گاندھی میدان اس وقت وقف قوانین کے خلاف نعروں اور بینرز سے گونج رہا ہے اور پورے ماحول میں ایک احتجاجی جذبہ نمایاں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امارت شرعیہ بہار، جھارکھنڈ و اڈیسہ کے زیر اہتمام آج پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں "دستور بچاؤ، اوقاف بچاؤ کانفرنس" کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں بہار کے طول و عرض سے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔  یہ کانفرنس امارت شرعیہ کی جانب سے طلب کی گئی ہے، تاہم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی شراکت نے اسے مزید تقویت بخشی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بہار بلکہ جھارکھنڈ اور اترپردیش سے بھی بڑی تعداد میں لوگ شریک ہو رہے ہیں۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد مودی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے وقف ترمیمی قانون کی واپسی کا مطالبہ کرنا ہے۔ اس مطالبے کی حمایت نہ صرف مختلف مسلم جماعتیں اور تنظیمیں کر رہی ہیں بلکہ متعدد سیکولر سیاسی جماعتیں بھی اس آواز میں شریک ہیں۔ اجلاس میں مختلف مذہبی، سماجی اور سیاسی شخصیات موجود ہیں اور مقررین حکومت سے یک زبان ہو کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ وقف سے متعلق ترمیمی قانون کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات کے تناظر میں یہ کانفرنس سیاسی طور پر نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی اکثر جماعتوں نے اپنے نمائندہ رہنماؤں کو اس میں شرکت کے لئے روانہ کیا ہے۔ کانگریس کی جانب سے سید ناصر حسین اور عمران پرتاپ گڑھی شریک ہوئے ہیں، جبکہ راشٹریہ جنتا دل، بائیں بازو کی جماعتیں، سماجوادی پارٹی، ترنمول کانگریس، جھارکھنڈ مکتی مورچہ اور دیگر علاقائی جماعتوں کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی بھی اس کانفرنس میں شریک ہیں۔ گاندھی میدان اس وقت وقف قوانین کے خلاف نعروں اور بینرز سے گونج رہا ہے اور پورے ماحول میں ایک احتجاجی جذبہ نمایاں ہے۔ عوام کی شرکت اور جوش و خروش اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان اس قانون کو اپنے مذہبی اور سماجی تشخص پر حملہ تصور کر رہی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

بہار الیکشن ۔ہندوتوا نظریہ کی جیت ۔مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیاں

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

 

دہلی دھماکے مودی کی مکاری اور گھناونی سازش بہار کے الیکشن جیتنے کے لیے تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا ہے ۔بہار میں مودی ہندوتوا نظریہ جیت گیا اب بھارت میں کامیابی کا بیانیہ ہندوتوا نظریہ، پاکستان مخالفت ، فالس فلیگ آپریشن اور مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم ڈھانا اور نہتے کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلنا۔
برق گرتی ہے بیچارے کشمیریوں پر
بھارت نے اس واقعے کو بہانے کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیوں کی نئی لہر شروع کر دی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق، گزشتہ چند دنوں میں وادی کے مختلف علاقوں میں بھارتی فورسز نے 30سے زائد مقامات پر چھاپے مارے ، مکان منہدم کیے اور متعدد افراد کو گرفتار کیا۔ یہ کارروائیاں نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ کشمیری عوام کی زندگی اور امن کو بھی شدید خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں یہ انتقامی اقدامات کسی نئے مسئلے کی علامت نہیں بلکہ دہائیوں سے جاری تشدد اور ریاستی ظلم کا تسلسل ہے۔ دھماکے کے بعد فوری طور پر بھارتی فورسز کی جانب سے چھاپے ، گرفتاریاں اور املاک کی توڑ پھوڑ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہاں انسانی زندگی اور بنیادی حقوق کی قدر نہ ہونے کے برابر ہے ۔ خاص طور پر، گھرانوں کی بنیاد پر قبضہ اور مکانوں کا منہدم ہونا ایک واضح انتقام کی حکمت عملی ہے ، جو مقامی آبادی میں خوف اور عدم تحفظ پیدا کرتی ہے ۔سرکاری ذرائع کے مطابق، مقبوضہ وادی میں یہ چھاپے صرف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے شواہد اکٹھا کرنے کے لیے کیے گئے ، لیکن مقامی افراد اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بیان کو مسترد کرتی ہیں۔ ان کے مطابق، بیشتر گرفتاریاں اور چھاپے سیاسی بنیادوں پر کیے جا رہے ہیں، جس کا مقصد کشمیری عوام کو دبانا اور احتجاج کے حق کو محدود کرنا ہے ۔ رپورٹوں کے مطابق، جن علاقوں میں چھاپے مارے گئے ، وہاں نہ صرف رہائشی مکان متاثر ہوئے بلکہ دکانیں، تعلیمی ادارے اور دیگر سماجی ڈھانچے بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس صورتحال کو محدود اور یکطرفہ انداز میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس میں زیادہ تر دھماکے اور دہشت گردانہ حملوں پر زور دیا گیا، جبکہ وادی میں عام لوگوں پر ہونے والے حملوں اور گرفتاریوں کا ذکر بہت کم ہے ۔ اس طرح کی رپورٹنگ سے بین الاقوامی سطح پر صورتحال کا غلط تاثر پیدا ہوتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی حقیقت چھپ جاتی ہے ۔ اعدادوشمار کے مطابق، گزشتہ دو ہفتوں میں بھارتی فورسز نے وادی کے مختلف شہروں میں کم از کم 30چھاپے مارے ، جن میں سے 12 مکان مکمل طور پر منہدم ہوئے ۔ 3,000سے زائد افراد کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا، جبکہ سیکڑوں گھروں میں رہائشیوں کو حفاظتی وجوہات کے نام پر نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ مقامی تنظیمیں ان کارروائیوں کو ”انتقامی کارروائیوں کی واضح مثال ” قرار دے رہی ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اقدامات صرف امن قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ خوف پھیلانے اور مزاحمت کو دبا دینے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، اس قسم کی ریاستی کارروائیاں طویل المدتی اثرات رکھتی ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول پیدا ہوتا ہے ، تعلیم متاثر ہوتی ہے اور سماجی ڈھانچے کمزور پڑ جاتے ہیں۔ اقتصادی نقصان بھی شدید ہے ، کیونکہ چھاپوں اور املاک کی تباہی کے بعد مقامی کاروبار مفلوج ہو جاتا ہے ، اور ہزاروں خاندان غربت کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، مقبوضہ کشمیر میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی اس نوعیت کی کارروائیوں سے تقریبا 50,000 لوگ براہِ راست متاثر ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں کی زندگی میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔
ان تمام مظالم کے باوجود کشمیری عوام اپنے صبر اور عزم کی مثال قائم کر رہے ہیں۔ مقامی تنظیمیں انسانی حقوق کی حفاظت، قانونی معاونت، اور بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں، اور بھارت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مقبوضہ وادی میں فوری طور پر غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے ۔یہ صورتحال نہ صرف مقامی عوام کے لیے خطرناک ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی امن اور استحکام کے لیے ایک چیلنج ہے۔ بھارت کی انتقامی کارروائیاں کشمیری عوام کی زندگی کو مسلسل خطرے میں ڈال رہی ہیں اور اس علاقے میں دیرپا امن کے قیام کو ناممکن
بنا رہی ہیں۔ اگر بین الاقوامی برادری خاموش رہتی ہے تو یہ تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی مزید بڑھ سکتی ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری انتقامی کارروائیاں صرف دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل کے طور پر نہیں بلکہ ایک منظم حکمت عملی کے تحت شہریوں کے خوف اور دباؤ کے لیے کی جا رہی ہیں۔ مقامی عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ اقدامات اختیار کریں، معلوماتی رابطے مضبوط کریں، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ تعاون جاری رکھیں۔ حکومت بھارت پر عالمی دباؤ ڈالنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی فوجی کارروائیوں کو محدود کرے اور مقامی شہریوں کی زندگی اور جائداد کی حفاظت کو یقینی بنائے ۔اس کے ساتھ ساتھ مقامی کمیونٹی اور بین الاقوامی ادارے مشترکہ طور پر کام کریں تاکہ متاثرہ افراد کو فوری امداد فراہم کی جا سکے ، تعلیمی اور معاشی نقصان کو کم کیا جا سکے ، اور کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت ممکن بنائی جا سکے ۔ سماجی سطح پر شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا میں مستند رپورٹس شائع کرنا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے تعاون سے مظاہرین کو قانونی اور معاشرتی مدد فراہم کرنا ضروری ہے ۔ یہ اقدامات مقبوضہ کشمیر میں استحکام اور امن کی بحالی کے لیے ناگزیر ہیں۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • قلعہ بالاحصار پشاور میں ایف سی خیبرپختونخوا نارتھ کے زیر اہتمام قبائلی عمائدین کا جرگہ
  • پاکستان کی میزبانی میں عالمی خلائی کانفرنس 2025 کا انعقاد
  • رائے ونڈ: مندوبین عالمی تبلیغی اجتماع کے آخری روز اجتماع دعا میں شریک ہیں
  • NTUFکے زیر اہتمام احمد حفیظ جمال کی یاد میں تعزیتی ریفرنس
  • بہار الیکشن ۔ہندوتوا نظریہ کی جیت ۔مقبوضہ کشمیر میں انتقامی کارروائیاں
  • بہار نتائج:الٹی ہوگئی سب تدبیریں
  • نوجوانوں کو پالیسی سازی میں برابر کا شریک بنایا جائے گا: رانا مشہود
  • اردن کے شاہ عبداللّٰہ دوم کے اعزاز میں ایوان صدرمیں ظہرانہ،اعلیٰ شخصیات شریک
  • آصف زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نہیں ہیں، شازیہ مری
  • بہار الیکشن میں مودی نے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا