اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں میں سے صحت ایک بہت بڑی اور اَن مول نعمت ہے۔ اس نعمت کی قدر اسی وقت ہوتی ہے جب انسان بیمار ہوتا ہے اور پھروہ اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ صرف صحت کی دعا مانگتا ہے۔
ہوا یوں کہ گزشتہ دنوں ہمیں صحت کے کچھ مسائل نے آگھیرا، 2022ء کے وسط میں پہلے تو ہمیں شدید ترین ’ہیٹ اسٹروک‘ ہوا جس کی وجہ سے بہت کمزوری ہوگئی تھی پھر اگلے برس کمر کے مہروں کی تکلیف ہو گئی جس نے کافی پریشان کیا۔ اپنی تکلیف دیکھ کر دل سے یہی دعا نکلتی رہی ’’یا اللّٰہ! ایسی تکلیف کسی کو نہ دے!‘‘ اس وقت اپنی بے بسی کا شدت سے احساس ہوا اور یہ بھی حقیقت آشکار ہوئی کہ صحت کے بغیر زندگی، زندگی ہی نہیں ہے۔
اس وقت سب سے زیادہ احساس نماز کی ادائی میں مشکل کا تھا۔ کافی دنوں تک زمین پر سجدہ کرنے سے محروم رہی، تو زمین پرسجدہ کرنے کی لذت کا احساس ہوا، لہٰذا اپنے رب کے آگے گڑگڑا کر صحت اور زمین پر سجدہ ریز ہونے کی دعا مانگی۔ آخر میرے رب نے مجھ گناہ کار پر اپنا کرم کر دیا اور میری تکلیف میں کمی آتی گئی۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا، جب میں زمین پر سجدہ کرنے کے قابل ہوگئی، تو سب سے پہلے اپنے رب کا شکرادا کیا۔اس سارے عرصے کے دوران صرف اور صرف صحت کی قدر کا اندازہ ہوتا رہا۔ اور یہ سب بتانے کا مقصد صحت کی قدر اور اہمیت کا احساس دلانا مقصود ہے۔
ہم سب کی ہر دل عزیز شخصیت حکیم محمد سعید شہید کامشہور قول ہے ’’اپنی صحت کی حفاظت کرنا بھی عبادت ہے۔‘‘ اگر اسی قول کو بنیاد بنالیا جائے، تو تمام پاکستانی صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمیں صرف اور صرف اپنی غذا کومتوازن رکھنے اور مثبت طرزِ زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اپنی روز مرہ کی غذا میں صحت بخش کھانوں کو شامل رکھنا اور مضر صحت غذاؤں سے بچنے کا طریقہ اپنانا ہوگا۔ غذاکا اصل مقصد متوازن غذا کھانا ہے کہ متوازن غذا ہی تن درستی کی ضامن ہے۔ یوں ہم زیادہ عرصے تک صحت مند، مطمئن اور خوش رہ سکتے ہیں۔
اگر ہم واقعی صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے مطابق پروسیسڈ غذا بیماریوں کی وجہ بن رہی ہے۔ جو ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو بہت مرغوب ہے۔ تاہم اب ان کے اثرات کم ترقی یافتہ اور غریب ممالک میں بھی عام ہو گئے ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ناقص یا مضر صحت غذا کے استعمال سے صحت کے بہت سے پیچیدہ اور طویل المدتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
مُضر صحت غذا کے باعث قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے اور بعض اوقات تو ختم بھی ہو جاتی ہے۔ ہمارے ’آئی کیو‘ لیول میں نمایاں کمی ہوتی ہے اور دیگر بہت سے مسائل بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔ افسوس پاکستانیوں کی اکثریت اپنی لاعلمی کے باعث یہی مُضرصحت غذا استعمال کرتی ہے۔ حالاں کہ انسانی صحت سب سے اہم ہے ، اس لیے غذا کاانتخاب کرتے وقت صحت بخش غذا کو ترجیح دینی چاہیے۔
اس ضمن میں خواتین کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ گھر میں اشیائے خورونوش لانا اور کھانا پکانا خواتین کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، اس لیے خواتین اپنی اس اہم ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے نہ صرف اپنی بلکہ گھر کے تمام افراد کی صحت و تن درستی کے لیے صرف متوازن غذا کو ہی ترجیح دیں۔ یہ بات بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ غذا کا انتخاب کرتے ہوئے صحت بخش غذا کا ہی انتخاب کریں کیوں کہ متوازن غذا اور صحت بخش غذا کا استعمال ہماری صحت کی اولین ضرورت ہے اور اس کی اہمیت سے تو انکار ممکن ہی نہیں ہے۔
متوازن غذا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی بدولت ہمیں تمام اہم ترین غذائی اجزا حاصل ہو جاتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ دراصل ہمارے جسم کو تمام غذائی اجزا، کے حصول کے لیے تمام اہم معدنیات، لحمیات، دالیں، سبزیاں اور پھلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سبزی خور افراد جو بعض وجوہ سے کسی قسم کا گوشت نہیں کھاتے ان کے لیے صرف دودھ، دہی اور پنیر ہی کیلشیم و لحمیات کا ذریعہ ہیں، جو ان کو مناسب مقدار میں ملنا چاہیے، یعنی وہ روز ایک پیالی دودھ پیئں اور دہی بھی کم از کم ایک دفعہ روزانہ کھائیں۔ سفید چاول کی بہ نسبت براؤن چاول ہمارے ہاں پسند نہیں کیے جاتے، حالاں کہ غذائی طور پر وہ بہترہوتے ہیں۔
جب چاولوں کو ابال کر ان کا پانی پھینک دیا جاتا ہے، تو تقریباً پچاس فی صد غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کے بہ جائے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کو ہمارے ہاں پسند کیاجاتا ہے۔ حالاں کہ آٹے کی بھوسی میں وافر مقدار میں ریشہ موجود ہوتا ہے، جو ہماری جسمانی صفائی کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر دالیں اور پھلیاں مناسب مقدار میں کھائی جائیں تو لحمیات کی کمی کچھ نہ کچھ تو پوری ہو سکتی ہے۔ سردیوں میں خشک میوہ جات سے بھی کچھ مقدار میں لحمیات مل سکتے ہیں، جب کہ پتوں والی ترکاریاں حیاتین اور معدنیات کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں۔ جو افراد چاول خور ہیں، انھیں اپنی غذائی حیثیت درست کرنے کے لیے روزانہ کم از کم ایک وقت گندم کی روٹی کھانی چاہیے۔
تاکہ حیاتین ’ب‘ کا مجموعی طور پر ذخیرہ بہتر ہو جائے۔ جو لوگ سبزی خور ہیں ان کو اپنی خوراک میں دودھ، دہی، پنیر، اور انڈے شامل رکھنا چاہیے، تاکہ، لحمیات، کیلشیم اور حیاتین ’الف‘ کی کمی پوری کی جا سکے۔ غذا میں حیاتین ’ب‘ کی کمی صرف کلیجی اور انڈے کی زردی کھانے سے پوری ہوسکتی ہے۔ جو افراد دودھ، دہی اور گوشت بالکل نہیں کھاتے، انھیں لحمیات کی کمی پوری کرنے کے لیے دو انڈے روزانہ کھانے چاہئیں۔ جو لوگ گوشت اور انڈے نہیں کھاتے، انھیں دودھ استعمال کرنا چاہیے۔ سرخ گوشت کھانے والوں کو زیادہ مقدار میں دودھ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ غذا میں کیلشیم، فولک ایسڈ اور فولاد کے حصول کے لیے گہرے سبز رنگ کی سبزیاں، مثلاً پالک، میتھی، کرم کلا، پھول گوبھی اور سلاد کے پتے کھانے چاہئیں۔ حیاتین ’ج‘ سلاد، کچی سبزیاں اور سبز مرچوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
ہمارے ہاں مروجہ کھانے پکانے کے طریقوں میں رائج ہے کہ انھیں زیادہ دیر تک پکایا جاتا ہے اور پکنے کے درمیان غذاؤں سے پانی نکلتا ہے اس کو پھینک دیا جاتا ہے۔ جب کھانا بہت دیر تک اور آہستہ آہستہ پکایا جائے تو حیاتین اور فولک ایسڈ ضائع ہو جاتے ہیں۔ فولک ایسڈ کی کمی سے خون کی کمی اور منہ میں چھالے ہوتے ہیں، جو خواتین میں عام ہیں۔ اندازاً 80 فی صد ضروری حیاتین ہمارے اس طرح کھانے پکانے سے ضائع ہو جاتے ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ حرارے اور حیاتین کیا ہیں۔ روایتی طور پر ہمارے گھروں کے دسترخوان پر زیادہ تر افراد صرف اسی چیز کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں، جو ان کو پسند ہوتی ہے۔ یعنی وہ غذا نہیں کھاتے، جو ان کی صحت کے لیے بہتر ہوتی ہے۔ اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ وہ اچھی صحت کے لیے نہیں بلکہ صرف زبان کے چٹخارے کے لیے کھاتے ہیں۔ دراصل ہمیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ صحت بخش غذا کیا ہے۔۔۔؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں غذا، بالخصوص صحت بخش غذا کے حصول کے ذرائع کے بارے میں علم ہو، تاکہ ہر فرد اپنی استطاعت یا وسائل میں رہتے ہوئے بھی صحت بخش اور توانائی سے بھر پور غذا کا انتخاب کر سکے۔
امیر ہو یا غریب ہو ، زندہ رہنے کے لیے ہر آدمی اپنی حیثیت کے مطابق خوراک کا اہتمام تو کرتا ہی ہے تو پھر کیوں نہ صحت بخش غذا اپنے دستر خوان کی زینت بنائیں۔ عموماً سادہ غذا، مرغن غذاؤں سے زیادہ توانائی سے بھر پور ہوتی ہیں، کیوں کہ سادہ غذا میں ہی قدرتی غذائیت اور قدرتی اجزاشامل ہوتے ہیں۔ اس لیے سادہ غذائیں صحت بخش سمجھی جاتی ہیں۔ سادہ غذائیں ہی
تن درستی کی ضامن ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے طرزِ زندگی کو درست انداز میں گزارنا، جیسے صبح جلدی
اٹھنا، رات کو جلدی سونا، صبح یا شام کو چہل قدمی کرنا، روز غسل کرنا، ہر قسم کے نشے سے دور رہنا، سیروتفریح کرنا اور مناسب آرام کرنا، ان طریقوں سے نہ صرف صحت میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ مسرت بھی حاصل ہوتی ہے۔ صحیح اسلوب زندگی اختیار کرنا اورایسی عادتیں ترک کرنا، جن سے فربہی، عارضہ قلب، بلند فشار خون اور دیگر موذی بیماریاں ہوتی ہیں۔
صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔یادرکھیں ہمارے جسم سے زہریلا مواد اسی وقت خارج ہوگا جب کہ ہماری غذا میں 70 فی صد پانی ہو، اچھی جسمانی کارکردگی کے لیے روزانہ کم از کم 8 گلاس پانی پینا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہیں کھاتے متوازن غذا کی ضرورت سکتے ہیں اہمیت کا ہوتی ہے ہوتا ہے کے حصول جاتی ہے صحت کے صحت کی کے لیے غذا کا ہے اور کی کمی
پڑھیں:
بھارت پاکستان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا، پالیسیوں پر نظرثانی کرے.اسحاق ڈار
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 جون ۔2025 ) وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا، اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے،پاکستان بھارت کو 24 کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا، بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کرسکتا،معاہدے کی خلاف ورزی جنگی اقدام تصور ہوگا، مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں،فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کیے بغیر مشرق وسطی میں امن نہیں ہوسکتا،پاکستان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی ہے،ایران کے جوہری مسئلے کا حل بات چیت سے نکالا جائے.(جاری ہے)
ان خیالات کااظہار انہوں نے اسلام آباد میں انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے 52 ویں یوم تاسیس پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے، بھارت نے پہلگام فالز فلیگ کی آڑ میں پاکستان پر جارحیت مسلط کی، پاکستان نے بھارتی جارحیت کا فوری اور موثر جواب دیا. انہوں نے کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا، بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتا ہے، سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جنگی اقدام تصور ہوگا، پاکستان بھارت کو کبھی بھی 24 کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دے گا، پاکستان پرامن بقائے باہمی کے اصول پر عمل پیرا ہے ان کا کہنا تھا کہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے، مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عوامی امنگوں کے مطابق حل چاہتے ہیں، مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں. انہوںنے کہا کہ پاکستان کو مشرق وسطی کے حالیہ واقعات پر گہری تشویش ہے، پاکستان، ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے، ہم ایران کے حق دفاع کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، پاکستان ایران کے قانونی مقف کی ہمیشہ تائید کرتا رہا ہے، اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہیں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران کی خودمختاری کی حمایت کرتا ہے، ایران کے جوہری مسئلے کا حل بات چیت سے نکالا جائے اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایس ایس آئی پاکستان کا اعلی ترین ادارہ ہے، تعلیمی شعبے میں آئی ایس ایس آئی اہم کردار ادا کر رہا ہے، پالیسی سازی اور سفارتکاری میں آئی ایس ایس آئی کا کلیدی کردار ہے، دنیا اس وقت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے، پاکستان عالمی برادری کا ذمہ دار رکن ہے. ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے، نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی بربریت کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، عالمی برادری غزہ میں اسرائیلی مظالم کا سلسلہ بند کرانے کیلئے کردار ادا کرے، فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کے بغیر مشرق وسطی میں امن نہیں ہو سکتا، پاکستان مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا حامی ہے. انہوںنے کہا کہ افغان حکومت یقینی بنائے کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے عمل پیرا ہے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاک چین سٹریٹجک شراکت داری مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے، تجارت و بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے.