکہ شیعہ سنی اختلافات کو ہو ا دینے کے لیے مخالفین نے بے تحاشہ دولت خرچ کی مگر غزہ کے مسئلے پر اور ایران اسرائیل جنگ کے مسئلہ پر یہ خلیج دم توڑ تی دکھائی دی۔ مثلاً حزب اللہ، غوثی اور ایران نے حماس کی جس طرح مددکی، اس نے مسلم دنیا میں شیعہ سنی کی خلیج کو کم کیا اور جب اسرائیل نے ایران پر حملہ  کیا تو پاکستان کے تمام سنی مسالک ایران کی نہ صرف حمایت میں کھڑے ہوگئے بلکہ اعلانیہ کہا کہ یہ ہم سب کی جنگ ہے۔

یہ وہ مواقع ہیں کہ جن میں پوری مسلم دنیا ایک ’’ امت ‘‘ کے طور پر ردعمل کرتی نظر آئی، لیکن اس سب کے باوجود قوم پر ستی یا وطنیت کا ’’بت‘‘ نہیں توڑا جا سکا جو تمام ہی مسلم ممالک میں مضبوط نظر آتا ہے جس کے تحت سب مسلم ممالک ’’ سب سے پہلے میں‘‘ پر قائم نظر آتے ہیں۔ غزہ کے مسلمان ہر وقت منتظر رہتے ہیں کہ کب کوئی مسلم ملک ان پر ہونے والے مظالم کو بطور امت اپنا سمجھتے ہوئے اسرائیل کا ہاتھ روکے گا؟ وہ خبریں سنتے ہیں کہ پاکستان کی فضائیہ بھارت کو منہ توڑ جواب دے کر دنیا کی نمبر ون بن چکی ہے- ایران نے اسرائیل پر بمباری کر کے بھرکس نکال دیا ہے مگر وہ حسرت سے دیکھتے ہیں کہ کب کوئی ان کی جنگ بندی کرائے گا، کب کوئی ان اسرائیلی فوجیوں پر میزائل مارے گا جو ان تک پینے کا پانی بھی پہنچنے نہیں دے رہے بلکہ اپنی امداد کے نام پر روز درجنوں مسلمانوں کو گولیوں سے روزانہ بھون رہے ہیں۔

بات یہ ہے کہ عام مسلمان تو ان کی مدد ہر قیمت پر چاہتا ہے مگر مسلمان ممالک کی مقتدر قوتیں نظریہ وطنیت پر چل رہی ہیں۔ کوئی بھی غزہ کے لیے اپنی سرحدوں کی قسمت داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالات گواہی دے رہے ہیں کہ آج مسلم دنیا نے مسلک اور فرقہ واریت کی دیوار کو توگرا دیا ہے مگر ’’ قوم پرستی یا وطنیت‘‘ کی دیوار قائم ہے۔ یہ ی دیوار مسلمانوں کی ایک ’امت‘ بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

جس دن یہ دیوار گرگئی، غزہ کے  لوگ تنہا نہیں رہیں گے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے جب سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا اور عربوں میں ترکوں کے خلاف جذبات دیکھے تو انھیں سخت افسوس ہوا علامہ اقبال وطنیت اور قومیت کو مسلمانوں کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے مسلمانوں کو ملت اسلامیہ کے تصورکی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ اقبال مغرب کے نظریہ وطنیت اور قومیت کو اسلام کے خلاف ہی نہیں انسانیت کا دشمن بھی سمجھتے تھے، اقبال قومیت کے اس تصور کے سخت خلاف تھے جس کی بنیاد رنگ، نسل، زبان یا وطن پر ہو، اس ضمن میں اقبال نے کہا۔

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں

موجودہ صورتحال میں بھی اقبال کا یہ پیغام ہمیں آواز دے رہا ہے کہ

یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

بتان رنگ خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تو رانی رہے باقی، نا ایرانی نہ افغانی

غور کیا جائے تو آج غزہ کے مسئلے کا حل بھی صرف اور صرف اس میں ہے کہ مسلمان وطنیت اور قوم پرستی کے مغربی تصورکو چھوڑ کر ایک اقبال کے تصور ملت یعنی امت کے تصورکو اپنا لیں،کیونکہ یہ مسئلہ بھی اس وقت ہی پیدا ہوا تھا جب مسلمان اس تصور سے نکل کر قوم پرستی اور وطن پرستی کے تصور میں گم ہوگئے تھے اور لارنس آف عربیہ جیسے کرداروں نے اس قوم پرستی کے تصورکو راہ نجات قرار دیا تھا لیکن آج غزہ میں پیاس سے بلکتے معصوم بچوں کی کہانیاں بتا رہی ہیں کہ غیروں کا یہ تصور سوائے بربادی کے کچھ بھی نہیں تھا۔غزہ میں جاری ظلم و ستم اور نسل کشی کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اقبال کا یہ پیغام ہمیں آج بھی یہ آواز دے رہا ہے۔

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو

اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا

یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی

تو اے شرمندہ ساحل، اچھل کر بے کراں ہو جا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سلطنت عثمانیہ ترکوں کے خلاف مسلم دنیا قوم پرستی عربوں کو کے تصور کے لیے ہیں کہ غزہ کے

پڑھیں:

مودی سرکار کا مسلم، پاکستان دشمنی میں ایک اور اقدام

بھارت کی نریندر مودی سرکاری نے مسلمانوں اور پاکستان کی دشمنی میں اور قدم اٹھالیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی یونیورسٹی نے اسلام، پاکستان اور چین کے حوالے سے کورسز ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق جامعہ دہلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ایم اے سیاسیات کے نصاب سے اسلام اور بین الاقوامی تعلقات، پاکستان اور دنیا، پاکستانی ریاست اور معاشرہ اور چین سے متعلق کورسز ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جامعہ کے وائس چانسلر نے نصاب کمیٹی سے پاکستان کی تعریف والے مواد کو ہٹانے کی سفارش بھی کی ہے، جامعہ کے فیکلٹی ارکان نے فیصلے کو سیاسی اقدام قرار دے دیا۔

فیصلے کی مخالفت کرنے والے فیکلٹی ارکان کا کہنا ہے کہ کورسز ختم کرنے کا فیصلہ نظریاتی سنسرشپ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ماضی کے ہمارے غیر مسلم فنکار
  • غزہ کی عوام چیخ چیخ کر مسلم حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہے، حاجی حنیف طیب
  • مودی سرکار کا مسلم، پاکستان دشمنی میں ایک اور اقدام
  • شہباز شریف سے صدر مسلم لیگ آزاد کشمیر کی ملاقات
  • نیویارک کے میئر امیدوار ظہران ممدانی کو ابتدائی جیت کے بعد اسلاموفوبیا کا سامنا
  • ن لیگ یوتھ ونگ نے سمیع اللہ برکی کو خیبر پختونخوا کا نیا صوبائی آرگنائزر مقرر کر دیا
  • زہران ممدانی کے خلاف آن لائن نفرت میں اضافہ
  • ایران،اسرائیل جنگ ،مسلم دنیا کے لیے چشم کشا اسباق
  • نیویارک میئر الیکشن: ٹرمپ نوجوان مسلم امیدوار سے برہم کیوں؟