دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے والے ایمازون کے بانی جیف بیزوس اور ”ایمی ایوارڈ“ یافتہ صحافی لورین سانچز کی حالیہ شادی نے جہاں عالمی میڈیا، فیشن انڈسٹری اور شوبز حلقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی، وہیں اطالوی شہر وینس میں مقامی سطح پر یہ تقریب احتجاج، تنقید اور سماجی مباحثے کا باعث بن گئی۔

شادی کی یہ تقریب، جس پر مبینہ طور پر 50 ملین ڈالر خرچ کیے گئے، نہ صرف اپنے شاہانہ فیشن کی وجہ سے خبروں کی زینت بنی بلکہ وینس کے مقامی باشندوں کے احتجاج کی وجہ سے بھی عالمی توجہ حاصل کر گئی، جنہوں نے اسے شہر کے استحصال سے تعبیر کیا۔

شادی کی تقریب بلاشبہ ایک ”خوابناک شاہکار“ تھی، مگر اس کا تنازعہ خیز پہلو کہیں زیادہ گہرا اور توجہ طلب ہے۔

لورین سانچز، جو 1969 میں امریکی شہر البوکرکی میں پیدا ہوئیں، ایک سابق براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں جنہوں نے بطور انٹرٹینمنٹ رپورٹر اور نیوز اینکر شہرت حاصل کی۔

انہوں نے 2018 میں جیف بیزوس کے ساتھ ڈیٹنگ شروع کی، اور جولائی 2019 میں بیزوس کی اپنی پہلی بیوی میکنزی سکاٹ سے طلاق کے بعد اپنے تعلق کا باضابطہ اعلان کیا۔

2023 میں یورپ کے ایک سپر یاٹ سفر کے دوران بیزوس نے سانچز کو پروپوز کیا، جس کے اگلے دن وہ ایک ڈھائی ملین ڈالر مالیت کی ہیرے کی انگوٹھی پہنے نظر آئیں۔

سانچز اس سے قبل ہالی ووڈ ایجنٹ پیٹرک وائٹسل کی اہلیہ تھیں، جن سے ان کے دو بچے ایلا اور ایون ہیں، جبکہ ان کا ایک بیٹا نِکّو، سابق این ایف ایل کھلاڑی ٹونی گونزالیز سے ہے۔

بعدازاں، جیف بیزوس سے ان کی شادی 27 جون 2025 کو وینس کے تاریخی جزیرے سان جیورجیو میگیور پر ہوئی، جو اپنے قدیم کلیسا، قدرتی خوبصورتی اور سیاحتی کشش کے لیے مشہور ہے۔

تقریب ایک نجی چرچ میں منعقد کی گئی، جسے اس موقع کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔

تقریب میں تقریباً 200 مہمان شریک ہوئے۔ تقریب میں شریک معروف ہستیوں میں اوپرا ونفرے، لیونارڈو ڈی کیپریو، کرس جینر، ٹام بریڈی، کم اور کلوئی کرداشین اور اورلینڈو بلوم شامل تھے۔

تقریب کی سیکیورٹی انتہائی سخت تھی اور عام شہریوں کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔

اپنی شادی کے موقع پر، لورین سانچیز نے صرف ایک یا دو نہیں بلکہ وینس میں ہونے والی کئی روزہ تقریبات کے دوران کئی مختلف ڈیزائنر لباس پہن کر سب کو حیران کر دیا۔

ان تمام میں سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والا لباس اُن کی شادی کا لباس تھا۔ اصل تقریب کے لیے سانچیز نے ڈوئچے اینڈ گبانا کا ایک کارسیٹ والا لیس (جالی دار) گاؤن پہنا، جو اُن کی فیشن سے متاثر شخصیت صوفیہ لورین کے انداز سے متاثر تھا ۔ خاص طور پر 1958 کی فلم ہاؤس بوٹ میں لورین کے دلہن والے لباس کی ایک مختلف شکل کو دوبارہ تخلیق کیا گیا تھا۔

لباس کی خاص بات کیا تھی اس بارے میں سانچز نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’یہ لباس صرف خوبصورتی نہیں بلکہ میرے سفر کی نمائندگی کرتا ہے۔ میں اب وہ عورت نہیں ہوں جو پانچ سال پہلے تھی۔‘

دلہن نے انکشاف کیا کہ جیف بیزوس بے تاب تھے یہ لباس دیکھنے کے لیے مگر انہوں نے شادی کے لمحے کو خاص رکھنے کے لیے اسے آخری وقت تک راز میں رکھا۔

اگرچہ بہت سے لوگوں نے اس لباس کو شاندار قرار دیا، لیکن نشریاتی اور صحافتی دنیا کی ایک بڑی شخصیت نے اس پر کچھ مختلف رائے دی۔

معروف امریکی صحافی کیٹی کورک نے انسٹاگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے لورین سانچیز کے عروسی لباس کو ”اسی کی دہائی کی واپسی“ قرار دیا اور لکھا، ’جب بڑے بال اور نمود و نمائش کا دور تھا۔ بظاہر، بھڑک پن واپس آ گیا ہے۔‘

جان ایف کینیڈی کے نواسے، جیک شلاسبرگ، جنہوں نے یہ تصویر شیئر کی تھی، انہوں نے بھی کورک کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے مزاحیہ انداز میں کہا، ’آئیے اسکرنچیز واپس لائیں۔‘ اگرچہ شلاسبرگ نے اپنی پوسٹ بعد میں حذف کر دی، مگر کیٹی کورک کی یہ تنقید سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور کئی خبررساں اداروں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

لورین سانچیز، جو اپنے انداز اور فیشن کے باعث پہلے بھی تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہیں، نے بتایا کہ اُنہوں نے پچاس کی دہائی کی دلہنوں سے متاثر ہو کر یہ لباس منتخب کیا، خاص طور پر صوفیہ لورین کے 1958 کی فلم ہاؤس بوٹ میں پہنے گئے لباس سے۔ سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے بھی ان کے لباس کو ”سطحی“، ”تجارتی“ اور ”سستے انداز جیسا“ قرار دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کیٹی کورک نے ماضی میں جیف بیزوس کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا تھا، لیکن اب ان کی اہلیہ پر کی گئی یہ کھلی تنقید کئی لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنی ہے۔

شادی کے اگلے دن بیزوس اور سانچز نے مہمانوں کے لیے ایک ”پاجاما تھیم پارٹی“ رکھی، جو رات 4 بجے تک جاری رہی۔

تقریب میں شریک سب مہمان سلک پاجاموں، روبز، اور چپلوں میں ملبوس تھے جبکہ موسیقی کا انتظام ڈی جے کیسیڈی اور مشہور گلوکار اشر نے سنبھالا۔

ذرائع کے مطابق، ’بینچوں، صوفوں اور دیواروں پر بھی مہمان جھومتے دکھائی دیے۔ یہ ایک مکمل دیوانگی کا جشن تھا۔‘

لیکن جہاں ایک طرف شادی کو رنگین اور یادگار بنانے کا جشن جاری تھا دوسری جانب شادی کے ساتھ ہی وینس میں سخت احتجاج بھی دیکھنے میں آیا۔

شہر کے معروف مقام سینٹ مارک اسکوائر میں مقامی گروپ نے ”No Space for Bezos“ بینرز آویزاں کیے جن پر درج تھا: ”وینس امیروں کے اس تماشے کے لیے نہیں ہے۔“

شادی کے باعث عوامی راستے بند کیے گئے اور شہر کا مرکزی حصہ مکمل طور پر سیل کر دیا گیا۔ رہائشیوں کو آمد و رفت، کاروبار، اور روزمرہ سرگرمیوں میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔

مظاہرین نے کہا، وینس پہلے ہی سیاحتی دباؤ، ماحولیاتی خطرات، اور رہائشی قلت جیسے بحرانوں سے نبرد آزما ہے۔ ایسے میں ارب پتیوں کی نمائش مزید زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

بیزوس اور سانچز نے شادی کے موقع پر مقامی فلاحی اداروں کو عطیات دیے۔ مہمانوں سے بھی کہا گیا کہ وہ تحائف کی جگہ مقامی سماجی منصوبوں میں خیرات کریں۔

مگراتنا ہی کچھ کردینا کافی نہ تھا۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے، ’خیرات اچھی بات ہے، مگر صرف پیسہ دینا کافی نہیں، جب تک ارب پتی افراد اپنے سسٹم کے اندر اثرات کا جائزہ نہیں لیتے، تب تک یہ ”ڈیمیج کنٹرول“ سے زیادہ کچھ نہیں۔‘

اداکارہ چارلیز تھیرون نے اپنی این جی او کی تقریب کے دوران شادی پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’دنیا جل رہی ہے اور وہ وہاں رقص کر رہے ہیں۔ ہمیں تو دعوت نہیں ملی، لیکن ہم پھر بھی ’کول“ ہیں، وہ نہیں!‘

انہوں نے بیزوس کی شادی کو دنیا کی موجودہ انسانی بحرانوں، مہاجرین کی حالت، ٹرانس کمیونٹی کے حقوق، اور ماحولیاتی تباہی کے تناظر میں غیر حساس، غیر ذمہ دارانہ اور خود غرضانہ قرار دیا۔

جیف بیزوس اور لورین سانچز کی شادی نے بلاشبہ دنیا بھر کی خبروں پر قبضہ جمائے رکھا، مگر اس کے ساتھ ہی یہ سوالات بھی کھڑے کیے۔

کیا دولت کی نمائش، عوامی وسائل پر قابض ہونے کا جواز بن سکتی ہے؟

کیا فیشن اور تقریبات کو سماجی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھا جا سکتا ہے؟

کیا وینس جیسے تاریخی شہر صرف سیاحوں، سیلیبریٹیز اور ارب پتیوں کے لیے ہیں یا وہاں کے عام شہریوں کے لیے بھی کوئی جگہ باقی ہے؟

یہ شادی دولت، طاقت، میڈیا، فیشن اور سماجی عدم مساوات کے تمام پہلوؤں کا عکس بن کر ابھری ہے۔ جہاں ایک طرف یہ محبت، فیملی اور خوبصورتی کا جشن تھا، وہیں دوسری طرف یہ سماجی طبقات کے درمیان موجود گہرے خلا کو بھی بے نقاب کر گئی۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: بیزوس اور جیف بیزوس انہوں نے قرار دیا کی شادی شادی کے کے لیے

پڑھیں:

یہ اسرائیلوے اورٹرمپوے

بخدا ہمیں ہرگز پتہ نہیں تھا کہ یہ ’’اسرائیلوا، ٹرمپوا اورنیتنوا ‘‘ اردو بھی جانتے ہیں ، پڑھتے، لکھتے اور بولتے ہیں ، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہ تو زیادہ پڑھے لکھے ہیں، نہ دانادانشور ۔ ہم تو پرائمری پاس عامی امی آدمی ہے اورہماری سمجھ دانی بھی کوئی خاص نہیں اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ سارے ’’وا‘‘ یعنی اسرائیلوا، ٹرمپوا اورنیتن وا اردو نہیں جانتے ورنہ ہم بھی اپنے کالم توپ میں ڈال کر ان پر داغتے رہتے ، وہ تو خدا بھلا کرے ہمارے ایک قاری کا، جس نے ہمیں پہلے اس بات پر خوب لتاڑا کہ جب اتنے سارے لیڈر اپنے بیانات کے ذریعے اوردانادانشور اپنے کالموں کے ذریعے اسرائیلوا ، ٹرمپوا اورنیتن وا کو لتاڑ رہے ہیں تو تم کیوں ایسا نہیں کرتے اورادھرادھر کی فضولیات ہانک رہے ہو، تم کہیں ان اسرائیلوا، ٹرمپوا اورنیتن وا کے طرف دار تو نہیں ہو ۔ عرض کیا کہ ہم

خاص بھی نہیں منکر غالب بھی نہیں ہیں

 ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں ہیں

تذبذب کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہ عبرانی نہ انگریزی بلکہ اردومیڈیم اورعوام کالانعام ہیں، تو کہیں بھی تو کس زبان سے کہیں

 ہم لبوں سے کہہ نہ جائے اپنا حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں کہ خامشی کیا چیز ہے

لیکن اس نے ہماری بے خبری پر اورزیادہ لتاڑتے ہوئے کہا کہ ارے نادان، یہ اسرائیلوا ، ٹرمپوا اور نیتن وا سب اردو جانتے ہیں، نہ جانتے ہوتے تو اردو کے بیان باز ، دانا دانشور اورکالم نویس انھیں اردو میں کیوں لتاڑتے رہتے ۔ آدمی اور وہ بھی دانا دانشور جب بھی کسی سے باتیں کرتے ہیں تو ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگلا اس کی زبان جانتا ہے ورنہ یونہی بے فضول میں اتنی لمبی کیوں کھینچھتے یا چھوڑتے ۔ ہم نے اس معترض کا بڑا بڑا شکریہ ادا کیاکہ اسرائیلوا، ٹرمپوا اورنیتن وا اردو جانتے ہیں بلکہ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اردو اورپاکستانی اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں کیوں کہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان جدید دنیا کا یونان ہے یہاں ایک سے بڑھ کر ساکرے ٹیز ، یاکرے ٹیز ،ڈیماکراٹیز موجود ہیں جو اخبارات میں دانش کے دریا بہاتے ہیں ۔

خیر اب ہم بھی سمجھ گئے کہ یہ اسرائیلوا، ٹرمپوا اور نیتن وا سمجھتے اورپڑھتے ہیں اورسب سے پہلے پاکستانی اخبارات میں لیڈروں کے بیانات جلسہ جات اور ملبوسات کا حال پڑھتے ہیں اور دانا دانشوروں کے لمبے کالمات کا مطالعہ بھی کرتے ہیں، ان کو اتنا لتاڑیں گے کہ ان کو چھٹی کا کیا ساتویں اور آٹھویں کا دودھ بھی یاد دلادیں گے ، ان بدمعاشوں نے سمجھ کیا رکھا ہے کہ فلسطینی بھائی اکیلے ہیں اور ان کا کوئی نہیں ہے، ہم ہیں نا ان کے ساتھ مکمل یک جہتی کرنے کے لیے اور ہمارے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ہم اگر کسی کے ساتھ یک جہتی کرنے لگتے تو پھر کرنے لگتے ہیں اورکرتے رہتے ہیں ، ہماری یک جہتی ساری دنیا دیکھ رہی ہے جو ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کررہے ہیں ، کتنے سال گزرگئے لیکن مجال ہے جوکبھی ہماری یک جہتی میں ذرا بھی فرق آیا ہو، زمین جنبد نہ جنبد گل محمد جنبد

 تمہی کو دیکھوں گا جب تک ہیں برقرار آنکھیں

 میری نظر نہ پھرے گی کسی نظر کی طرح

یہ اسرائیلوے، ٹرمپوے اورنتن وے اگر فلسطینیوں پر ظلم کریں گے تو ہم بھی چپ نہیں رہیں گے ۔دوبھائی تھے ، ان میں سے ایک کی کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی، ان لوگوں نے بیچارے کو خوب دھنک کرکے رکھ دیا ۔باپ کو پتہ چلا تو اس نے دوسرے بھائی سے کہا کہ کم بخت جب وہ تمہارے بھائی کو پیٹ رہے تھے تو تم نے بھائی کی مدد کیوں نہیں کی۔ بیٹے نے کہا کہ آپ سے کسی نے غلط کہا ہے جب وہ بھائی کو مار رہے تھے تو میں بھی خاموش کھڑا نہیں تھا ،برابر چیخ چلارہا تھا اوران لوگوں کو برابھلا کہہ رہا تھا کہ تم یہ ٹھیک نہیں کررہے ہو ۔تو آج سے ہم بھی شروع کرتے ہیں، اے اسرائیلوے، اے ٹرمپوے، اے نتین وے ، یہ تم لوگ اچھا نہیں کررہے ہو جو معصوم فلسطیینوں کو ماررہے ہو ، ظالموں ،کافرو، بے انصافو، بے رحمو خدا سے ڈرو۔آخر تم ان بیچاروں کو روزانہ کیوں مار رہے ہو ۔

وغیرہ کہتے رہتے ہیں ۔لیکن صرف ایک آدمی اتنا بڑا انقلاب لائے یہ ممکن نہیں لگتا ، کریم خان نے کہا اور وہ بھی صرف باتیں کرکے۔ اچھی اچھی باتیں اچھی تقریریں اورپندو نصائح تو سارے معاشرہ کررہا ہے ، ہرمسجد کے لاوڈ اسپیکر، ریڈیو ، ٹی وی چینل اوراخبارات ورسائل سب دین ہی دین بول رہے ہیں ، مدرسے تبلیغی جماعتیں سب کے سب دین پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے ہمارامعاشرہ بہرا ہوچکاہے۔لیکن سر … اس نے کہا وہ صرف باتیں نہیں کرتا ہے بلکہ اس نے اسکول بنایا ہے وہ صرف پڑھے لکھے افراد پیدا نہیں کرتا بلکہ ہنر بھی سکھاتا ہے اوراس سے جو طالب علم نکلتا ہے وہ دنیاوی و دینی علم کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی ہوتا ہے ۔

 اس کے دارالعلوم والفنون کے ہنرمندوں کی نہ صرف سارے ملک میں مانگ ہے بلکہ غیر ممالک بھی ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں ۔ہے ٹرمپوا، تم تو باز آجاؤ آخر ان بیچارے فلسطینیوں نے جو بائیڈن اورکملاہیرس کو ووٹ تو نہیں دیا ہے جو تم نے اسرائیل کو ان پر یوں آزاد چھوڑ رکھا ہے ،ذرا اپنی شکل کو دیکھو ایسے ہی غلط کاموں کی وجہ سے تمہارا چہرہ ابلے ہوئے شلغم کی طرح ہوگیا ہے ، سرخ گاجر کے بچے ، روک لو اپنے اس پالتو کو ورنہ … اور اے نتین وا تم کہیں چنگیز اورہلاکو کی ناجائز اولاد تو نہیں ہو، حد ہوتی ہے ،ظلم کی کیوں کر اتنا ظلم کررہے ہو ، ساری دنیا تم پر تھو تھو کررہی ہے اورتم ڈھیٹ بن کر باز نہیں آرہے ہو ۔

ظالم، قاتل، خونی، آخ تھو…

متعلقہ مضامین

  • ٹیکنالوجی کے دو بے تاج بادشاہ آمنے سامنے؛ ایلون مسک اور جیف بیزوس کی نوک جھونک
  • فضائی کرایوں میں ہوشربا اضافہ، بلوچستان اسمبلی کا شدید احتجاج، متفقہ قرارداد منظور
  • کراچی: ہنی مون پر سیالکوٹ سےکراچی آئی 17 سالہ دلہن کی پھندا لگی لاش کا معمہ حل نہ کیا جاسکا
  • رجب بٹ اور سامعہ حجاب کی نامناسب گفتگو وائرل، سوشل میڈیا پر شدید تنقید
  • واویلا کیوں؟
  • میرج سرٹیفکیٹ کا حصول اب آسان، نادرا نے نیا طریقہ بتاد یا
  • یہ اسرائیلوے اورٹرمپوے
  • میکسیکو میں بدعنوانی کیخلاف ‘جین زی’ کا احتجاج، پولیس کیساتھ شدید جھڑپیں
  • ڈھاکا: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن عالمی ختم نبوت ﷺکانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں
  • ٹنڈومحمدخان، قلت آب کیخلاف مکینوں کا شدید احتجاج