data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250925-01-1
لاہور (نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہاہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایک کے بعد دوسرے مسلمان ملک کو نشانہ بنایا گیا، قطر پر حملے کے بعد مسلمان ملکوں میں اتحاد کی جانب بڑھنے پر سوچ بچار کا عمل شروع ہوا،پاکستان سعودی دفاعی معاہدہ مسلم ممالک میں اتحاد کی طرف بڑھنے کا پہلا قدم ہے،دیگر اسلامی ممالک باالخصوص ایران اور ترکیہ کو بھی اس معاہدے میں شامل کیا جائے۔امریکا بار بار جنگ بندی کی قرار داد کو ویٹو کرکے امن پسند عالمی برادری کی تضحیک اور اسرائیل کو غزہ میں قتل عام جاری رکھنے کا موقع دے رہا ہے،امریکا اسرائیل کی پشت پر ہے،بار بار جنگ بندی کو ویٹو کرنا اس کی واضح مثال ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں قومی و بین الاقوامی معاملات اور صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ملک بھر سے اراکین شوریٰ نے اجلاس میں شرکت کی۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وادی تیراہ جیسے واقعات سے غیر یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بے گناہ عورتوں اور بچوں کے مارے جانے سے عوام کے اندر غصہ اور نفرت بڑھ رہی ہے۔ ایسے واقعات سے اداروں پر عدم اعتماد بڑھے گا اور عوام سے دوریاں پیدا ہوں گی۔ حافظ نعیم الرحمن نے افغانستان سے معاملات کو معمول پر لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان کا مسئلہ افغانستان کے تعاون سے حل کیا جائے۔دونوں ملک بات چیت سے اپنے مسائل پر امن طریقے حل کرسکتے ہیں۔ اسی میں دونوں کی بہتری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ظلم و جبر کا مسلط نظام بدل نہیں جاتا ملک میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ ملک میں حقیقی تبدیلی کے لیے ایک بڑی عوامی تحریک کی ضرورت ہے اور اس ضرورت کو جماعت اسلامی پورا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں اقتدار پر مسلط پارٹیوں کو عوام اچھی طرح جان اور پہچان چکے ہیں۔سال ہا سال کے اقتدار کے باوجود یہ پارٹیاں عوام کو ریلیف دینے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ حکومت میں بیٹھے ہوئے مافیاز عام آدمی کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ پہلے چینی اور اب آٹا بھی عوام کی پہنچ سے دور ہورہا ہے۔ہو شربا مہنگائی نے عوام کی پریشانیوں اور مشکلات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔پاکستان میں غربت میں اضافے کے متعلق عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ چشم کشا ہے۔انہوں نے کہا کہ 21تا 23نومبر کومینار پاکستان لاہور میں ہونے والا اجتماع عام ان شاء اللہ تبدیلی کی بنیاد بنے گا۔
لاہور (نمائندہ جسارت) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ غربت کے خاتمے کے نام پر گزشتہ 17 برس سے جاری بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے غربت میں کمی واقع نہیں ہوئی، پیپلز پارٹی اور دیگر حکومتی جماعتیں شور نہ مچائیں، سچ تسلیم کریں۔ایکس پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے عالمی بینک کی پاکستان میں شرح غربت سے متعلق حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیا اور کہا کہ ہزاروں ارب سالانہ کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بے ضابطگیوں اور وڈیرہ شاہی کرپشن سے بھرا ہوا ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق آخری 3 سال میں غربت کی شرح 18.

3 سے بڑھ کے 25.3 ہوگئی ہے جو 7 فیصد اضافہ ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے جو ہزاروں ارب آئی ٹی کی تعلیم کی فراہمی پر خرچ کیے جاتے تو ملک میں بڑا انقلاب آجاتا اور غربت کی شرح بڑھنے کے بجائے کم ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ عوام کو خیرات نہیں حق دیا جائے۔یاد رہے کہ عالمی بینک کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 6 کروڑ سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک میں گزشتہ برسوں کے دوران جو ترقیاتی ماڈل اپنائے گئے وہ غربت کم کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔

نمائندہ جسارت

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی نے کہا کہ انہوں نے ملک میں بینک کی

پڑھیں:

پاک، سعودی دفاعی معاہدہ۔۔ ایک اور ایک گیارہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250923-03-6

 

جاوید احمد خان

قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں عرب ممالک کے جو اجلاس ہوئے اور پھر دوسرے اجلاس میں ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، اور پاکستان کے سربراہان نے شرکت کی اس سے قبل عرب ممالک کے اجلاس میں بھی پاکستان کو خصوصی طور پر بلایا گیا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ان اجلاسوں میں اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کا اعلان کیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور اسرائیل کو بھی معلوم تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ لیکن ان اجلاسوں میں ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ شرکائے اجلاس کا مجموعی تاثر یہ ابھر کر سامنے آیا کہ قطر پر حملے میں امریکا معصوم نہیں ہے اس کو معلوم تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔ یہی امریکا ہے جس نے دوحا کے تحفظ کے لیے اس کے یہاں فوجی اڈے بنائے اور تیرہ ہزار امریکی فوجی وہاں پر ہیں اسی طرح سعودی عرب میں بھی ہے۔ پھر کئی ماہ قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر گئے تو سعودی عرب اور قطر نے نہ صرف ان کا عظیم الشان استقبال کیا بلکہ کئی ٹریلین ڈالر کی امریکا میں سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا ان دونوں ممالک نے امریکا کو یہ بھتا اس لیے دیا کہ ان کا تحفظ ہوگا اور اسرائیل کی طرف سے کسی بھی قسم کے حملے کا کوئی اندیشہ نہ ہو کہ اس سے قبل اسرائیل لبنان، یمن اور شام پر حملہ کرچکا ہے اور ایران سے تو باقاعدہ جنگ ہوئی۔ قطر پر اسرائیلی حملے اور امریکا کی منافقت نے عرب ممالک کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ایک طرح سے امریکا پر عرب ملکوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے اور ان کی سلامتی خطرات میں محصور ہوگئی کہ جب نیتن یاہو کا یہ بیان آیا کہ وہ جس ملک پر چاہے گا حملہ کرے گا اور اس کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ امریکا ہر صورت میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ اگر اسرائیل نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو امریکا اسرائیل کے ساتھ ہوگا۔

بس یہی وہ وقت تھا جب سعودی عرب اور پاکستان نے دفاعی معاہدے پر تبادلہ خیال کیا اور دور رس فیصلے کیے، معاہدے تیار بھی ہوئے اور دستخط بھی ہوگئے ہم ایک جملہ اکثر سنتے رہے ہیں کہ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی اب اس کو پلٹ کر یوں کہا جاسکتا ہے لمحوں نے وفا کی صدیوں نے اماں پائی۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے یہ دونوں ہی اقوال مشرق وسطیٰ کے معاملات میں پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں عرب اور دیگر مسلم ممالک کے سربراہان کے اجلاسوں کے جو نتائج سامنے آئیں ہیں اس میں تو یہی قول فٹ نظر آتا ہے کہ لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی یعنی یہی وہ لمحات تھے جس کو گرفت میں لینے کی ضرورت تھی کم از کم یہی اعلان ہوجاتا کہ ہم امریکا میں کئی ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری پر نظر ثانی کریں گے، آج کی مادی دنیا میں قرارداد کے سخت الفاظ سے زیادہ کاروبار کی چوٹ محسوس ہوتی ہے، کچھ مسلم ممالک اپنے ملک پر اسرائیلی طیاروں کے لیے فضائی پابندی کا اعلان کرتے غزہ کے بچے جو بھوک سے مائوں کی گودوں میں دم توڑ رہے ہیں ان بھوکوں کی غذائی رسد کے حوالے سے کوئی عملی قدم اٹھانے کا فیصلہ ہوتا کچھ ممالک جو اربوں ڈالر کی اسرائیل سے تجارت کررہے ہیں وہ اس کو روکنے کا اعلان کرتے، مسلمانوں کی اپنی اقوام متحدہ کے حوالے سے کوئی بات کی جاتی یعنی کچھ تو ہوتا جس سے مسلم امہ کے کچھ آنسو رک جاتے۔ اب آئندہ آپ کو یہ موقع ملے یا نہ ملے بلکہ جو موقع مل رہا تھا اسے ضائع کردیا۔

20 ستمبر کے اخبارات میں اسحاق ڈار کایہ بیان آیا ہے کہ یہ معاہدہ ایک رات میں طے نہیں پایا بلکہ اس میں کئی ماہ کا وقت لگا، اسحاق ڈار وزیر خارجہ ہیں ہم ان کے بیان کو رد بھی نہیں کرتے لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہمارا ملک وہ ہے جہاں قدم قدم پر امریکا کے وفادار بیٹھے ہیں جن کی دولت، جن کے خاندان، جن کے کاروبار اور جن کا مستقبل باہر کے ملکوں میں ہو اور وہ یہاں حکومت کرنے، کمیشن اور کک بیکس لینے کے لیے آتے ہوں ان کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن تھا کہ مہینوں سے کسی پروجیکٹ پر کام ہورہا ہو اور امریکا کو کانوں کان خبر نہ ہو سکے اگر یہ سب کچھ اچانک نہ ہوتا تو آج مغربی میڈیا میں بھونچال اور بھارتی میڈیا پر پاگل پن کیوں آیا ہوا ہے۔ اس معاہدے کی وجوہات میں تین فیکٹر بہت اہم ہیں کہ پہلی وجہ تو اسرائیل کا دوحا پر حملہ ہی ہے کہ اس نے ان عرب ملکوں کو جن کے یہاں ان کی ملکی سلامتی کی آڑ میں امریکا نے اپنے فوجی اڈے قائم کیے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا یہی سوچ اس معاہدے کی دوسری وجہ ہے اور تیسری سب سے اہم وجہ اس سال ماہ مئی میں پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی شاندار فتح ہے کہ بھارت کی وہ متھ ملیا میٹ ہوگئی کہ ہم جب چاہیں پاکستان کو سبق سکھا سکتے ہیں، ابھی تاز دھمکی پھر مودی نے دی ہے کہ ہم گھس کر ماریں گے، چلیے دیکھتے ہیں یہ بھی شوق پورا کرلیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک نے اپنے دفاع کے لیے کیا ہے نہ کہ کسی ملک پر جارحیت کے لیے یعنی اگر پاکستان پر کوئی ملک حملہ کرے گا تو سعودی عرب اسے خود پر حملہ سمجھے گا اور اگر سعودی عرب پر کوئی ملک حملہ کرے گا تو پاکستان اس کو اپنے اوپر حملہ سمجھے گا۔ اب یہ دونوں اس وقت کیا کریں گے یہ اسٹرٹیجی اسی وقت طے کرنے کی ہے اس نکتے پر پہلے سے کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ اس طرح کے اتحاد دنیا میں پہلے سے موجود بھی ہیں کچھ پہلے بنائے بھی گئے تھے جس میں بظاہر یہ کہا گیا کہ یہ ممالک اپنے اپنے دفاع کے لیے یہ معاہد ہ کررہے ہیں لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ انہوں نے یہ معاہدے دفاع کے لیے نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک پر جارحیت کے لیے کیے تھے۔

پہلی مثال اس کی یہ ہے کہ 1970 میں روس اور بھارت نے مل کر ایک دفاعی معاہدہ کیا تھا اور اس میں یہی تھا کہ کسی نے حملہ کیا تو مل کر جواب دیں گے اس میں اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت روس کو اپنے اوپر کس ملک کے حملے کا خطرہ تھا اور بھارت کو کس سے خطرہ تھا اگر بات کی جائے کہ پاکستان سے تھا تو پاکستان تو اس وقت خود اپنے اندرونی مسائل میں الجھا ہوا تھا۔ دراصل بھارت نے روس سے یہ معاہدہ دفاع کے لیے نہیں بلکہ پاکستان پر جارحیت کے لیے کیا تھا اور 1971 میں اس نے پاکستان پر روس کی معاونت سے حملہ کرکے مشرقی پاکستان کو علٰیحدہ کردیا اور اس بات کا اقرار تو خود نریندر مودی نے 2015 میں ڈھاکا میں ایک جلسے میں کیا تھا۔

دوسرا اتحاد جو اس وقت موجود بھی ہے وہ ناٹو ممالک کا اتحاد ہے جو 32 ممالک پر مشتمل ہے اس میں ترکی بھی شامل ہے ہم نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ اس اتحاد نے اپنے کسی ملک کے دفاع کے لیے کسی سے جنگ کی ہو بلکہ جہاں بھی جنگ کی وہ جنگ نہیں جارحیت تھی، نائن الیون ایک دہشت گردی کا واقعہ تھا اسے امریکا نے شروع سے اپنے اوپر حملہ کہا اس میں جو لوگ پکڑے گئے وہ سب عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے لیکن امریکا نے افغانستان کو اس حملے کا ذمے دار ٹھیرایا اور ناٹو کے تمام ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر جارحیت کی اور پھر بیس سال بعد شکست خوردہ ہوکر واپس گیا۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ پاک سعودی معاہدہ کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک کے دفاع کے لیے ہے بلکہ کسی کی طرف سے جارحیت روکنے کا اسپیڈ بریکر ہے اس کے باوجود کسی نے جارحیت کی تو یہ ویسے تو ایک اور ایک دو ملک ہیں لیکن وقت پڑا تو اپنی کارکردگی کے اعتبار سے ایک اور ایک گیارہ ثابت ہوں گے۔

 

جاوید احمد خان

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودیہ تاریخ ساز دفاعی معاہدہ !
  • پاک سعودیہ معاہدہ مسلم ممالک کے تعاون سے علاقائی سکیورٹی کے جامع نظام کی شروعات ہے: ایرانی صدر کا پہلا رد عمل
  • پاک۔سعودی دفاعی معاہدے میں ایران کی شمولیت ضروری ہے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدے میں ایران کو بھی شامل کیا جائے، حافظ نعیم الرحمٰن
  • حافظ نعیم الرحمن کا سعودی مفتی اعظم کی وفات پر اظہار افسوس
  • پاک، سعودی دفاعی معاہدہ۔۔ ایک اور ایک گیارہ
  • پاک،سعودیہ تاریخی دفاعی معاہدہ مسلم امہ کیلئے کامیابی کی نوید ہے،فیصل معیز خان
  • برطانیہ کا فلسطین کو تسلیم کرنا خوش آئند ،تاہم غزہ میں جنگ بندی بنیاد اہمیت کی حامل ہے،حافظ نعیم الرحمن
  • جماعت اسلامی کا یکم سے 7 اکتوبر تک ہفتہ یکجہتی فلسطین منانے کا اعلان