سانحہ سوات کے بعد خیبرپختونخوا حکومت کا ریسکیو کیلیے ڈرون استعمال کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
سانحہ سوات کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے دریا میں پھنسے افراد کو حفاظتی سامان بروقت پہنچانے کیلیے ڈرون کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق دریائے سوات میں 13 قیمتی انسانی جانیں جانے کے بعد حکومت کو دریا میں پھنسے افراد کو جیکٹس، رسیاں اور دیگر ضروری سامان پہنچانے کا خیال آہی گیا۔
خیبرپختونخوا حکومت نے ریسکیو سامان کی ترسیل کے لیے ڈرون سے خدمات لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کو ڈرون کے ذریعے ریسکیو سامان پہنچانے کی مشقیں بھی دکھائی گئیں۔
دریا میں پھنسے افراد کی مدد کے لیے ڈرون کے ذریعے حفاظتی جیکٹس، رسیاں اور دیگر چیزوں کی تسیل کی جائے گی۔
واضح رہے کہ پانچ روز قبل دریائے سوات میں سیاحوں سمیت 18 افراد سیلابی پانی میں پھنس گئے تھے، لیکن ریسکیو سامان نہ ہونے کے باعث وہ پانی میں بہہ گئے تھے۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایات پر سیلاب و ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جدید ڈرون ٹیکنالوجی کی مشقوں کا کامیاب انعقاد کیا گیا، امدادی سرگرمیوں میں تیزی کے لیے ڈرونز کے ذریعے لائف جیکٹس، رسیاں اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل کی مشقیں کی گئیں۔
اس کے علاوہ ریسکیو اداروں کی صلاحیتوں میں اضافہ اور مدد کے لیے جدید آلات فراہم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق ریسکیو1122 کو اس سے قبل 2 ہزار لائف جیکٹس، ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری آلات و اشیا فراہم کی جائیں گی۔
ڈرون ٹیکنالوجی سمیت آلات کی فراہمی سے ریسکیو آپریشنز میں بہتری متوقع ہے، وزیراعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر ہنگامی حالات میں فوری رسپانس یقینی بنانے کے لیے جدید ریسکیو سامان خریدا گیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریسکیو سامان کا فیصلہ لیے ڈرون کے لیے
پڑھیں:
کویت میں زہریلی شراب کا سانحہ: 13 تارکین وطن جان کی بازی ہار گئے
کویت میں ملاوٹ شدہ زہریلی شراب پینے کا واقعہ انسانی المیہ بن گیا۔ کویتی وزارتِ صحت نے تصدیق کی ہے کہ اس افسوسناک واقعے میں اب تک 13 تارکینِ وطن اپنی جان گنوا چکے ہیں، جبکہ 31 افراد کو وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا ہے۔ مزید 21 افرادکچھ مکمل طور پر، کچھ جزوی طور پر اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں —
وزارت کے مطابق شراب میں “میتھانول” نامی مہلک کیمیکل کی موجودگی پائی گئی، جو جسم میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے آنکھوں پر حملہ کرتا ہے، پھر دماغ، جگر اور اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ اکثر صورتوں میں یہ زہر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
زہریلی شراب سے متاثرہ افراد میں اکثریت اُن محنت کش تارکینِ وطن کی ہے، جو جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ افراد کویت میں تعمیراتی کام، گھریلو ملازمتوں اور مختلف سروسز میں رزقِ حلال کما رہے تھے۔ بدقسمتی سے، سستی اور غیر قانونی شراب ان کی زندگی کی قیمت بن گئی۔
کویت میں 1964 سے شراب کی درآمد پر مکمل پابندی ہے، اور 1980 کی دہائی میں شراب نوشی کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا گیا۔ تاہم، ان پابندیوں کے باوجود خفیہ طور پر غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ شراب کی تیاری و فروخت ایک دیرینہ مسئلہ رہی ہے — جس کا سب سے زیادہ نقصان وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو پہلے ہی کمزور اور بے سہارا ہیں۔
صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ میتھانول جیسے کیمیکل کا استعمال نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ انسانی جان کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر سوال اٹھایا ہے کہ قانون کی موجودگی کے باوجود غریب اور محنت کش افراد کو کیوں اس قسم کے خطرناک دھندوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
یہ سانحہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔