اسلام آباد:

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس نے ایچ سی سی سے برطرف ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیاء القیوم کو عہدے پر بحال کر دیا۔

ڈاکٹر ضیاء القیوم کی جانب سے معظم حبیب ایڈووکیٹ نے کیس کی پیروی کی۔ ڈسٹرکٹ کورٹس میں سول جج سلمان بدر نے برطرفی نوٹیفیکیشن معطل کر دیا۔

حکم نامے میں کہا ہے کہ آئندہ تاریخ 16 جولائی تک ضیاء القیوم کی برطرفی کا نوٹیفیکیشن معطل کیا جاتا ہے، عدالت کو بتایا گیا من پسند افراد کو نوازنے کے لیے بدنیتی پر ایچ سی سی نے غیر قانونی آرڈر جاری کیا، وکیل نے بتایا برطرفی ہائیکورٹ کے مشرف زیدی کیس میں طے کردہ اصول کے بھی خلاف ہے۔

معظم حبیب ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈاکٹر ضیاء القیوم کی تعیناتی چار سال کے لیے انتظامی ڈھانچے کے عین مطابق ہوئی، ایچ ای سی نے غیر قانونی طور پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو نوکری سے برطرف کیا۔

عدالت نے 16 جولائی کے لیے ایچ ای سی نوٹس جاری کرکے جواب طلب کر لیا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ضیا القیوم کو 21 مئی کو عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈاکٹر ضیاء القیوم

پڑھیں:

ٹرمپ کی بڑی فتح، سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو آرڈرز روکنے والے ججوں کے اختیارات محدودکردیئے

سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو روکنے والے ججوں کے اختیارات پر قدغن لگادی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو امریکی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بڑی فتح دلاتے ہوئے سنگل بینچ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو روکنے کے اختیار کو محدود کر دیا۔

پیدائشی شہریت کے خاتمے کی ٹرمپ کی کوشش سے متعلق 6-3 کے فیصلے میں، عدالت نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے ججوں کے جاری کردہ ملک گیر حکم امتناعی ’ ممکنہ طور پر اس آئینی اختیار سے تجاوز کرتے ہیں جو کانگریس نے وفاقی عدالتوں کو دیا ہے۔

اعلیٰ عدالت نے امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے بچوں کے لئے خودکار شہریت ختم کرنے کے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کی آئینی حیثیت پر فوری فیصلہ نہیں دیا۔

لیکن عدالتی فیصلوں کے دائرہ کار پر یہ وسیع فیصلہ ٹرمپ کے اکثر انتہائی متنازع احکامات کے لیے ایک بڑی رکاوٹ کو دور کرے گا اور وائٹ ہاؤس کے اختیارات کی توثیق کرے گا۔
جسٹس ایمی کونی بیرٹ، جنہوں نے یہ رائے تحریر کی ہے ، نے کہا کہ ’ وفاقی عدالتیں ایگزیکٹو برانچ کی عمومی نگرانی نہیں کرتیں، وہ کانگریس کی طرف سے دیے گئے اختیار کے مطابق مقدمات اور تنازعات کو حل کرتی ہیں۔’
جسٹس ایمی کونی بیرٹ بیرٹ نے ایک رائے میں کہا،’ جب کوئی عدالت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ ایگزیکٹو برانچ نے غیر قانونی طور پر کام کیا ہے، تو اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ عدالت بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرے۔’ اس رائے کی عدالت کے دیگر پانچ قدامت پسند ججوں نے بھی توثیق کی، جبکہ تین لبرل ججوں نے اختلاف کیا۔
اس فیصلے کے عدلیہ کی ٹرمپ یا مستقبل کے امریکی صدور کو لگام ڈالنے کی صلاحیت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ مقدمہ بظاہر ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے ایگزیکٹو آرڈر کے بارے میں تھا جس پر انہوں نے منصب صدارت سنبھالنے کے پہلے ہی دن دستخط کیے تھے۔
لیکن اس کی اصل توجہ اس بات پر تھی کہ کیا ایک واحد وفاقی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی صدارتی حکم نامے پر عالمگیر حکم امتناعی کے ذریعے ملک گیر پابندی لگائے جبکہ یہ معاملہ عدالتوں میں زیر بحث ہو۔

ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے حکم کو میری لینڈ، میساچوسٹس اور واشنگٹن ریاست کی عدالتوں نے غیر آئینی قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے صدر نے سپریم کورٹ میں ہنگامی اپیل کی تاکہ اعلیٰ عدالت ملک گیر حکم امتناعی کے استعمال کو ختم کرے۔
یہ مسئلہ ٹرمپ اور ان کے ریپبلکن اتحادیوں کے لیے ایک اہم نعرہ بن گیا ہے، جو عدلیہ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ووٹروں کی مرضی کے خلاف ان کے ایجنڈے کو روک رہی ہے۔
ٹرمپ کا پیدائشی شہریت کا ایگزیکٹو آرڈر ان کے متعدد ایجنڈوں میں سے صرف ایک ہے جسے جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ملک بھر کے ججوں، جمہوری اور ریپبلکن دونوں کے مقرر کردہ ، نے روک دیا ہے۔
مئی میں سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی زبانی بحث کے دوران، قدامت پسند اور لبرل دونوں ججوں نے حالیہ برسوں میں ڈسٹرکٹ عدالتوں کی طرف سے ملک گیر حکم امتناعی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
جسٹس سیموئیل ایلیٹو، جو ایک کٹر قدامت پسند ہیں، نے کہا کہ ملک گیر حکم امتناعی ایک ’ عملی مسئلہ’ پیدا کرتے ہیں کیونکہ سیکڑوں ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو ’ یقین’ ہے کہ وہ بہترین جانتے ہیں۔
سولیسٹر جنرل جان سائر نے ملک گیر حکم امتناعی کا موازنہ ’ ایٹمی ہتھیار’ سے کیا، انہوں نے کہا کہ وہ ’ آئین کی طاقتوں کی علیحدگی کے محتاط توازن کو درہم برہم کرتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ وہ ایک ڈسٹرکٹ کورٹ کے حکم امتناعی کے اطلاق کو صرف ان فریقوں تک محدود کرے جنہوں نے مقدمہ دائر کیا اور اس ضلع تک جہاں جج تعینات ہے۔
گذشتہ صدور نے بھی قومی حکم امتناعی کے اپنے ایجنڈے کو روکنے کی شکایت کی ہے، لیکن ٹرمپ کے دور میں ایسے احکامات میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔
ٹرمپ کے پیدائشی شہریت کے ایگزیکٹو آرڈر میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ امریکا میں غیر قانونی طور پر یا عارضی ویزوں پر مقیم والدین کے بچے خود بخود شہری نہیں بنیں گے۔
تین ذیلی عدالتوں نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو 14ویں ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ’تمام افراد جو امریکا میں پیدا ہوئے ہیں یا قدرتی طور پر شہری بنے ہیں اور اس کے دائرہ اختیار میں ہیں، ریاستہائے متحدہ کے شہری ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • ایچ ای سی کے برطرف ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی واپسی، عدالتی حکم کے باوجود دفتر میں داخلے سے روک دیا گیا
  • ڈاکٹر ضیاء القیوم کو ایچ ای سی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا
  • عدالتی حکم کے باوجود ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی کو چارج لینے سے روک دیا گیا
  • ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیا القیوم عہدے پر بحال
  • ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیاء القیوم عہدے پر بحال
  • پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کو بڑا جھٹکا، چار قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین عہدوں سے برطرف
  • مستحکم اور ترقی پسند نسل کی تربیت کیلئے انتہا پسندی کا بھرپور مقابلہ کرنا ہو گا، پیر مظہر سعید
  • (سندھ بلڈنگ ) ناظم آباد میں ناجائز تعمیرات کو ڈائریکٹر ضیاء کی سرپرستی
  • ٹرمپ کی بڑی فتح، سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو آرڈرز روکنے والے ججوں کے اختیارات محدودکردیئے