چین پاکستان کے جائز مفادات اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہمیشہ آگے آئے گا،پروفیسر وکٹر گائو
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
اسلام آباد ( اے بی این نیوز )ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکو سولائزیشن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے زیر اہتمام ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر وکٹر GAO نے کہا کہ چین اور امریکہ کو چین،امریکہ تعلقات کی بنیاد رکھنے پر ہمیشہ پاکستان کا شکرگزار رہنا چاہیے، جو کہ جدید تاریخ کے سب سے بڑے کھیل کو تبدیل کرنے والے واقعات میں سے ایک ہے۔
وہ ثالث کے طور پر پاکستان کے کردار کو ثالثی کی روشن مثال سمجھتے ہیں۔ پاکستان نے مکمل طور پر مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے ممالک کو اکٹھا کرکے انسانیت کی بہترین خدمت کی ہے جس سے ترقی اور امن کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ چین امریکہ تعلقات نے عالمی سطح پر اہم تبدیلیاں لائی ہیں اور دنیا کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے عالمگیریت کو تیزی سے ٹریک کیا اور ممالک کو قریب لایا۔
چین پاکستان تعلقات پر ان کا موقف تھا کہ چین کے لیے پاکستان سے زیادہ کوئی دوسرا ملک اہم نہیں ہے۔ چین کے بین الاقوامی تعلقات میں پاکستان کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ چین پاکستان کوبھائی سمجھتا ہے۔ حالات کچھ بھی ہوں، چین پاکستان کے جائز مفادات اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہمیشہ آگے آئے گا۔ چین نے اپنی تاریخ میں مسلسل اس کا مظاہرہ کیا ہے، بشمول 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ کو ایک اور مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ چین پاکستان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔
پروفیسر وکٹر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کے دشمن ملک کو غیر مستحکم کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ علیحدگی پسند اور دہشت گردانہ تحریکیں ناکام ہونے والی ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر بلوچستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آزاد بلوچستان کا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا۔ بلوچستان کبھی بھی الگ یا آزاد نہیں ہوگا، چاہے پاکستان کے دشمن، علیحدگی پسند، یا دہشت گرد جو بھی منصوبہ بندی کریں یا کریں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی آزادی کے بعد سے ہی ایک ممتاز اور اہم جیو پولیٹیکل کھلاڑی رہا ہے، جس نے جدید تاریخ کے بہت سے اہم واقعات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔AIERD کے چیئرمین زاہد لطیف خان نے کہا کہ پاکستان پروفیسر وکٹر کے جذبات کا جواب دیتا ہے، انہوں نے پاک چین تعلقات پر لیکچر دینے پر پروفیسر وکٹر کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور چین کو اپنے اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہیے، خاص طور پر مالیاتی انضمام اور اپنے اسٹاک ایکسچینج کے مشترکہ کام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان میں کام کرنے والی چینی کمپنیاں پاکستان کے اسلامی مالیاتی نظام جیسے سکوک بانڈز سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
گفتگو کے دوران پروفیسر وکٹر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کو ہندوستان پر پانچ جہتی جنگ میں برتری حاصل ہے، ثنا مرزا کے ایک سوال کے جواب میں۔پاکستان کے ممتاز صحافی اس طرح وہ پر امید تھے کہ ہندوستان دوبارہ مہم جوئی نہیں کرے گا۔ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین اور پاکستان کو ٹیکنالوجی کے شعبے بالخصوص مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے میں تعاون بڑھانا چاہیے۔ چین اوپن اے آئی تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس لیے پاکستان کو چین سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔ مزید برآں، چین اور پاکستان کو ٹیکنالوجی اور AI کے شعبوں میں ایک مضبوط بنیاد اور امید افزا مستقبل قائم کرنے کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔
AIERD کے سی ای او اور ماڈریٹر شکیل احمد رامے نے پروفیسر وکٹر اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ویبنار کا اختتام یہ کہہ کر کیا کہ چین پاکستان تعلقات منفرد ہیں اور روایتی نظریات اس کی وضاحت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ چین اور پاکستان مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی بنانے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے جس سے دنیا کو خوشحالی اور پائیدار امن کے اہداف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
مزید پڑھیں :حکومت کو ’ٹف ‘ ٹائم دینے کیلئے بانی پی ٹی آئی کا پلان سامنے آگیا
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: چین پاکستان نے اس بات پر پاکستان کو پاکستان کے کہ پاکستان انہوں نے چین اور ادا کیا کے لیے کہ چین کہا کہ
پڑھیں:
صحافی کی جیکٹ اب تحفظ نہیں، ہدف ہے
اسلام ٹائمز: میدان جنگ میں ایک صحافی کو عام شہری سمجھا جاتا ہے اور اسے مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے نقطہ نظر سے، امریکہ کے حمایت یافتہ بدلتے ہوئے سیاسی نقشوں کے ساتھ، اس اصول کو الٹا کر دیا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے 238 صحافیوں نے یہ ثابت کیا کہ "صحافی کی مخصوص جیکٹ اب تحفظ نہیں ہے، بلکہ ایک ہدف ہے۔" دشمن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ سچی داستان آگ اور خون کر دریا سے گزر کر دنیا کے کانوں تک پہنچے، اس لیے وہ راویوں کو خاموش کر دیتا ہے۔ تحریر: اردشیر زابلی زادہ
آج غزہ میں ایک بے رحم جنگ جاری ہے۔ ایک ایسی جنگ جس نے جغرافیائی حدود کو توڑا اور صحافت کے پیشے کے قلب کو نشانہ بنایا۔ 7 اکتوبر 2023ء سے لیکر اب تک سرکاری رپورٹس کے مطابق، غزہ میں 211 سے زیادہ صحافی شہید ہو چکے ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے یہ تعداد 186 بتائی ہے اور مقامی ذرائع سے شائع ہونے والے تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 238 تک پہنچ گئی ہے۔ دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ اصل جنگ بیانیہ کی جنگ ہے اور اس بیانیے کو خاموش کرنے کے لیے صیہونی حکومت صحافیوں کے خیموں پر بمباری کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
یہ شہداء غزہ کی تھکی ہوئی آواز ہیں، سچ بولنے والوں کی قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اس بات کی زندہ گواہی ہیں کہ اصل جنگ بیانیے کی جنگ ہے۔ یہ بات دشمن بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ بیانیے پر قابو پانا چاہیئے، بیانیے کو خاموش کرنا چاہیئے۔ اس لیے بین الاقوامی قوانین اور صحافیوں پر حملے کی ممانعت کے باوجود الجزیرہ نیٹ ورک کے صحافیوں کو بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، کیونکہ صحافی کا بیانیہ اسکا سب سے زیادہ جارحانہ ہتھیار ہوتا ہے۔
تازہ ترین جرم میں، اسرائیلی فوج نے الشفاء ہسپتال کے ارد گرد صحافیوں کے خیموں پر براہ راست اور ٹارگٹیٹڈ حملوں میں الجزیرہ کے دو صحافیوں سمیت دیگر پانچ صحافیوں کو شہید کر دیا۔ ان میں انس الشریف، "غزہ کا راوی" بھی تھا، جس کے گھر کو پہلے نشانہ بنایا گیا تھا اور جس کے والد اس حملے میں شہید ہوئے تھے۔ انس الشریف نے اپنی شہادت سے پہلے درج ذیل وصیت کی "خدایا گواہ رہنا ان لوگوں پر جو خاموش رہے، جنہوں نے ہمارے قتل پر رضامندی ظاہر کی، اور جن کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کی بکھری لاشوں سے نہیں دہلے۔"
یہ جملہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ خطے میں عرب میڈیا کی خاموشی اور بے حسی کے خلاف ایک مستند دستاویز۔ شہید صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے، ایک آزاد فوٹوگرافر اور فلمساز اسماعیل ابو حاطب سے لے کر الاقصیٰ ریڈیو کی دعا شرف تک جو اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ شہید ہوئی تھی۔ ان میں سے ہر ایک نام ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ وہ راوی تھے جو آخری دم تک اپنی داستان پر یقین رکھتے تھے اور اس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس خونریزی کے سامنے میڈیا کے ادارے بھی خاموش ہیں۔ یہ خاموشی غیر جانبداری نہیں ہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ احتیاط، بلکہ ظلم کے ساتھ خاموش تعاون ہے۔ وہی خاموشی جس کے بارے میں انس الشریف نے کہا تھا۔ ایک خاموشی جو قتل کی رضامندی دیتی ہے۔
آج جنگ صرف زمین کی نہیں بلکہ سچائی اور بیانیے کی ہے۔ صحافیوں کی مخصوص جیکٹ جو پریس کی مخصوص علامت ہے بین الاقوامی قانون میں جنگوں میں بھی استثنیٰ کی علامت ہے۔ صحافی کا کام واضح اور حقائق پر مبنی پیغام پہنچانا ہوتا ہے جو جنگ میں نہ تو سپاہیوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے اور نہ ہی فریقین یہ کام کرسکتے ہیں۔ یہ پیغام حق کے متلاشیوں کی آنکھوں اور آوازوں سے رائے عامہ تک پہنچتا ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب پریس کی جیکٹ پہنے صحافی کو گولیوں اور حملوں کے درمیان آزادی کے ساتھ رپورٹنگ کی اجازت ہو اور اسکی جیکٹ قانونی ڈھال کے طور پر کام کرسکے۔
یہ جنیوا کنونشنز کے بنیادی اصول کی بھی یاد دلاتا ہے۔ میدان جنگ میں ایک صحافی کو عام شہری سمجھا جاتا ہے اور اسے مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے نقطہ نظر سے، امریکہ کے حمایت یافتہ بدلتے ہوئے سیاسی نقشوں کے ساتھ، اس اصول کو الٹا کر دیا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہونے والے 238 صحافیوں نے یہ ثابت کیا کہ "صحافی کی مخصوص جیکٹ اب تحفظ نہیں ہے، بلکہ ایک ہدف ہے۔" دشمن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ سچی داستان آگ اور خون کر دریا سے گزر کر دنیا کے کانوں تک پہنچے، اس لیے وہ راویوں کو خاموش کر دیتا ہے۔
تاریخ یاد رکھے گی کہ اسرائیل نے الجزیرہ کے مسلمان اور عرب صحافیوں کے بیانیے کو کھلے عام پیشہ ورانہ فرائض کے دوران خاموش کر دیا اور یہ بھی یاد رہے گا کہ انسانیت کے اس امتحان میں کچھ عرب میڈیا نے اپنی خاموشی سے اپنا حصہ ڈالا۔ آج پہلے سے زیادہ یہ جنگ بیانیے کی جنگ ہے۔ غزہ میں شہید ہونے والے صحافی اور انکے ساتھیوں کا بیانیہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو دشمن کے لیے کسی بھی بم یا میزائل سے زیادہ خطرناک ہے۔ حقیقت پسند پیشہ ور مسلمان صحافی اس غیر مساوی جنگ کے آخری صفحہ تک ان شہید صحافیوں کے ساتھ رہیں گے۔