بھارتی آئین سے سوشلسٹ اور سیکولر الفاظ ہٹانے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
سخت گیر ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس نے بھارتی آئین کے دیباچے میں شامل ‘سوشلسٹ اور ‘سیکولرالفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ ان الفاظ کو ایمرجنسی کے دوران کانگریس حکومت نے آئین میں شامل کر دیا تھا۔
گزشتہ انتخابات میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے ایک حلقے نے یہ مہم چلائی تھی کہ ہندو راشٹر بنانے کے لیے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے، جس کے لیے بی جے پی کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت چاہیے
بھارت کی حکمراں ہندو قوم پرست جماعت کی مربی سخت گیر ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے، جب اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ آیا ‘سوشلسٹ‘ اور ‘سیکولر‘ جیسے الفاظ کو آئین کے دیباچے سے نکالنے کی ضرورت ہے یا انہیں اب بھی برقرار رکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ستر کی دہائی میں ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران اس وقت کی کانگریس کی حکومت نے ان الفاظ کو آئین کے دیباچے میں شامل کر دیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر ایمرجنسی نافذ کرنے کے لیے کانگریس کو ملک سے معافی مانگنے کو بھی کہا۔
سن 1976 میں 42ویں آئینی ترمیم کے ذریعے بھارتی آئین کے دیباچے میں سو شلسٹ اور سیکولر کے الفاظ شامل کیے گئے تھے۔
ایمرجنسی کے نفاذ کے پچاس برس مکمل ہونے کے موقع پر دارالحکومت دہلی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہوسابلے نے کہا ایمرجنسی کے دوران آئین میں،سوشلسٹ اور سیکولر الفاظ شامل کیے گئے، بعد میں انہیں ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لیے اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ آیا انہیں باقی رہنا چاہیے یا نہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا میں یہ بات امبیڈکر انٹرنیشنل کی عمارت میں کہہ رہا ہوں جو بابا بھیم راؤ کے نام سے معروف ہے۔ اور ان کے آئین کے دیباچے میں یہ الفاظ نہیں تھے۔” واضح رہے کہ بھارتی آئین کو جس تین رکنی کمیٹی نے ترتیب دیا تھا، اس کے صدر بابا بھیم راؤ امبیڈکر تھے۔
آر ایس ایس بھارت کو ہندو راشٹر یعنی ہندوؤں کے لیے خصوصی ملک بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد سے بھارتی آئین میں تبدیلی کی باتیں کوئی نئی بات نہیں ہے
آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے نے اس موقع پر ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے کانگریس پارٹی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کا نام لیے بغیر کہا، “جن لوگوں نے یہ کیا (ایمرجنسی نافذ کی) وہ آج آئین کو ہاتھ میں لے کر گھوم رہے ہیں، انہیں تو اس کے لیے ملک سے معافی مانگنی چاہیے، اگر آپ کے آباؤ اجداد نے ایسا کیا ہے، تو وہ معافی مانگیں گے۔”
واضح رہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے دوران کانگریس سمیت حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں، خاص طور پر راہول گاندھی، نے مختلف ریلیوں میں آئین کی کاپی دکھاتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت بھارتی آئین کو “تبدیل کرنے کی کوشش” کر رہی ہے۔
بھارت میں 25 جون 1975 کو اس وقت کی وزیر اعظم اندا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا، جسے یاد کرتے ہوئے ہوسابلے نے کہا کہ اس دوران ہزاروں افراد کو قید اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور عدلیہ اور میڈیا کی آزادی کو بھی بری طرح دبایا گیا تھا۔
بھارت کو ہندو راشٹر یعنی ہندوؤں کے لیے خصوصی ملک بنانے کی کوشش کے لیے بھارتی آئین میں تبدیلی کی باتیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حکمران ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے رہنما بھی ماضی میں بہت بار اس کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں اور خاص طور پر سیکولر کا لفظ ہٹانے کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اصل آئین میں لفظ سیکولر، یعنی ریاست یا حکومت کا کوئی مذہب نہیں، اور سوشلسٹ نہیں تھے اور اندرا گاندھی کی حکومت نے اس دور میں اسے آئین کا حصہ بنایا، جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کے ایک حلقے نے یہ مہم چلائی تھی کہ ہندو راشٹر بنانے کے لیے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے، جس کے لیے بی جے پی کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت چاہیے، اس لیے عوام کو بی جے پی کو زیادہ حمایت دینی چاہیے۔
تاہم کانگریس اور دیگر جماعتیں اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت تو کیا، سادہ اکثریت بھی نہیں ملک سکی اور وہ ایک مخلوط حکومت قائم کرنے پر مجبور ہوئی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
تاج محل کو مندر بنانے کی سازش؟ پاریش راول کی فلم کے پوسٹر پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا
بالی ووڈ کی فلمیں بھی مذہبی منافرت پھیلانے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اکسانے پر مبنی بن رہی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بالی ووڈ کی آنے والی فلم ’دی تاج محل اسٹوری اپنے ٹریلر کے اجرا ساتھ ہی تنازع کا شکار ہوگئی۔
فلم کے پوسٹر میں اداکار پاریش راول کو تاج محل کے گنبد سے ہندو دیوتا شیو کا مجسمہ نکالتے ہوئے دکھایا گیا۔
جس کے بعد نہ صرف مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے افراد نے بھی شدید تنقید کرتے ہوئے تاج محل کو ایک اور بابری مسجد بنانے کی سازش قرار دی۔
تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ فلم اس دعوے کو تقویت دیتی ہے کہ تاج محل کی جگہ پہلے ہندو مندر تھا۔
سوشل میڈیا پر بھی صارفین کا کہنا تھا کہ یہ فلم تاریخی حقائق کو مسخ کر کے ہندو مسلم تقسیم کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔
ابتدا میں ہی اتنی مخالفت کو دیکھتے ہوئے فلم کی ٹیم نے وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلم میں یہ نہیں دکھایا گیا کہ تاج محل دراصل شیو مندر ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کہانی کا مقصد کسی مذہبی تنازع کو ہوا دینا نہیں۔ فلم ’’تاریخی حقائق پر مبنی‘‘ ہے۔
ادھر فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے پاریش راول نے کہا کہ لوگوں کو دوسروں کی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے فلم دیکھ کر اپنی رائے قائم کرنی چاہیئے۔
خیال رہے کہ فلم کی نمائش 31 اکتوبر 2025 کو سینما گھروں میں متوقع ہے۔
Is this a Joke??
Now the joker of Indian Cinema is releasing a trailer showing God Shiva emerging out of the Taj Mahal.
A country which claims to be the 4th Largest Economy is so much indulged in propaganda and fantasy that even Propaganda will feel ashamed.#TheTajStory pic.twitter.com/7QSJla7VX8