بیجنگ :گزشتہ G7 سربراہی اجلاس میں یورپی کمیشن کی صدر نے “چین شاک تھیوری” کو زور و شور سے پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ “جب ہم شراکت دار ممالک کے درمیان ٹیرف مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہماری توجہ اصل چیلنج سے ہٹ جاتی ہے جو ہم سب کے لیے خطرہ ہے – اور وہ ہے چین”۔ ان کا تجویز کردہ حل یہ ہے کہ G7 معیشتیں عالمی GDP کا 45 فیصد اور دانشورانہ ملکیت کی آمدنی کا 80 فیصد سے زائد حصہ رکھتی ہیں – اگر یہ ممالک متحد ہو کر چین کے خلاف کھڑے ہوں تو یہ ان کے لیے میدان مارنے کا موقع ہوگا۔افسوس! امریکہ کی طرف سے مسلسل ذلت آمیز سلوک کے باوجود یورپی یونین نے خود احتسابی کی بجائے دوسروں پر بدنصیبی کا سبب بننے کی احمقانہ اور بری کوششیں کی۔ ہم ایسی یورپی یونین کی بدقسمتی پر ماتم ہی کر سکتے ہیں اور اس کی بزدلی اور حماقت پر غصہ ۔ بندر کی طرح تاج پہن کر خود کو بادشاہ سمجھنے کا یورپی یونین کا یہ تماشہ انتہائی شرمناک ہے۔یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب یورپی یونین نے ٹرمپ کو چین کے خلاف اتحاد کی تجویز پیش کی۔ گزشتہ مہینوں میں یورپی تجارتی کمشنر چین کے خلاف مشترکہ موقف تلاش کرنےکے لئے متعدد بار امریکہ گئے ۔افسوس کی بات ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے مکمل تجارتی جنگ کے اعلان کے بعد، جبکہ یورپ کو سٹیل اور آٹوموبائل ٹیرفس اور معطلی کی میعاد ختم ہونے کا سامنا ہے، یورپی یونین نے پھر بھی ذلت آمیز انداز میں ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ”آپ درست کہہ رہے ہیں، مسئلہ موجود ہے مگر وہ ہم نہیں بلکہ چین ہیں۔ ہم سب شکار ہیں، ہمیں مل کر چین کو نشانہ بنانا چاہیے”۔G7 اجلاس میں پیش کردہ “چین شاک تھیوری” درحقیقت بعض مغربی سیاستدانوں کی تنگ نظری کی آئینہ دار ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر کے بیانات نہ صرف عالمی معاشی حقائق کا سنگین غلط اندازہ ہیں بلکہ تاریخی ارتقاء کے اصولوں سے بھی متصادم ہیں۔ اکیسویں صدی میں جب دنیا باہم گہرے طور پر جڑ چکی ہے، بعض مغربی رہنما اب بھی سرد جنگ کے دور کی “زیرو سم” سوچ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ G7 ممالک کے عالمی GDP اور IP رائلٹیز میں حصے کو “گروپ بندی” کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا ناصرف فرسودہ سوچ ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی ۔ یہ نہ صرف معاشی عالمگیریت کے رجحان کے خلاف ہے بلکہ دنیا بھر کے عوام کی ترقی کی خواہشات کو بھی نظرانداز کرتی ہے۔تاریخ بہترین استاد ہے۔دریافت کے زمانے میں عالمی تجارت کے آغاز سے لے کر صنعتی انقلاب کے نتیجے میں بین الاقوامی تقسیم کاری کے قیام تک ؛ برٹن ووڈز سسٹم سے لے کر چین کے کھلے پن اور عالمی معیشت میں انضمام تک ، انسانی معاشی ترقی کی تاریخ درحقیقت رکاوٹوں کو توڑنے اور تعاون کو گہرا کرنے کی داستان ہے۔ موجودہ عالمی معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، مغربی مرکزیت پر مبنی پرانا نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ IMF کے اعداد و شمار کے مطابق خریداری کی طاقت کے تناسب کے حساب سے ابھرتی ہوئی معیشتیں عالمی GDP کا 58.

3 فیصد حصہ رکھتی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہے۔ اس رجحان کے باوجود یورپی یونین نہ صرف نئے عالمی توازن میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہے بلکہ امریکہ کی تابع دار بن کر اپنے مسائل کا ذمہ دار چین کو ٹھہرا رہی ہے۔ یہ رویہ نہ تو یورپی یونین کے ساختی مسائل (جیسے صنعتی مسابقت اور اختراعی صلاحیتوں کی کمی) کو حل کر سکے گا، نہ ہی گلوبل ساوتھ ممالک کے اجتماعی عروج کو روک پائے گا۔ یورپی یونین کے مسائل کی جڑ اس کی اپنی صنعتی ترقی میں تاخیر ہے، نہ کہ فرضی “چین شاک” نظریہ ۔ داخلی مسائل کو بیرونی خطرے کے طور پر پیش کرنے کی یہ سوچ یورپی یونین کو اسٹریٹجک خودمختاری کے راستے سے بھٹکا دے گی۔انسانی ترقی کبھی بھی اجارہ داری اور دباؤ کے ذریعے حاصل نہیں ہوئی۔قدیم شاہراہ ریشم پر اونٹوں کی گھنٹیوں سے لے کر ڈیجیٹل دور کے بٹس (bits) تک ، تہذیبیں تبادلے سے ہی رنگین ہوتی ہیں اور معیشتیں کھلے پن سے ہی خوشحال ہوتی ہیں۔ مغربی سیاستدانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج کی دنیا میں چند ترقی یافتہ ممالک انسانی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ چین کی ترقی موقع ہے ۔یہ کوئی خطرہ نہیں ۔ 1.4 ارب چینیوں کی جدید کاری سے نہ صرف بڑے پیمانے پر طلب پیدا ہوگی بلکہ اختراعی سرگرمیوں کو بھی تقویت ملے گی۔ ہم یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک سے پرانی سرد جنگ کی سوچ ترک کرنے، چین کے ساتھ مل کر عالمی سپلائی چین کو مستحکم کرنے اور مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کی اپیل کرتے ہیں۔ مساوات، باہمی فائدہ، کھلا پن اور رواداری ہی انسانیت کو روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ دیواریں کھڑی کرنے والے اپنے آپ کو تنہا کر لیں گے، جبکہ متقبل راستے کھولنے والوں کا ہی ہو گا ۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: یورپی یونین کے خلاف چین کے

پڑھیں:

خلیجی ممالک کا ریل نیٹ ورک 2030 تک مکمل ہوگا

خلیجی میڈیا کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک کا ریل نیٹ ورک 2030 تک مکمل ہوگا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق کے 2120 کلومیٹر طویل ریل منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے۔

کویت سے عمان تک ریل لائن تمام 6 رکن ممالک کو جوڑے گی، ریل نیٹ ورک سعودی عرب، قطر اور بحرین سے بھی گزرے گا۔

مسافر بارڈر پر رکے بغیر خلیجی ممالک سفر کرسکیں گے، امیگریشن فضائی سفر کی طرز پر روانگی سے پہلے مکمل ہوگا۔

عرب امارات اور عمان کو جوڑنے والےحفیت ریل منصوبے پر بھی تعمیر جاری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ناظمِ اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا “ہفتہ یکجہتی فلسطین” منانے کا اعلان
  • پورٹ قاسم عالمی رینکنگ میں نمایاں، دنیا کی نویں تیزی سے ترقی کرتی کنٹینر بندرگاہ قرار
  • ترقی پذیر ممالک باہمی تعاون سے معاشی استحکام میں کوشاں، انکٹاڈ
  • چین اور سنگاپور اہم تعاون کرنے والے شراکت دار ہیں، چینی صدر
  • مشتاق احمد سمیت تمام پاکستانیوں کی رہائی کیلیے بااثر یورپی ملک سے رابطے میں ہیں، اسحاق ڈار
  • خلیجی ممالک کا ریل نیٹ ورک 2030 تک مکمل ہوگا
  • جی 7کا روسی تیل کے خریداروں کو نشانہ بنانے کا اعلان
  • شمسی توانائی یورپی یونین میں بجلی کا مرکزی ذریعہ بن گئی: رپورٹ
  • یورپی یونین کے اثاثہ جات منصوبے پر روس کا انتہائی سخت ردعمل
  • چینی سائنس دانوں نے مقناطیسی فیلڈ کا عالمی ریکارڈ توڑ کر نئی تاریخ رقم کی