بھارت دہشتگردوں کی مالی و عسکری سرپرستی، کشمیر میں ظلم چھپا نہیں سکتا: پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
بھارت دہشتگردوں کی مالی و عسکری سرپرستی، کشمیر میں ظلم چھپا نہیں سکتا: پاکستان WhatsAppFacebookTwitter 0 27 September, 2025 سب نیوز
نیویارک: اقوام متحدہ میں پاکستانی سفارتکار صائمہ سلیم نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی و عسکری سرپرستی اور کشمیر میں اپنے مظالم چھپا نہیں سکتا۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھارتی مندوب کے بیان کے جواب میں صائمہ سلیم نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ ہم مجبور ہیں کہ اُس ملک کو جواب دیں جو فیصلہ نہیں کر پایا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نقاب اوڑھے یا دنیا کی سب سے بڑی جھوٹی فیکٹری کے طور پر خود کو بے نقاب کرے، ہر سال بھارت اس فورم پر اپنے پرانے جھوٹ کا بوجھ لے کر آتا ہے۔
انہوں نے دنیا کو بتایا کہ بھارت واحد ملک ہے جو اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو اپنی پالیسی کے طور پر اختیار کرتا ہے، اس کا منافقانہ چہرہ اب عیاں ہوچکا ہے، وہ پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی و عسکری سرپرستی، پورے خطے میں خفیہ نیٹ ورکس اور مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و جبر کو چھپا نہیں سکتا۔
یہ بھی بتایا کہ بھارت کی پراکسیز جیسے ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کے ذریعے ہونے والی دہشت گردی نے پاکستان میں ہزاروں معصوم شہریوں کی زندگیاں چھین لیں اور عبادت گاہوں، درس گاہوں اور روزگار کے مراکز کو خون کی ہولی کا میدان بنا دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی قربانیاں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں طویل عرصے سے عالمی برادری تسلیم کرتی آئی ہے، یہ فورم یقیناً ایک جارح، قابض اور ریاستی سرپرست دہشت گرد سے کوئی لیکچر سننے کا محتاج نہیں، پاکستان نے نہ صرف پہلگام واقعہ کی مذمت کی بلکہ آزاد، غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا، اگر بھارت کے پاس چھپانے کو کچھ نہ ہوتا تو وہ ایسی تحقیقات سے انکار نہ کرتا۔
پاکستانی کونسلر نے کہا کہ اس واقعے کے بعد عالمی برادری کی جانب سے صبر، بات چیت اور سفارتکاری کی اپیل کے باوجود بھارت نے صورتحال کو بگاڑا اور 7 سے 10 مئی 2025 کے دوران پاکستان پر بلاجواز جارحیت کی، جس کے نتیجے میں بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے شہید ہوئے، پاکستان نے ہمیشہ ایک اصولی اور ذمہ دارانہ مؤقف اپنایا جنگ سے پہلے، دورانِ جنگ اور بعد میں بھی، تاکہ شہریوں اور شہری ڈھانچوں کو نقصان نہ پہنچے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی لاپرواہ جوہری جنگجوئی اور اشتعال انگیزی نے اس کے سامراجی عزائم کو بے نقاب کردیا، جب اس کی مہم جوئی شکست سے دوچار ہوئی تو بہانے تراشے گئے مگر سچ چھپ نہ سکا، غرور کا بلبلا پھٹ گیا، فوجی طاقت کا افسانہ بکھر گیا اور بھارتی نقصانات کے ناقابل تردید شواہد عالمی برادری نے خود فراہم کیے۔
صائمہ سلیم نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھنا بھارت کے مکروہ کردار کو آشکار کرتا ہے، پانی کو ہتھیار بنا کربھارت نے واضح کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کا کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والا ملک ہے، جو خطے کے امن کو خطرے میں ڈالتا ہے، کروڑوں افراد کو پانی کے بنیادی حق سے محروم کرتا ہے اور ایک انسانیت دوست معاہدے کی حرمت پامال کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں پر ظلم بھارت میں آر ایس ایس-بی جے پی حکومت کی سرکاری پالیسی بن چکا ہے، مسلمانوں کو ایمان کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، عیسائیوں پر عبادت کی وجہ سے حملے ہوتے ہیں، سکھ اپنی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنتے ہیں اور دلت اپنی ذات کی بنیاد پر ذلیل کیے جاتے ہیں، دنیا گجرات کو نہیں بھولی جہاں ہزاروں مسلمانوں کو ریاستی سرپرستی میں قتل کیا گیا، دہلی کو نہیں بھولی جب ہجوم نے خون بہایا اور پولیس خاموش رہی، منی پور کو نہیں بھولی جہاں سیکڑوں مارے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کا ریکارڈ صرف خون میں نہیں لکھا بلکہ الفاظ میں بھی درج ہے، اعلیٰ قیادت کی طرف سے نفرت انگیز بیانات، کھلے عام نسل کشی کی اپیلیں، اور میڈیا کے ذریعے تعصب کی پرورش۔ آج کے ناقابلِ برداشت بھارت میں اسلاموفوبیا قانون میں ادارہ جاتی طور پر شامل ہے، سیاست میں معمول بن چکا ہے اور میڈیا میں فخر کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
پاکستانی سفارتکار نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ اپنی سرحدوں سے باہر بھارت ہمسایوں کو ڈراتا ہے، علاقائی تعاون کو روکتا ہے، غیرقانونی قتل و غارت کو برآمد کرتا ہے، اور پراکسیز کو فنڈ کرتا ہے تاکہ خطے کو غیرمستحکم کرے، یہی نیا بھارت کا چہرہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انکار اور تحریف بھارت کے پسندیدہ ہتھیار ہیں، لیکن کوئی جعل سازی ایک بنیادی حقیقت کو نہیں بدل سکتی، جموں و کشمیر بھارت کا حصہ کبھی نہیں تھا اور نہ ہے، سلامتی کونسل کی قراردادیں جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیتی ہیں، جس کا حتمی فیصلہ ایک آزاد اور غیرجانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے ہونا ہے، جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں کرائی جائے۔
پاکستانی ایلچی صائمہ سلیم نے جنرل اسمبلی کو یاد دلایا کہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت نے 9 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں، ظالمانہ قوانین کا نفاذ، جعلی مقابلے، جبری گمشدگیاں، اجتماعی قبریں، حوالاتی قتل، منظم جنسی تشدد اور میڈیا بلیک آؤٹ دیکھا جا سکتا ہے، اگست 2019 کے بعد بھارت نے اس خطے میں غیرقانونی آبادیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اپنے آبادکار نوآبادیاتی منصوبے کو تیز کر دیا ہے۔
اپنے مفصل جواب میں پاکستان نے کہا کہ بھارت کے برعکس پاکستان پرامن بقائے باہمی، باہمی احترام اور علاقائی استحکام کے لیے پُرعزم ہے، لیکن ہم نے یہ بالکل واضح کر دیا ہے: بھارت کو ہماری خودمختاری اور علاقائی سالمیت پامال کرنے اور بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے کا کوئی اختیار نہیں، اگر ہم پر جارحیت مسلط کی گئی تو ہم اس کا جواب دیں گے۔
جوابی بیان میں دو ٹوک کہا گیا کہ پاکستان بھارت کی منافقت کو بے نقاب کرتا رہے گا، اس کا قبضہ، اس کے دوہرے معیار، کشمیری عوام کے حقوق سے انکار اور اس کی جھوٹی پروپیگنڈا مہم، کھوکھلی بیان بازی کو اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے نہیں دیں گے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام انصاف، وقار اور آزادی کے حقدار ہیں، وہ اپنے حقِ خودارادیت کو استعمال کریں گے اور ایک دن ضرور آزاد ہوں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراقوام متحدہ اجلاس؛ وزیر دفاع کے پیچھے بیٹھی خاتون سے متعلق دفتر خارجہ کی وضاحت اقوام متحدہ اجلاس؛ وزیر دفاع کے پیچھے بیٹھی خاتون سے متعلق دفتر خارجہ کی وضاحت خالصتان ریفرنڈم کا اعلان: سکھ رہنماؤں نے بھارت کو للکار دیا سلامتی کونسل میں ایران پر پابندیاں دوبارہ لاگو، چین اور روس کی قرارداد ناکام کراچی: ڈی جی رینجرز سندھ کا جامعۃ الرشید احسن آباد کا دورہ جی ایچ کیو حملہ کیس: عمران خان نے ٹرائل روکنے کی درخواست دائر کردی وزیر اعظم کی ہدایت پر ایف بی آرکا ٹیکس دہندگان کی سہولت کیلئے اہم اقدامCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کی مالی و عسکری سرپرستی چھپا نہیں سکتا
پڑھیں:
بھارت کا سیکولر چہرہ ہندوتوا انتہا پسندی کی نئی شکل
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
بھارت کے مسلمان پاکستان کے خلاف زہر اُگلنے اور ہرزہ سرائی کر کے جتنی بھی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر لیں لیکن اپنی وفاداری ثابت نہیں کر سکتے ۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کا نام نہاد مسلم رہنما اسد الدین اویسی زہریلا انسان ہے اور مودی کا ایجنٹ ہے بہت فخریہ انداز میں دو قومی نظریہ کی مخالفت کرتا ہے ۔اپنے آپ کو محب وطن بھارتی کہتا ہے لیکن آج تک مسلمانوں کے حقوق اور ہندوتوا سوچ سے آزادی نہیں دلا سکا۔صرف میڈیا پر بھاشن جھاڑتا ہے ۔بھارت کے مولوی بھی دوغلے ہیں ۔یہ پاکستان مخالفت میں اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، ان کا ایجنڈا بھی پاکستان مخالف بیانیہ ہے ۔اسی وجہ سے بھارتی متعصب ہندو لیڈروں اور تنظیموں کی وجہ سے وہاں شر پھیلاتا ہے ۔گزشتہ دنوں ایسا ہی واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ۔
بھارت میں( I Love Muhammad) کے جملے نے جس تیزی سے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ہے ، وہ محض نبی کریم ۖ سے محبت اور عقیدت کا اظہار تھا مگر اس نے ملک کے سیاسی، سماجی اور مذہبی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ ابتداء ایک سادہ سی کارروائی سے ہوئی جب اُتر پردیش کے شہر کنپور کے علاقے راوت پور میں عید میلاد النبی ۖ کے جلوس کے دوران ایک برقی بورڈ پر I Love Muhammad تحریر نمایاں کی گئی۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے اسے نئی روایت قرار دیتے ہوئے مخالفت کی اور کچھ افراد کے خلاف مقدمات درج کیے ۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی علامتی اشیاء پہلے کبھی جلوس کے روایتی راستے پر استعمال نہیں کی گئیں اور اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک محبت بھرا پیغام تنازع کا شکار ہو کر پورے ملک میں پھیل گیا۔کنپور کے بعد یہ معاملہ صرف ایک شہر تک محدود نہ رہا بلکہ جلد ہی اتر پردیش کے دیگر اضلاع جیسے انّاؤ، کاوشامبی، مہرّاج گنج، بَرے لی اور لکھنؤ تک پھیل گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد، مہاراشٹر کے شہر ناگ پور اور اتراکھنڈ کے کاشی پور میں بھی یہی نعرہ بلند ہوا۔ جگہ جگہ مسلمان نوجوان اور مذہبی تنظیمیں بینرز لے کر سڑکوں پر نکل آئے ۔ ان کا مؤقف یہی تھا کہ یہ ان کا آئینی اور مذہبی حق ہے کہ وہ اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کریں اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔دوسری طرف متعصب ہندو تنظیموں کا ردعمل انتہائی سخت اور جارحانہ تھا۔ انہوں نے اسے ایک نئی روایت قرار دے کر مخالفت شروع کر دی۔ بعض جگہوں پر ہندو انتہا پسند گروپوں نے بینرز کو پھاڑنے اور جلوس روکنے کی کوششیں کیں۔ کنپور میں ایک ہندوتوا تنظیم نے کھلم کھلا ایک بورڈ توڑ ڈالا لیکن اس کے باوجود پولیس نے کارروائی مسلمانوں کے خلاف ہی کی اور ایف آئی آر میں صرف ان کے نام درج کیے گئے ۔ ان گروپوں کا دعویٰ تھا کہ ایسی نئی روایات جلوسوں میں شامل کرنا سماجی امن کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ یوں یہ معاملہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی شکل اختیار کر گیا اور ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ۔
اس تحریک میں کئی مسلم سیاسی رہنما اور جماعتیں بھی سامنے آئیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ I Love Muhammad کہنا کسی بھی صورت جرم نہیں ہے ، یہ محض ایک جذباتی اظہار ہے اور اس پر ایف آئی آر کاٹنا غیر آئینی اور امتیازی رویہ ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے رہنماؤں نے بھی اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں کو بلاوجہ ہراساں کر رہی ہے اور ان کے بنیادی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ صوفی تنظیموں اور مذہبی اداروں جیسے ورلڈ صوفی فورم اور جماعت رضا مصطفی نے بھی اپنے بیانات میں واضح کیا کہ مسلمانوں کا یہ اظہار پرامن ہے اور اسے روکنے کی بجائے اس کا احترام کیا جانا چاہیے ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ماننے والوں کو صبر اور تحمل کا دامن تھامنے کی تلقین کی تاکہ کسی طرح کا تشدد یا انتشار نہ پھیلے ۔ادھر بی جے پی اور ریاستی حکومتوں کا مؤقف اس کے برعکس رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ جلوس اور مذہبی تقریبات میں نئی چیزیں شامل کرنا سماجی ہم آہنگی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی کا حق ہے ۔ بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے اسے امن و امان کا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ ریاستی حکومتیں صرف اپنا آئینی فرض ادا کر رہی ہیں۔مرکزی حکومت یعنی مودی سرکار نے اگرچہ اس معاملے پر کھلا بیان دینے سے گریز کیا لیکن اس کا عمومی مؤقف یہی رہا کہ ریاستی حکومتیں اپنے دائرہ کار میں قانون کے مطابق کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں اصل اعتراض بینر کے الفاظ پر نہیں بلکہ جلوس میں نئی روایت شامل کرنے پر تھا۔ تاہم اس وضاحت نے مسلمانوں کو مطمئن نہیں کیا بلکہ ان کے خدشات کو مزید بڑھا دیا کہ حکومت دراصل تعصب کا شکار ہے اور اقلیتوں کو اپنے عقیدے کے اظہار کا حق نہیں دیا جا رہا۔یہ تمام صورتحال بھارت کے آئین میں درج مذہبی آزادی اور اظہار رائے کے حق کو سوالیہ نشان بنا رہی ہے ۔
ایک طرف مسلمان پرامن طریقے سے اپنے نبی ۖ سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو دوسری طرف انتظامیہ اسے جرم بنا کر پیش کر رہی ہے۔ اگر ریاست اس قدر امتیازی رویہ اپنائے گی تو یہ تحریک محض ایک نعرے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک بڑے سیاسی اور سماجی دباؤ میں بدل جائے گی۔ اس وقت بھارت کو دراصل سب سے زیادہ ضرورت مذہبی رواداری اور یکجہتی کی ہے ۔ اگر ہر طبقہ دوسرے کے جذبات کا احترام کرے تو ایسے تنازعات جنم ہی نہ لیں۔
آخر میں یہ بات واضح ہے کہ I Love Muhammad تحریک صرف ایک بینر یا بورڈ نہیں بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے دل کی آواز ہے ۔ اس آواز کو دبانے کی کوشش دراصل ایک ایسی چنگاری کو ہوا دینا ہے جو ملک کے سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تحریک کو تعصب کی عینک سے دیکھنے کے بجائے اسے ایک پرامن مذہبی اظہار سمجھے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ ایف آئی آر واپس لے ، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرے اور متعصب عناصر کو قابو میں کرے ۔ عوام کو بھی چاہیے کہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور احتجاج کو پرامن رکھیں تاکہ مخالفین کو الزام تراشی کا کوئی موقع نہ ملے ۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ معاملہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے اور بھارت کی سیکولر شناخت پر ایک بڑا سوال کھڑا ہو سکتا ہے ۔ بھارتی مسلمان ذہنی غلامی سے ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے متعصب ہندو ان کو مذہبی دباؤ میں رکھتے ہیں۔بھارت کے مسلمان اور وہاں کے مسلم رہنما پاکستان کی فکر چھوڑیں اور اپنے حقوق کے حصول مسائل پر توجہ دیں۔
٭٭٭