Express News:
2025-09-27@22:26:03 GMT

پاکستان کے حصے کے 3 دریاؤں پر بھارت ڈیم نہیں بنا سکتا

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

اسلام آباد:

تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ کافی دیر بعد اس قسم اس طرح کی خبر آئی ہے کہ اتنے بڑے پیمانے کا واقعہ ہوا ہے، یہ وہی ایک پرانے پیٹرن کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک سائیڈ سے اگر پاکستان کیلیے کوئی چیز بہتر ہوتی ہے تو پھر اس کے خون خرابے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب چین میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ملاقات ہوئی تھی تو چیزیں رائٹ ٹریک پر چلنا شروع ہو گئی تھیں، پاکستان میں موجود افغان شہریوں کو وطن واپس بھیجنے کا عمل بھی سست ہو گیا تھا۔ 

انھوں نے کہا کہ یہ تنازع کافی عرصے سے چل رہا ہے، جو بنیادی طور پر یہ ہے کہ انڈس بیسن ٹریٹی کے تحت پاکستان کے حصے کے تین دریاؤں، سندھ، جہلم اور چناب پر بھارت ڈیم نہیں بنا سکتا، بھارت نے وہاں پہ دو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس بنائے تھے، پہلے انہوں نے باہمی طور پر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، 2016 میں پاکستان آربٹریشن کورٹ میں چلا گیا۔

اس کورٹ کی پروسیڈنگز کا حصہ بننے کے بجائے بھارت نے ورلڈ بینک سے نیوٹرل ایکسپرٹ اپوائنٹ کرنے کی درخواست کی، ورلڈ بینک نے 2022 میں نیوٹرل ایکسپرٹ کی تقرری کردی۔ 

تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ میر علی شمالی وزیرستان میں افسوس ناک واقعہ کے نتیجے میں وہاں متعدد شہادتیں ہوئی ہیں، مقامی اور سیکیورٹی ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ بارود سے بھری گاڑی کو بم ڈسپوزیبل یونٹ کی گاڑی سے ٹکرایا گیا، اسکی ذمے داری حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کی ہے،چند ماہ میں جب سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے، اس کے بعد یہ پہلا اس طرح کا بڑا خودکش حملہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

مئی 2025

بھارت نے 26فروری2019 کی صبح ساڑھے تین بجے بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کی‘ انڈین پائلٹس کا ہدف مدرسہ تھا لیکن وہ خوف کی وجہ سے وہاں پہنچ نہیں سکے اور جنگل میں بم گرا کر واپس بھاگ گئے‘ ظہیر احمد بابر اس وقت ائیروائس چیف تھے جب کہ مجاہد انور خان ائیر چیف تھے‘ ظہیر احمد بابر اسی رات فوری جواب دینا چاہتے تھے۔

ان کا خیال تھا ہم آج خاموش رہے تو بھارت بار بار یہ کرے گا لیکن آرمی چیف جنرل باجوہ نے روک دیا‘ ان کا کہنا تھا صبح وزیراعظم کے ساتھ میٹنگ کے بعد فیصلہ کریں گے‘ اگلی صبح میٹنگ ہوئی اور جواب دینے کا فیصلہ ہوا‘ 27 فروری کو پاکستانی ائیرفورس نے انڈیا کے سات اہداف لاک کر لیے۔ 

ایک ہدف میں ان کے آرمی چیف بپن راوت بھی موجود تھے‘ پاکستانی پائلٹس نے ان کے بنکر سے ذرا سے فاصلے پر بم گرا کر انھیں اطلاع دی ہم آپ سے دور نہیں ہیں اور پھر ہمارے جہاز واپس آ گئے‘ بھارتی طیاروں نے پیچھا کیا‘ پاکستان نے ان کی کمیونی کیشن جام کر کے انھیں نشانہ بنا لیا۔ 

بھارت کا ایک طیارہ بھارتی حدود میں گر گیا جب کہ دوسرا طیارہ پاکستانی آزاد کشمیر میں آ گرا‘ یہ طیارہ  مگ 21تھا اور اس میں ونگ کمانڈر ابھی نندن سوار تھا‘ یہ گرفتار ہو گیا‘ ائیرفورس میں ونگ کمانڈر سینئر افسر اور ٹرینر ہوتا ہے‘ یہ طیارے اڑانے والا آخری رینک ہوتا ہے اور یہ جوان پائلٹس کا گرو اور ہیرو ہوتا ہے۔ 

اگر اس کا طیارہ گر جائے یا یہ ای جیکٹ پر مجبور ہو جائے تو یہ بہت بے عزتی ہوتی ہے اور فورس کا مورال مکمل طور پر بیٹھ جاتا ہے‘ ونگ کمانڈر ابھی نندن کے ای جیکشن نے بھارتی ائیرفورس کو پوری دنیا میں بے عزت کر دیا‘ پاک فوج نے آفیسر کی حیثیت سے اسے بہت عزت دی‘ میڈیکل ٹیسٹ کے بعد جب اس کا انٹرویو شروع ہوا تو اس سے فوج کے ایک جونیئر افسر نے پوچھا ’’سر آپ نے ای جیکٹ کیوں کیا؟‘‘

میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں جہاز سے ای جیکٹ ہونا کسی بھی پائلٹ کے لیے موت سے بدتر ہوتا ہے‘یہ اس کے بعد دنیا میں کسی جگہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور اگر یہ کام ونگ کمانڈر نے کیا ہو تو پھر یہ پوری فورس کے لیے مرنے کا مقام ہوتا ہے۔ 

یہ شخص جوان پائلٹس کا استاد اور ہیرو ہوتا ہے اور اگر ہیرو ہی موت سے ڈر جائے تو پھر فورس کا کیا مورال بچے گا لہٰذا ونگ کمانڈر ابھی نندن سے یہ سوال بنتا تھا‘ ابھی نندن نے یہ سوال سنا اور سر جھکا کر بولا ’’آئی ہیو اے فیملی‘‘۔

یہ جواب دراصل پاکستانی آفیسرز اور بھارتی آفیسرز کے درمیان فرق ہے‘ بھارتی جوان اور افسر صرف تنخواہ اور اسٹیٹس کے لیے فورس جوائن کرتا ہے جب کہ پاکستانی شہادت کے لیے اس پروفیشن میں آتے ہیں چناں چہ یہ مرنے سے گھبراتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹتے ہیں۔


مئی 2025 میں بھی یہی ہواتھا‘ آپ وقت کو ذرا سا پیچھے گھمائیں اور اپریل سے پیچھے چلے جائیں آپ کو پاکستان ڈائون سے ڈائون ہوتا نظر آئے گا‘ ہم معاشی لحاظ سے ڈیفالٹ کے قریب تھے‘ امریکا اور ہمارے درمیان بے تحاشا فاصلے تھے‘ آئی ایم ایف ہم سے ناک کے ذریعے لکیریں نکلوا رہا تھا‘ چین ہمارا دوست ہے لیکن اس میں بھی سردمہری آ چکی تھی‘ قطر‘ سعودیز اور یو اے ای ہمارے وزیراعظم سے ملنا نہیں چاہتے تھے۔ 

ان کا خیال تھا ہم ان سے مزید پیسے مانگ لیں گے‘ یہ ہمیں ’’مسکین‘‘ بھی کہتے تھے‘ یو اے ای نے پاکستانیوں کے ویزے بند کر دیے تھے‘ آپ حد ملاحظہ کیجیے ایران نے پاکستان پر میزائل داغ دیے تھے اور افغان طالبان نے بھی چمن پر سویلین آبادی حملہ کر دیا تھا جس میں چھ شہری شہید ہو گئے تھے۔ 

ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے لوگ ملک میں دندناتے پھرتے رہتے تھے حتیٰ کہ 11 مارچ 2025کو مجید بریگیڈ نے جعفر ایکسپریس اغواء کر لی اورچھٹی جانے والے 26 فوجی جوانوں کو گولی مار کر پہاڑوں میں روپوش ہو گئے‘ پاکستان کے اندر بھی سڑکیں گرم تھیں‘ ریاست ٹویٹر بندکرنے پر مجبور تھی اور سوشل میڈیا پر اربوں روپے سے فائر وال لگا دی تھی۔ 

یہ صورت حال بھارت کے لیے آئیڈیل تھی چناں چہ اس نے اپریل میں پہلگام کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملے کا فیصلہ کر لیا‘ ہم نے بھارت کو تحقیقات کی کھلی پیش کش کی‘ ہم نے عالمی ماہرین کے ذریعے تفتیش کی آفر تک کی لیکن بھارت نہیں مانا اور آپ ہماری کمزوری کی حد دیکھیں‘ پوری دنیا میں کسی ملک نے ہماری حمایت نہیں کی‘ کسی نے بھارت کو نہیں کہا آپ حملے سے پہلے تحقیقات کرا لیں یا ہم درمیان میں آ کر تحقیقات کرا دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

دنیا سائیڈ پر کھڑی ہو کر تماشا دیکھتی رہی‘ آپ ذرا اپریل میں جا کر حالات کا دوبارہ جائزہ لیں‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری مسکرا رہے تھے‘ عمران خان جیل میں بغلیں بجا رہے تھے‘ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی نے حملوں کی تیاری شروع کر دی تھی اور عوام فوج پر طنز کر رہے تھے۔ 

ہمیںجنگ سے قبل ہمارے دوستوں نے بھی ڈرانا شروع کر دیا تھا‘ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے بھی بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ یہ اس سے قبل کہوٹہ پلانٹ تباہ کرنے کی دو کوششیں کر چکا تھا لیکن یہ کسی مکمل جنگ میں بھارت کا حصہ دار نہیں بنا تھا۔ 

اس مرتبہ اس نے بھارت کو اپنے جدید ترین ڈرونز ہاروپ بھی دیے اور انھیں چلانے کے لیے ڈیڑھ سو ماہرین بھی بھارت بھجوائے‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے یہ ڈرونز اور ماہرین قطر کے ذریعے بھارت آئے تھے اور ہم نے جب قطر سے شکوہ کیا تھا تو اس کی طرف سے صرف مسکراہٹ کا تحفہ ملا تھا۔

پوری دنیا میں ان حالات میں صرف دو ملکوں نے پاکستان کا ساتھ دیا‘ ترکی اور آذربائیجان اور یہ مدد بھی صرف سفارتی تھی‘ پاکستان کا ترکی کے ساتھ ڈرون سازی کا ایک معاہدہ تھا جس پر ماضی سے کام چل رہا تھا‘ ہمیں اس کے علاوہ ترکی سے بھی کوئی عملی مدد نہیں ملی۔ 

ہمارے پاس چین کے جے 10طیارے تھے‘ یہ ہم نے خریدے تھے اور اس سودے میں چین نے ہمیں ٹھیک ٹھاک رگڑا لگایا تھا‘ بھارت نے اپنی پراکسیز ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ذریعے ہماری فوج کو کے پی اور بلوچستان میں بھی پھنسا رکھا تھا‘اس کا خیال تھا ہم کے پی اور بلوچستان سے نہیں نکل سکیں گے۔

بھارت نے ان حالات میں چھ اور سات مئی کی درمیانی رات بہاولپور‘ مریدکے‘ مظفر آباد‘ کوٹلی اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا‘ پاکستان ائیرفورس نے بھرپور جواب دیا اور بھارت کے چھ طیارے گرا دیے جن میں دنیا کے جدید اور مضبوط ترین چار رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ 

پاکستان کا یہ ری ایکشن حیران کن تھا جس نے امریکا‘ یورپ‘ عربوں اور چین کو بھی حیران کر دیا‘ دنیا اگر اس وقت بھی نیوٹرل ہوتی تو یہ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہو جاتی لیکن جیت کے بعد بھی ہمیں رگڑا لگایا گیا۔ 

امریکا اور عرب دوستوں نے ہمیں سمجھانا شروع کر دیا آپ خاموش ہو جائیں ورنہ بھارت آپ کو بہت پھینٹا لگائے گا‘ 9مئی کو سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ پاکستان آئے اور ہمیں مشورہ دیا آپ جنگ کو مزید آگے نہ بڑھائیں انڈیا نے بہت تیاری کر رکھی ہے‘ یہ آپ کو زمین کے ساتھ لگا دے گا۔

لیکن فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا جواب تھا آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر لیکن ہم نے فیصلہ کر لیا ہے‘ ہم حملے کا جواب ضرور دیں گے‘ جواب کلیئر تھا لہٰذا سعودی نائب وزیرخارجہ سعودی عرب واپس چلے گئے‘ رخصتی کے وقت ان کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی ’’ٹھیک ہے آپ اگر مرنا چاہتے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

9مئی کو امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے فاکس نیوزکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ’’یہ بھاڑ میں جائیں‘ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہیں‘‘ یہ صورت حال بھارت کو بتا رہی تھی‘ آپ آگے بڑھیں اور بے شک پاکستان کا قیمہ بنا دیں۔

لیکن اللہ تعالیٰ کو کیوں کہ پاکستان کی عزت منظور تھی‘ اللہ نے ائیرچیف ظہیر احمد بابر اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے مقدر میں فتح لکھی تھی چناں چہ پاکستان نے 10 کی صبح پانچ بجے بھارت پر حملہ شروع کیا اور ان کے ائیرڈیفنس کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ 

دنیا میں پہلی مرتبہ روس کے ایس 400 ائیرڈیفنس کا جنازہ نکلا‘ اسرائیل کے ہاروپ ڈرونز بھی دنیا میں مذاق بن کر رہ گئے‘ یہ صورت حال حیران کن تھی اور بھارت سے لے کر امریکا تک سب ڈر گئے‘ ان کا خیال تھا پاکستان جس طرح بھارت پر حملہ کر رہا ہے اگر اسے نہ روکا تو یہ انڈیا کی پوری ائیرفورس تباہ کر دے گا۔

چناں چہ صبح آٹھ بجے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو فون کیا‘ یہ دو دن سے مسلسل جاگ رہے تھے‘ ان کی آنکھ لگ گئی تھی‘ ان کے اسٹاف نے انھیں اٹھایا اور مارکو روبیو سے بات کرائی‘ امریکی وزیر خارجہ نے اسحاق ڈار سے کہا ’’ایکس لینسی‘‘۔(باقی اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے)
 

متعلقہ مضامین

  • مئی 2025
  • بھارت پاکستان میں دہشت گردی اورمظالم چھپا نہیں سکتا ، صائمہ سلیم
  • دعوی نہیں کر سکتا پاکستان میں بہترین جمہوریت ہے . خواجہ آصف
  • بھارت دہشتگردوں کی مالی و عسکری سرپرستی، کشمیر میں ظلم چھپا نہیں سکتا: پاکستان
  • بھارت دہشتگردوں کی مالی و عسکری سرپرستی ، کشمیرمیں ظلم چھپا نہیں سکتا- ‘پاکستان کا کرارا جواب
  • بھارت دنیا بھر میں دہشتگردوں کی سرپرستی کو چھپا نہیں سکتا، اقوام متحدہ میں پاکستان کا کرارا جواب
  • ایشیا کپ فائنل: بھارت کو کیسے پچھاڑا جا سکتا ہے؟ وسیم اکرم نے گُر بتا دیا
  • پی ٹی آئی کا 27ستمبر کا جلسہ کامیاب نہیں ہونا، اس کو کامیاب کرنے کیلئے وادی تیراہ واقعہ پر سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے،حسن ایوب کا تجزیہ
  • دریاؤں اور ندی نالوں پر تجاوزات: ایک سنگین ماحولیاتی و معاشرتی مسئلہ
  • صدر مملکت کے احکامات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، ترجمان