چوہدری ظہور الٰہی شہید کا 44واں یوم شہادت آج منایا جا رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
چوہدری ظہور الٰہی شہید کا 44واں یوم شہادت آج منایا جا رہا ہے WhatsAppFacebookTwitter 0 25 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز) مسلم لیگ (ق) کے بانی رہنما اور ملک کے نامور سیاسی قائد چوہدری ظہور الٰہی شہید کا 44واں یوم شہادت آج عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔
اس موقع پر ملک بھر میں قرآن خوانی اور دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔
مسلم لیگ (ق) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و ترجمان غلام مصطفیٰ ملک کے مطابق مرکزی تقریب ظہور الٰہی پیلس گجرات میں ہوگی، جس میں شہید رہنما کے خاندان اور سیاسی رفقاء شریک ہوں گے۔
اس کے علاوہ کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور، گلگت، سکردو اور راولپنڈی میں بھی مسلم لیگی کارکنان دعائیہ اجتماعات منعقد کریں گے۔
غلام مصطفیٰ ملک نے کہا کہ چوہدری ظہور الٰہی شہید پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک بااصول اور عوام دوست رہنما تھے، جنہوں نے ہمیشہ عوامی خدمت، جمہوری جدوجہد اور اصولی سیاست کو ترجیح دی۔ انہوں نے آمریت اور غیر جمہوری رویوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنی جدوجہد کے دوران کئی بار جیل بھی گئے مگر اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔
ترجمان مسلم لیگ (ق) نے مزید کہا کہ چوہدری ظہور الٰہی شہید صرف گجرات ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام کے نمائندہ سمجھے جاتے تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت، عوامی رابطہ اور اصولی سیاست انہیں ایک منفرد رہنما بناتی تھی۔ ان کے مشن کو بعد ازاں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے ادوار میں آگے بڑھایا، جب کہ شہید کی تیسری نسل بھی آج ملکی خدمت اور ترقی کے لیے سرگرم ہے۔
غلام مصطفیٰ ملک کا کہنا تھا کہ مسلم لیگی کارکنان چوہدری ظہور الٰہی شہید کے فلسفے اور وضع داری کی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمعرکہ حق پاکستان کی عظیم فتح، فیلڈ مارشل نے دکھایا جنگیں کیسے لڑی جاتی ہیں،وزیراعظم ڈپلومیٹک پاسپورٹ کیس؛ سابق وزیراعظم آزاد کشمیر پر فرد جرم عائد سات ارب ڈالر کا پروگرام؛ آئی ایم ایف جائزہ مشن پاکستان پہنچ گیا اسلامی نظریاتی کونسل نے انجینئرمحمد علی مرزا کو گستاخی کا ملزم قرار دے دیا ملک میں آئین کواصل شکل میں بحال کیا جائے: محمود خان اچکزئی اسلامی نظریاتی کونسل نے رقم نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کو غلط قرار دے دیا اختر مینگل پر سفری پابندی غیرقانونی قرار، عدالت کا نو فلائی لسٹ سے نام نکالنے کا حکمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: چوہدری ظہور ال ہی شہید
پڑھیں:
سوڈان کا ماتم: مسلم آبادی پر تباہی، بیرونی مفادات اور مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ
اسلام ٹائمز: سوڈان کا المیہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ جنگیں ہمیشہ سرحدوں، حکومتوں یا افواج کے درمیان نہیں ہوتیں۔ اصل جنگ انسان کے گھر، رشتوں، روزمرہ زندگی اور امید کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ بچے، بوڑھے اور عورتیں جو آج پناہ گاہوں اور خیموں میں زندگیاں گزار رہے ہیں، ان کا مستقبل صرف اسی صورت محفوظ ہوسکتا ہے جب دنیا اس درد کو سننے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ عملی اور مستقل اقدامات کرے۔ سوڈان کا سوال محض سیاسی نہیں، انسانی ہے اور انسانی سوال ہمیشہ فوری جواب مانگتا ہے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ
سوڈان اس وقت ایک ایسے انسانی المیے سے گزر رہا ہے جو ہمارے جدید دور کی سب سے تکلیف دہ حقیقتوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ بحران ہے جس نے لاکھوں زندگیاں تباہ کیں، سماجی ڈھانچے کو توڑا، شہروں کو کھنڈرات میں بدل دیا اور ایک پوری نسل کو بے وطنی، بیماری اور بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ اپریل 2023ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے ملک کا نقشہ ہر روز بدل رہا ہے۔ ایک طرف فوج (Sudanese Armed Forces) اور دوسری طرف ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں، جبکہ درمیان میں سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں کا ہو رہا ہے۔
خرطوم، ال فاشر، نیالا، ال اوبیڈ اور دارفور کے وسیع علاقے وہ مقام بن چکے ہیں جہاں زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بہت مختصر رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ادارے اس صورت حال کو عالمی سطح پر "انتہائی سنگین انسانی بحران" قرار دے چکے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اب تک کم از کم چالیس ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ متاثرین اور بے گھر افراد کی مجموعی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں کے اندر بے گھر ہو چکے ہیں اور وہ بھی جو پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ بہت سی ہلاکتیں ایسی بھی ہیں جن کا اندراج ممکن نہیں ہوا کیونکہ جنگ زدہ علاقوں میں رسائی تقریباً ناممکن ہے۔
شمالی دارفور اور ال فاشر کی صورت حال اس بحران کی شدت کو واضح کرتی ہے۔ زامزام اور ابو شُوک جیسے کیمپوں پر حملوں کے دوران سینکڑوں شہری مارے گئے، اور بعض علاقوں میں اجتماعی قبروں کی موجودگی رپورٹ کی گئی ہے۔ ال اوبیڈ میں ایک جنازے پر فائرنگ میں درجنوں لوگ ہلاک ہوئے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جنگ اب کسی ہدف یا محاذ تک محدود نہیں رہی بلکہ عام شہری زندگی کو براہ راست نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عبادت گاہیں، بازار، اسکول اور اسپتال اب محفوظ جگہیں نہیں رہیں۔
یہ بحران صرف گولی اور بارود کی تباہی تک محدود نہیں۔ ملک میں خوراک، پانی، ادویات اور بجلی کا نظام شدید طور پر متاثر ہوا ہے۔ بہت سے اضلاع میں بچے غذائی قلت اور پانی کی آلودگی کے نتیجے میں ایسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جن کا علاج مقامی سطح پر ممکن نہیں۔ اسپتال یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا وہاں عملہ اور ادویات موجود نہیں۔ عالمی امدادی اداروں کے مطابق کچھ علاقوں میں قحط جیسی صورت حال جنم لے رہی ہے، اور بچوں کی اموات کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس خانہ جنگی کی وجوہات کو محض ایک وقتی سیاسی تنازع یا فوجی بغاوت سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ اس کے پیچھے دو بڑے عناصر ہیں: مقامی سیاسی و قبائلی کشمکش، اور علاقائی و عالمی طاقتوں کی مداخلت۔
ایک طرف سوڈان کی ریاستی ساخت دہائیوں سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ فوجی حکمرانی اور سول حکومت کے درمیان کشمکش نے ادارہ جاتی نظام کو کمزور کیا۔ سیاسی جماعتیں کمزور رہیں، عدالتی نظام مستقل دباؤ میں رہا، اور معاشی بدحالی نے عوام میں بے چینی کو بڑھایا۔ اس صورت حال میں عسکری دھڑے طاقت کے حصول کے لیے براہ راست میدان میں آگئے۔ RSF کی بنیاد بھی دراصل دارفور کے تنازع کے دوران ایک ملیشیا کے طور پر پڑی جو بعد میں باقاعدہ مسلح قوت میں تبدیل ہوئی۔ جب ریاست اور حکومت طاقت کا منصفانہ نظام نہ قائم کر سکیں تو اس خلا کو ہتھیاروں اور ملیشیوں نے پُر کیا۔
دوسری طرف، بیرونی مفادات اس جنگ کو مزید شدید بناتے ہیں۔ خلیجی ممالک، روس، مصر اور مغرب کے مختلف مفادات سودان کی سیاسی اور عسکری پوزیشن پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ متعدد رپورٹس کے مطابق UAE پر RSF کی مالی اور لاجسٹک مدد کا الزام ہے، جس کے پیچھے لالچ دریائے احمر کی ساحلی رسائی، علاقائی اثر و رسوخ اور سونے کے ذخائر تک پہنچ سے جڑا ہوا ہے۔ روس خصوصاً ویگنر گروپ کے ذریعے سونے کی کانوں تک رسائی، فوجی معاہدوں اور علاقائی سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوشش میں رہا ہے۔ ویگنر اور مقامی عسکری گروہوں کے درمیان اسلحے کے بدلے قدرتی وسائل کے سودے کی خبریں کئی بار سامنے آ چکی ہیں۔
مصر اپنے طور پر نیل کے پانی اور سرحدی سلامتی کو اولین ترجیح دیتا ہے، اس لیے وہ عموماً سودانی فوج کی حمایت کے قریب نظر آتا ہے۔ مغربی ممالک بظاہر امن کی کوششوں کا اظہار کرتے ہیں، مگر ان کی سفارتی حکمت عملی میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ پابندیاں، تاخیری اقدامات اور بعض اوقات غیر واضح مداخلت نے حالات میں بہتری نہیں لائی۔ یوں یہ جنگ اب ایک مکمل پراکسی تنازع کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں بیرونی طاقتیں اپنے مفادات کے مطابق فریقین کی مدد کرتی ہیں۔ نقصان صرف عوام کا ہو رہا ہے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ خاص طور پر RSF پر قتل عام، لوٹ مار، نسلی حملوں اور جبری نقل مکانی کے الزامات واضح ہیں۔ لیکن صرف مقامی گروہوں پر ذمہ داری ڈال کر بات ختم نہیں ہو جاتی۔ وہ طاقتیں بھی جوابدہ ہیں جو اس جنگ کو مالی اور عسکری سہارا دے کر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی سست روی اور غیر مربوط پالیسیوں نے بھی بحران کو کم کرنے کے بجائے بڑھایا ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی ٹھوس اور مشترکہ اقدام نہ کیا تو آنے والے مہینوں اور سالوں میں حالات اور بگڑ سکتے ہیں۔
قحط اور وبائی امراض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پڑوسی ممالک میں پناہ گزینوں کی تعداد بڑھ کر علاقائی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ مسلح گروہ مستقل طاقت بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔ انتہا پسند تنظیمیں بحران کے خلا سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ اس صورت حال میں چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے انسانی امداد کی محفوظ راہداری یقینی بنانی ہوگی تاکہ خوراک، ادویات اور پناہ گاہیں ان لوگوں تک پہنچ سکیں جن کے پاس بچنے کا کوئی اور راستہ نہیں۔ دوسری بات، فریقین کو بیرونی ہتھیار اور مالی مدد کی فراہمی پر سخت بین الاقوامی پابندیاں ضروری ہیں۔ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسے ایندھن ملتا رہے گا۔
تیسری بات، مذاکرات کی بحالی اور سیاسی حل کی تشکیل میں غیر جانب دار ثالثوں کا کردار اہم ہوگا۔ صرف بین الاقوامی طاقتیں اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں، اس میں علاقائی مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کی مشترکہ کوشش شامل ہونا چاہیئے تاکہ سودان کے عوام کے حقیقی نمائندوں کو قرارداد سازی کا حصہ بنایا جائے اور آخر میں، جنگی جرائم کی شفاف تحقیقات اور جوابدہی کے بغیر کوئی مستقل امن ممکن نہیں، انصاف کے بغیر مصالحت صرف وقتی وقفہ ثابت ہوتی ہے۔
سوڈان کا المیہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ جنگیں ہمیشہ سرحدوں، حکومتوں یا افواج کے درمیان نہیں ہوتیں۔ اصل جنگ انسان کے گھر، رشتوں، روزمرہ زندگی اور امید کے خلاف ہوتی ہے۔ وہ بچے، بوڑھے اور عورتیں جو آج پناہ گاہوں اور خیموں میں زندگیاں گزار رہے ہیں، ان کا مستقبل صرف اسی صورت محفوظ ہوسکتا ہے جب دنیا اس درد کو سننے اور سمجھنے کے ساتھ ساتھ عملی اور مستقل اقدامات کرے۔ سوڈان کا سوال محض سیاسی نہیں، انسانی ہے اور انسانی سوال ہمیشہ فوری جواب مانگتا ہے۔