28ویں آئینی ترمیم کب آئےگی اور اس میں کیا تجاویز ہوں گی؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
حکومت نے گزشتہ سال 26ویں آئینی ترمیم منظور کرائی تھی جس کے فوری بعد 27ویں آئینی ترمیم کی باز گشت ہونے لگی تھی، اور اب رواں ماہ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل ہی سینیٹر فیصل واؤڈا نے کہا تھا کہ 27ویں تو منظور ہو ہی جائے گی میڈیا والے 28ویں ترمیم کی تیاری کریں۔
ایسا ہی ہوا کہ 27 آئینی ترمیم کی منظوری کہ چند دنوں بعد ہی 28 آئینی ترمیم انے کی بھی باتیں زور پکڑ رہی ہیں اور حکومتی رہنماؤں کی جانب سے بھی اس کی تصدیق کی جا چکی ہے۔
مزید پڑھیں: استعفے دینے والے ججوں کے ذاتی مقاصد ہیں، 28ویں آئینی ترمیم بھی جلد پاس ہوگی، رانا ثنااللہ
’وی نیوز‘ نے جاننے کی کوشش کی کہ 28ویں آئینی ترمیم کب تک آ سکتی ہے اور اس ترمیم کے ذریعے آئین میں کیا تبدیلی کی جا سکتی ہے۔
وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہاکہ حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کے وقت ایم کیو ایم کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ بلدیاتی نظام کی مضبوطی کے لیے بھی آئین میں ترمیم کی جائے گی لیکن وہ اس وقت پیپلز پارٹی کے اعتراضات کے باعث نہ ہو سکی تھی۔
’اس لیے بلدیاتی نظام کی مضبوطی کے لیے آرٹیکل 140 اے میں ترمیم کے علاوہ این ایف سی اور تعلیم سے متعلق اصلاحات کے لیے 28ویں آئینی ترمیم تجاویز دی جائیں گی، اس ترمیم میں بجٹ سے متعلق بھی ترامیم ہوں گی اور اس کی منظوری یقینی طور پر بجٹ سے قبل ہوگی۔‘
انہوں نے کہاکہ امکان ہے اپریل سے پہلے 28ویں ترمیم کی منظوری ہو جائے گی، اس ترمیم کا براہِ راست تعلق بجٹ سے بھی ہوگا۔
بیرسٹر عقیل ملک نے کہاکہ 28ویں ترمیم میں اپنے دوسرے اتحادیوں کے مطالبات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا، بلدیاتی نظام میں کچھ تبدیلیاں کی جائیں گی۔ وزیراعظم نے اس سے متعلق قومی اسمبلی میں بھرپور اظہار خیال کیا ہے تو اس ترمیم کو بھی اتفاق رائے سے منظور کیا جائےگا۔
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ بھی 28ویں ترمیم آنے کی تصدیق کرتے ہوئے واضح کر چکے ہیں کہ یہ ترمیم لوکل باڈیز، این ایف سی اور صحت سے متعلق ہوگی۔
ان کے مطابق اس ترمیم میں زیادہ ترامیم عوامی معاملات سے متعلق ہوں گی۔ ’اس وقت بلدیاتی نظام، این ایف سی اور صحت کے معاملات پر اتحادیوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے، اگر اتفاق ہوتا ہے تو جلد 28ویں آئینی ترمیم لائی جائے گی۔‘
سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہاکہ جس طرح کے ملکی سیاسی حالات ہیں کوئی بھی ترمیم کسی بھی وقت ہو سکتی ہے، پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کے لیے 18ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے معاملہ بہت حساس ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ابھی تو اٹھارویں ترمیم پر بھی صحیح طرز پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
انہوں نے کہاکہ صوبائی فائنانس کمیشن بننا تھا، جس کا قیام نہیں ہو سکا، 18ویں ترمیم میں اختیارات کی منتقلی کی بات ہوئی تھی لیکن وہ بھی نہیں ہو سکے ہیں۔ ابھی تو 18ویں ترمیم پر بھی مکمل سے عمل نہیں ہوا تو اس میں مزید ترمیم سے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کیا حاصل کر سکے گی؟
مظہر عباس نے کہاکہ اس وقت حکومت کو آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ عددی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ اپوزیشن یا کسی بار کونسل یا وکلا برادری کی جانب سے اس کی کوئی منظم مخالفت نہیں کی جا رہی۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن اتحاد کا 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف شدید ردعمل، یوم سیاہ اور مارچ کا اعلان کردیا
انہوں نے کہاکہ ججوں کے استعفیٰ دینے کے باوجود وکلا کی کوئی تحریک سامنے نہیں آئی جو کہ ماضی میں سامنے آتی رہی ہے، اس لیے حکومت کے لیے آئینی ترمیم کرنا آسان ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
18ویں ترمیم wenews آئینی ترمیم باز گشت پیپلز پارٹی سینیٹر فیصل واوڈا وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 18ویں ترمیم پیپلز پارٹی سینیٹر فیصل واوڈا وی نیوز ترمیم کی منظوری آئینی ترمیم کی بلدیاتی نظام پیپلز پارٹی 28ویں ترمیم ایف سی نے کہاکہ ترمیم کے نہیں ہو جائے گی کے لیے
پڑھیں:
27ویں آئینی ترمیم: سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ازسرِنو تشکیل
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو نئی آئینی ضروریات کے مطابق ازسرِنو تشکیل دے دیا گیا ہے۔
جاری کردہ اعلامیے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور رکن جسٹس جمال خان مندوخیل کو شامل کیا گیا ہے، جو سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز میں شامل ہیں۔ ان کی نامزدگی چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت نے مشترکہ طور پر کی۔
یہ بھی پڑھیے: سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف دائر 70 شکایات مسترد کر دیں
اسی طرح جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے لیے وفاقی آئینی عدالت کے سینیئر ترین جج جسٹس عامر فاروق کو رکن مقرر کیا گیا ہے۔ یہ تقرری بھی دونوں اعلیٰ عدالتی سربراہان کی باہمی مشاورت سے عمل میں لائی گئی۔
مزید برآں سپریم کورٹ کی پریکٹس اور پروسیجر کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس جمال خان مندوخیل کو بطور رکن نامزد کیا ہے، جس کے بعد کمیٹی آئینی ترمیم سے متعین کردہ نئے طریقۂ کار کے تحت اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے گی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نئی تشکیل کے بعد یہ ادارے احتساب کے عمل، عدالتی تقرریوں اور عدالتی انتظامی ڈھانچے کی بہتری کے لیے اپنے کردار کو مزید مؤثر انداز میں جاری رکھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ججز تعیناتی جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ