اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کو ویزا نہیں دیں گے: امریکی محکمہ خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل مخالف نعرے لگانے والوں کو امریکا کا ویزا جاری نہیں کیا جائے گا۔
یہ بیان برطانیہ میں ہونے والے سالانہ گلاسٹنبری میوزک فیسٹیول کے بعد سامنے آیا، جہاں کئی فنکاروں نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کی۔
کنسرٹ کے دوران آئرلینڈ کے ریپ گروپ “نی کیپ” (Kneecap) نے “فری فلسطین” اور “مرگ بر اسرائیلی فوج” جیسے نعرے لگائے، جس پر امریکی حکام نے سخت ردِعمل دیا ہے
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ غزہ کی موجودہ صورت حال کی ذمے دار حماس ہے، اس نے مرنے والے 2 امریکیوں کی باقیات بھی اب تک روکی ہوئی ہیں۔
ٹیمی بروس نے مزید کہا کہ جو غیر ملکی تشدد کی حمایت کرتے ہیں انہیں امریکی ویزا نہیں دیں گے اور اسرائیل مخالف نعرے لگانے والوں کو بھی امریکی ویزا نہیں دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
چین کا خصوصی ویزا پروگرام: سائنس و ٹیکنالوجی کے ماہرین کیلیے نئے مواقع
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیجنگ: چین نے دنیا بھر کے نوجوان سائنسدانوں اور ٹیکنالوجی ماہرین کے لیے ایک انقلابی فیصلہ کرتے ہوئے K ویزا کے نام سے خصوصی پروگرام متعارف کرادیا ہے، جو یکم اکتوبر 2025 سے باقاعدہ نافذ ہوچکا ہے۔
اس پروگرام کا مقصد سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس (STEM) کے شعبوں میں مہارت رکھنے والے باصلاحیت افراد کو اپنی جانب راغب کرنا اور چین میں تحقیق، تعلیم اور اختراعی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔
یہ ویزا ان غیر ملکی ماہرین کے لیے رکھا گیا ہے جو کسی معتبر یونیورسٹی یا تحقیقی ادارے سے کم از کم بیچلر ڈگری رکھتے ہوں۔ درخواست دہندگان کی عمر کی حد عموماً 45 سال مقرر کی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان سائنسدان اور محققین اس موقع سے استفادہ کرسکیں۔
اس ویزے کے ذریعے چین میں داخلہ، قیام، تحقیق، تعلیمی تبادلے، کاروباری سرگرمیاں اور اختراعی منصوبوں پر کام کرنے کے مواقع میسر آئیں گے۔
اس پروگرام کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لیے کسی چینی کمپنی یا ادارے کی طرف سے دعوت نامے یا ملازمت کی پیشگی ضمانت کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس سہولت سے ان افراد کو براہ راست فائدہ ہوگا جو اپنی تحقیق یا تعلیمی بنیاد پر چین آنا چاہتے ہیں لیکن پہلے اسپانسر تلاش کرنا ان کے لیے مشکل تھا۔ مزید یہ کہ Kویزا پروگرام میں قیام کی مدت اور ویزہ کی مدت کے حوالے سے بھی غیر معمولی لچک رکھی گئی ہے، جو دیگر روایتی ویزا پالیسیوں سے اسے منفرد بناتا ہے۔
فی الحال اس ویزے کے حوالے سے کچھ اہم تفصیلات واضح ہونا باقی ہیں۔ مثلاً کن یونیورسٹیوں کو معتبر قرار دیا جائے گا، کس قسم کے تحقیقی یا عملی تجربے کو قابلِ قبول سمجھا جائے گا اور درخواست دہندگان کو کن دستاویزات کی ضرورت ہوگی۔
اسی طرح یہ سوال بھی ابھی سامنے آیا ہے کہ آیا اس ویزا پروگرام کے تحت چین میں مستقل رہائش یا شہریت کا راستہ فراہم کیا جائے گا یا نہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ ویزا مخصوص مدت کے لیے عارضی بنیادوں پر ہوگا تاکہ ماہرین اپنی مہارت کے ذریعے چین کے تعلیمی اور تحقیقی ڈھانچے کو تقویت دے سکیں۔
عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ قدم چین کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے دنیا کے بہترین دماغوں کو اپنی سرزمین پر متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف چین کی جامعات اور تحقیقی ادارے مستفید ہوں گے بلکہ عالمی سطح پر بھی سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون کے نئے راستے کھلیں گے۔