چار سے چھ لوگ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتے، اس کیلئے پارلیمنٹ جانا ہوگا، طارق فضل چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT
فائل فوٹو
وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ چار سے چھ لوگ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتے، اس کے لیے پارلیمنٹ جانا ہوگا۔
مظفرآباد میں عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے بعد وفاقی وزراء نے میڈیا سے گفتگو کی، اس موقع پر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کا ایجنڈا ہماری سمجھ سے باہر ہے، ایکشن کمیٹی جو میسج دینے کی کوشش کر رہی ہے وہ کشمیری عوام کا نہیں ہے۔
طارق فضل چوہدری نے کہا کہ ایل او سی پر بھارتی حملہ کشمیری عوام نے پاک فوج کے ساتھ مل کر ناکام بنایا، ہم مسئلہ کشمیر کو دنیا میں واضح کرنے کے لیے یہاں پر ہیں، آج وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ میں مسلم امہ کی بات کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ مذاکرات کی بات کرنا چاہیں تو ہمارے دروازے بند نہیں ہیں، کسی کو راستے بند کرنے اور زبردستی دکانیں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اس موقع پر وفاقی وزیر امور کشمیر امیر مقام نے کہا کہ ہم نے عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات مان لیے تھے، جو مطالبات ہمارے اختیار میں تھے وہ ہم نے مان لیے تھے۔
جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور وزیراعظم پاکستان کے نمائندوں میں مذاکرات ہوئے۔
امیر مقام نے کہا کہ ہم نے ان کے مطالبات مان لیے تو وہ نئی لسٹ لے کر آگئے، وہ بعد میں ایسے مطالبات لے آئے جن کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری کوشش کی کہ امن رہے، ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ انہوں نے مذاکرات کو کیوں ناکام کردیا، جو جذبہ اس وقت قوم کو ملا ہے وہ اس کو خراب کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی وزراء کی تنخواہ وغیرہ طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: عوامی ایکشن کمیٹی طارق فضل چوہدری نے کہا کہ
پڑھیں:
27ویں ترمیم کا کوئی مسودہ سامنے نہیں آیا،فی الحال کوئی بات نہیں کرسکتے،فضل الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:۔ جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے 27ویں ترمیم کا کوئی مسودہ سامنے نہیں آیا، 26 ویں آئینی ترمیم سے دستبردار شقوں کو 27ویں آئینی ترمیم میں شامل کرنا قبول نہیں۔
جے یو آئی کی پارلیمانی پارٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر حکومت 35شقوں سے دستبردار ہوئی۔ 26ویں آئینی ترمیم سے دستبردار شقوں کو 27ویں آئینی ترمیم میں شامل کرنا قبول نہیں۔ اگر 26ویں آئینی ترمیم سے دستبردار شقوں میں سے کوئی شق 27 ویں آئینی ترمیم میں پاس ہوئی تو اسے آئین اور پارلیمنٹ کی توہین سمجھا جائے گا۔
فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ مسودہ سامنے آنے کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ 27 ویں ترمیم پر تو فی الحال بات نہیں کرسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم میں صوبوں کو دیے گئے اختیارات میں کمی کی کوشش قبول نہیں۔ اگر صوبوں کے اختیارا ت میں کمی کی بات کی گئی تو ہم مخالفت کریں گے۔صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے کمی نہیں۔جے یو آئی چاہتی ہے صوبے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آرٹیکل 243 سے متعلق جمہوریت پر اثر پڑے گا تو قبول نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی کو کبھی بھی عوام کا نمائندہ نہیں کہا۔ کھینچ تان کر د و تہائی اکثریت حاصل کی جا رہی ہے اس سے نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین نے شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے26ویں آئینی ترمیم پر حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔ 26 ویں آئینی ترمیم پر تمام پارلیمنٹ باہمی طور پر رابطے میں تھی، کئی نکات مرضی سے26ویں آئینی ترمیم میں شامل کروائے۔ سود کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کوئی پیشرفت سامنے نہیں آرہی۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ دینی مدارس کے ہاتھ مروڑ کر وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹھیک تو کچھ بھی نہیں ہو رہا ، ٹھیک کرنے کے لیے اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے۔