کام کے بدلے ناجائز مطالبات: مہر بانو کا شوبز انڈسٹری میں ہراسانی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
شوبز کی چمک دمک کے پیچھے چھپے ہراسانی کے سائے پر پاکستانی اداکارہ و رقاصہ مہر بانو نے کھل کر بات کی ہے۔
’ٹیکسالی گیٹ‘ کی اسٹار اور بیرون ملک مقیم پاکستانی فنکارہ مہر بانو نے انکشاف کیا ہے کہ فنکاروں کو کام دینے کے عوض بڑی بڑی ڈیمانڈز اور ناجائز مطالبات کیے جاتے ہیں، اور اس انڈسٹری میں اکثر لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی ہراسانی کا سامنا کرتے ہیں۔
مہر بانو، جو اپنی بے باک شخصیت اور جرأت مندانہ بیانیے کے باعث سوشل میڈیا پر ہر لمحہ موجود رہتی ہیں، حال ہی میں نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک ہوئیں۔ تابش ہاشمی کی میزبانی میں ہونے والے اس پروگرام میں انہوں نے انڈسٹری کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جو اکثر پردے میں رہتے ہیں۔
پروگرام کے دوران ایک نوجوان کے سوال پر مہر بانو نے اعتراف کیا کہ جیسے ہر انڈسٹری کے سیاہ پہلو ہوتے ہیں، ویسے ہی شوبز میں بھی فنکاروں کو طاقتور لوگوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور کام دلانے کے عوض ان سے نامناسب مطالبات کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس انڈسٹری میں خوبصورت چہرے اور دلکش شخصیات کی موجودگی کے باعث لوگ آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں اور ہراسانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ ’’اکثر لڑکے یا لڑکیاں دونوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘، جو صنعت میں جنس کی بنیاد پر ہونے والے استحصال کی جانب ایک اہم اشارہ ہے۔ ان کے بقول، یہ مسئلہ صنعت کا ایک ایسا سیاہ پہلو ہے جس پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: ہراسانی کا جاتے ہیں
پڑھیں:
سابق خاتون پروفیسر کے ساتھ مبینہ ہراسانی معاملہ، آئی بی اے کا وضاحتی اعلامیہ
انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں سابق خاتون پروفیسر کے ساتھ مبینہ ہراسانی کے معاملے پر وضاحتی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ صوبائی محتسب اعلیٰ کے حکم کیخلاف سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، سندھ ہائیکورٹ نے نئی نامزد اتھارٹی کو فیصلہ آنے سے پہلے ہی ایکشن سے روکا، آئی بی اے نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مجاز اتھارٹی کے اختیارات کی تشریح نہیں کی۔
ضیاء القیوم نے کہا کہ کسی کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ عدالتی احکامات کی بے توقیری کرے۔
آئی بی اے کا کہنا ہے کہ 2023 میں ایک سابق خاتون پروفیسر نے رجسٹرار کے خلاف ہراسانی کی شکایت درج کروائی، واقعے سے متعلق انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی، انکوائری کمیٹی نے رجسٹرار کو کیس سے بری کیا، چند سفارشات پیش کیں، کمیٹی نے سابق پروفیسر کو ایک معافی کے خط کے ساتھ 3 لاکھ روپے دینے کی سفارش کی، تاہم آئی بی اے کی مجاز اتھارٹی نے کمیٹی کی سفارشات قبول نہیں کیں۔
اعلامیہ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے حتمی فیصلہ آنے تک شکایت کنندہ کو معافی نامہ اور 3 لاکھ کا چیک دینے سے روک دیا، سندھ ہائی کورٹ نے یہ حکم نامہ نئی مجاز اتھارٹی کو دیا ہے، آرڈر میں کہا گیا کہ نئی مجاز کمیٹی بنا کر سفارشات پر عمل کروایا جائے۔
آئی بی اے نے محتسب اعلیٰ سندھ کے آرڈر کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا، سندھ ہائیکورٹ نے آئی بی اے کو عدالتی فیصلہ آنے تک روک دیا ہے۔