لاہور (نوائے وقت رپورٹ) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمنٰ نے کہا کہ جماعت اسلامی نے 26ویں ترمیم کے خلاف موثر اور جاندار آواز بلند کی اور اس ترمیم کو یکسر مسترد کردیا تھا تاہم بعض اپوریشن جماعتیں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کا حصہ بن گئیں، امیر جماعت نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر فیصلہ کے بعد دیکھنا ہوگا کہ حکومتی اور بالخصوص اپوزیشن پارٹیاں کس طرح کا ردعمل دیتی ہیں، کیا وہ پی ٹی آئی کی اصولی نشستوں کو مال غنیمت سمجھ کر قبول کر لیں گی یا اخلاقی، اصولی اور جمہوری موقف اپناتے ہوئے انکار کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نام نہاد سیاسی پارٹیوں کے لیے جمہوریت محض اپنے مفاد کو سمیٹنے کا الاپ ہے، سیاسی جماعتیں اپنا قبلہ درست کرلیں اور جمہوری اصولوں کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں تو ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ہی اپنے حق کے لیے پرامن مزاحمت کی طرف جانا ہوگا اور اس وقت صرف جماعت اسلامی ہی ان کے لیے جدوجہد کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ حافظ نعیم الرحمنٰ نے سیاحوں کے دریائے سوات میں ڈوبنے کے اندوہناک واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہا ر کرتے ہوئے لواحقین سے اظہار ہمدردی اور مرحومین کی مغفرت کے لیے دعا کی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب تفہیم القرآن، بانی جماعت اسلامی!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مولانا مودودیؒ ایک نا بغہ روزگار شخصیت تھے جن کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔مولانا سید مودودی ؒ نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا اورقرآن و سنت کی روشنی میں جدید مسائل کے حل پیش کیے۔ ان کی تصانیف نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا با لخصوص مصر، ترکی، تیونس، الجزائر، اور دیگر ممالک میں اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔ ‘’’الجہاد فی الاسلام‘‘، ’’اسلامی ریاست‘‘،’’سیرت رسول ﷺ‘‘، ’’سود‘‘، ’’پردہ ‘‘، اور’’رسائل و مسائل‘‘ جیسی مشہور و معروف تصانیف ان کے قلم کا شاہکار ہیں۔’’الجہاد فی الاسلام‘‘ ان کی پہلی بڑی تصنیف تھی، جسے 24 سال کی عمر میں لکھا۔ علامہ محمد اقبال نے اس کتاب کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’’اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانون صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف ہے‘‘۔سید مودودیؒ سے راقم کو کبھی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ ان سے میرا پہلا تعارف بھی ان کی کتب کے ذریعے ہوا۔

مولانا مودودیؒ کے نزدیک اسلام محض چند عبادات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک کامل تہذیب اور نظام زندگی ہے۔ انہوں نے مغربی تہذیب کے ’’دین و سیاست کی جدائی‘‘ کے نظریے کی مخالفت کی اور کہا کہ اسلام میں دین اور سیاست ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبال شعر لکھاکہ: ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی پیدائش: 25 ستمبر 1903ء، وفات: 22 ستمبر 1979ء کو ہوئی۔وہ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر، مفسر قرآن، مصنف، صحافی، اور سیاسی رہنما تھے۔ آپ کا شمار دنیا کے مؤثر ترین مسلم علماء میں ہوتا ہے۔ آپ کی فکر اور تحریک نے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ مولانا مودودیؒ کی 46ویں برسی 22 ستمبر کو منائی جا رہی ہے، جو ان کی گراں قدر خدمات کو یاد کرنے کا ایک موقع ہے۔

مولانا مودودی ؒ نے جماعت اسلامی کی شکل میں ایسی تحریک اٹھائی جو خالصتا ً حکومت الٰہیہ کے قیام کی تحریک تھی۔اسلام کے نام پر مسلم معاشروں میں بہت سی جماعتیں پہلے سے کام کررہی تھیں مگر وہ سب اسلام کو ایک مذہب اور عبادت و ریاضت سے آگے بڑھ کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں تھیں،جبکہ سید مودودیؒ نے اسلام کو ایک دین اور نظام زندگی کے طور پر پیش کیا۔بلا شبہ یہ ان کا بڑا کارنامہ اور امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے۔

1933ء میں مولانا مودودیؒ نے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کا اجراء کیا، جو ان کے افکار و خیالات کے اظہار کا اہم ذریعہ بنا۔ اس رسالے کے ذریعے انہوں نے براہ راست مسلمانوں سے خطاب کیا اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو واضح کیا۔مولانا مودودیؒ کی سب سے عظیم دینی خدمت ’’تفہیم القرآن‘‘ ہے، جو چھ جلدوں پر مشتمل قرآن مجید کی تفسیر اور ترجمہ ہے۔ اس کی تدوین میں انہوں نے 30 سال (1942ء تا 1972ء) صرف کیے۔ یہ تفسیر روایتی تفسیر سے ہٹ کر لکھی گئی، جس میں معاشیات، سماجیات، تاریخ، اور سیاسیات جیسے موضوعات پر قرآن کے نقطہ نظر کو واضح کیا گیا۔جدید مسائل کے حوالے سے قرآن کریم کی رہنمائی۔قرآن کے فلسفہ اور مقاصد کی گہری شرح۔سیرت نبوی ﷺ اور تاریخی واقعات کی روشنی میں آیات کی تشریح۔ اس تفسیر کا ترجمہ انگریزی، عربی، ہندی، بنگالی، ملیالم، ماراٹھی، پشتو، اور دیگر کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور انسانیت کی ہدایت کے لیے وقف کی۔ انہوں نے نہ صرف علمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں، بلکہ جماعت اسلامی کی شکل میں ایک تحریک بھی چلائی، جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ اور دیگر تصانیف آج بھی اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اسلامی تعلیمات کو واضح کرنے کا ذریعہ ہیں۔

مولانا مودودیؒ نے صرف علمی و فکری میدان میں ہی خدمات انجام نہیں دیں، بلکہ انہوں نے معاشرتی اصلاح اور انسانیت کی بہبود کے لیے بھی کام کیا۔ انہوں نے ’’خدمت خلق‘‘کو اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ قرار دیا اور اس پر عمل بھی کیا۔ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی نے سماجی خدمات کے متعدد منصوبے شروع کیے، جن میں غریبوں کی مدد، تعلیمی اداروں کا قیام، اور مفت طبی امداد شامل تھے۔مولانا مودودیؒ کی 46ویں برسی پر ہمیں ان کے افکار و نظریات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ان کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ’’توحید‘‘کا حقیقی شعور دیا اور اسلام کو ایک کامل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا۔ آج کے دور میں جب اسلام کو غلط تشریحات کے ذریعے پیش کیا جا رہا ہے، مولانا مودودیؒ کی فکر ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
مولانا مودودیؒ نے 26 اگست 1941ء کو جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی، جو ایک اسلامی تحریک اور سیاسی جماعت تھی۔ اس کا مقصد اسلام کے نفاذ اور اسلامی نظام حیات کی بحالی تھا۔ ابتداء میں مولانا مودودیؒ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے، لیکن بعد میں پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے کوشاں رہے۔

مولانا مودودیؒ کی فکر اور تحریروں نے عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کو متاثر کیا۔ اخوان المسلمون مصر،فلسطین میں حماس اور شمالی امریکہ میں اسلامک سرکل جیسی تنظیموں نے ان کے افکار سے استفادہ کیا۔ ترکی، تیونس، الجزائر، اور مصر میں اسلامی جماعتوں کی کامیابی میں مولانا مودودیؒ کے لٹریچر نے کلیدی کردار ادا کیا۔1979ء میں مولانا مودودیؒ کو سعودی عرب کے شاہ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا، جو ان کی اسلامی خدمات کا اعتراف تھا۔ انہوں نے مدینہ اسلامی یونیورسٹی کے قیام اور انتظام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
1953ء میں تحریک ختم نبوت کے دوران مولانا مودودیؒ کو گرفتار کیا گیا اور ایک فوجی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ تاہم، بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے یہ سزا تبدیل کر دی گئی۔ مولانا نے سزا کے خلاف اپیل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: ’’زندگی و موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں ‘‘۔اگر اللہ کے ہاں میری موت کا فیصلہ ہوچکا ہے تو مجھے کوئی بچا نہیں سکتا اور اگر وہاں ابھی میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو یہ سارے الٹے بھی لٹک جائیں تب بھی میرا بال بیکا نہیں کرسکتے۔

مولانا مودودیؒ نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کی تشریح میں ’’توحید‘‘اور ’’حاکمیت الہی‘‘ کو مرکزی حیثیت دی، اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جائے۔
مولانا مودودیؒ 22 ستمبر 1979ء کو لاہور میں وفات پا گئے۔ ان کی نماز جنازہ قذافی سٹیڈیم لاہور میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ انہیں 75 سال کی عمر پائی، لیکن ان کا علمی و فکری ورثہ آج بھی زندہ ہے۔مولانا مودودیؒ نے اپنی زندگی میں 120 سے زیادہ کتابیں لکھیں، جو دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی، اور یہ جدید دور کی سب سے مقبول تفسیروں میں سے ایک ہے۔

حافظ نعیم الرحمٰن گلزار

متعلقہ مضامین

  • جن لوگوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے کردار ادا کیا وہ قوم کے مجرم ہیں، حافظ نعیم الرحمان
  • 26ویں آئینی ترمیم کے لئے کردار اداکرنے والے قوم کے مجرم ہیں: حافظ نعیم الرحمان
  • اسرائیل بدمست ہاتھی اسے روکنا ہوگا، پاکستان میں حماس کا دفتر ہونا چاہیے، حافظ نعیم الرحمن
  • جماعت اسلامی نجکاری کیخلاف ہر فورم پر آواز بلند کریگی ، عنایت اللہ خان
  • امریکہ اسرائیل کی پشت پر ہے، بار بار جنگ بندی کو ویٹو کرنا اس کی واضح مثال ہے، حافظ نعیم
  • ۔26ویں ترمیم کیخلاف کھڑے نہ ہوئے تو چائنہ ماڈل آ سکتا ہے،شاہد جمیل
  • سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب تفہیم القرآن، بانی جماعت اسلامی!
  • ایران، ترکی کو بھی دفاعی معاہدے میں شامل کیا جائے: حافظ نعیم
  • مافیاز عام آدمی کے منہ سے آخری نوالہ چھین لینا چاہتے ہیں،حافظ نعیم
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ مسلم ممالک میں اتحا د کی طرف پہلا قدم ہے،حافظ نعیم الرحمن