سانحہ سوات کے بعد دریا کے قریب قائم ہوٹلوں اور تجاوزات کیخلاف گرینڈ آپریشن
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
پشاور:
سانحہ سوات کے بعد ضلعی انتظامیہ نے دریائے سوات پر قائم غیر قانونی ہوٹلز اور تجاوزات کیخلاف گرینڈ آپریشن شروع کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق آپریشن کے دوران دریا کنارے قائم متعدد ہوٹلوں کو مسمار کردیا گیا، آپریشن کی نگرانی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر حامد خان کر رہے ہیں، آپریشن میں ریسکیو، محکمہ ایریگیشن، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے افسران حصہ لے رہے ہیں۔
کانجو ایوب برج سے آپریشن شروع کیا گیا جہاں سے فضا گٹ تک 49 مقامات پر تجاوزات ختم کی جائیں گی۔ ہوٹل مالکان اور عملے نے آپریشن کرنے والے اہلکاروں پر حملہ کرکے انہیں روکنے کی بھی کوشش کی تاہم انتظامیہ نے حالات پر قابو پاکر دوبارہ آپریشن شروع کردیا۔
ترجمان وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مطابق آپریشن کے دوران کسی کو بھی رعایت نہیں دی جائیگی، تجاوزات کے خلاف کارروائیوں کو جلد مکمل کیا جائے گا۔
ترجمان وزیراعلیٰ نے کہا کہ دریا کے کنارے غیر قانونی مائننگ مکمل طور پر بند کی جا رہی ہے، تمام ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی بھی کی جائیگی، دریا کے اطراف بیریئرز کی تعمیر کا بھی آغاز کیا جائیگا۔
ترجمان نے کہا کہ دریائے سوات کے بعد تجاوزات کے خلاف آپریشن کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جائیگا، سیاحتی مقامات کے حسن کو بحال اور محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ وزیراعلی علی امین گنڈاپور کی واضح ہدایات ہیں کہ سیاحتی مقامات پر کسی بھی قسم کی تجاوزات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
واضح رہے کہ 27 جون کو دریائے سوات میں طغیانی کے باعث 17 سیاح ڈوب گئے تھے جن میں سے 4 افراد کو بچالیا گیا تھا اور 12 لاشیں اب تک نکالی جاچکی ہیں، ایک لاپتا سیاح کی تلاش تاحال جاری ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان
پڑھیں:
کویت میں زہریلی شراب کا سانحہ: 13 تارکین وطن جان کی بازی ہار گئے
کویت میں ملاوٹ شدہ زہریلی شراب پینے کا واقعہ انسانی المیہ بن گیا۔ کویتی وزارتِ صحت نے تصدیق کی ہے کہ اس افسوسناک واقعے میں اب تک 13 تارکینِ وطن اپنی جان گنوا چکے ہیں، جبکہ 31 افراد کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا ہے۔ مزید 21 افرادکچھ مکمل طور پر، کچھ جزوی طور پر اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں —
وزارت کے مطابق شراب میں “میتھانول” نامی مہلک کیمیکل کی موجودگی پائی گئی، جو جسم میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے آنکھوں پر حملہ کرتا ہے، پھر دماغ، جگر اور اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ اکثر صورتوں میں یہ زہر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
زہریلی شراب سے متاثرہ افراد میں اکثریت اُن محنت کش تارکینِ وطن کی ہے، جو جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ افراد کویت میں تعمیراتی کام، گھریلو ملازمتوں اور مختلف سروسز میں رزقِ حلال کما رہے تھے۔ بدقسمتی سے، سستی اور غیر قانونی شراب ان کی زندگی کی قیمت بن گئی۔
کویت میں 1964 سے شراب کی درآمد پر مکمل پابندی ہے، اور 1980 کی دہائی میں شراب نوشی کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا گیا۔ تاہم، ان پابندیوں کے باوجود خفیہ طور پر غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ شراب کی تیاری و فروخت ایک دیرینہ مسئلہ رہی ہے — جس کا سب سے زیادہ نقصان وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو پہلے ہی کمزور اور بے سہارا ہیں۔
صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میتھانول جیسے کیمیکل کا استعمال نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ انسانی جان کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر سوال اٹھایا ہے کہ قانون کی موجودگی کے باوجود غریب اور محنت کش افراد کو کیوں اس قسم کے خطرناک دھندوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
یہ سانحہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔