گرمی کی بڑھتی شدت خطرناک موسمی مستقبل کا انتباہ، ڈبلیو ایم او
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 01 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے موسمیاتی ماہرین نے بتایا ہے کہ اوائل موسم گرما میں شمالی کرے کے بیشتر حصے میں پڑنے والی شدید گرمی مستقبل میں خطرناک موسمی حالات کا پتا دیتی ہے۔
یورپ بھر اور دیگر علاقوں میں آجکل دن رات دونوں وقت شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ تین روز قبل سپین کے قومی موسمیاتی ادارے نے ملک کے جنوبی علاقے میں واقع قصبے ال گریناڈو میں درجہ حرارت 46 فیصد تک پہنچ جانے کی تصدیق کی تھی۔
Tweet URLسپین کے شہر بارسلونا میں ہفتے کو سڑک کی صفائی کرنے والی ایک کارکن شدید گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی تھی جس کے بعد اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ سامنے آیا جبکہ لوگوں سے اپیل کی گئی کہ وہ جس قدر ممکن ہو سخت گرم موسم میں باہر نہ نکلیں۔
(جاری ہے)
عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی ترجمان کلیئر نولیس نے کہا ہے کہ گرمی سے سبھی کو خطرہ لاحق ہے۔ دوپہر کے وقت پانی ساتھ رکھے بغیر کھلے آسمان تلے نکلنے، دوڑنے یا سائیکل چلانے والوں کی صحت کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں حتیٰ کہ ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔
معدنی ایندھن کا مسئلہترجمان کا کہنا ہے کہ یورپ میں گرمی بڑھنے کا ایک بڑا سبب شمالی افریقہ سے آنے والی گرم ہوا ہے۔
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں شدید موسمی واقعات بڑھتے جا رہے ہیں جن میں بڑھتی حدت بھی شامل ہے۔ بحیرہ روم میں پانی کی سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ بھی اس گرمی کا ایک اہم سبب ہے جو اس موسم میں خشکی پر گرمی کی لہروں جتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ معدنی ایندھن جلانے کے نتیجے میں بڑھتی عالمی حدت کے باعث مزید تواتر اور شدت سے گرم حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
ان سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو موسمی شدت سے مطابقت اختیار کرنا ہو گی اور قدرتی آفات کے بارے میں بروقت اطلاعات کی فراہمی کے نظام کو وسعت دینا ہو گی۔گرم دن اور راتیں'آئی او ایم' کے مطابق، مغربی اور جنوب مغربی یورپ کے بعض حصوں میں جون کے دوران رات اور دن دونوں وقت زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت غیرمعمولی طور پر شدید رہا۔ براعظم میں شدید گرمی کے ادوار کی رفتار اور شدت بڑھ رہی ہے اور 2050 تک یورپ کی نصف آبادی کو موسم گرما کے دوران گرمی سے متاثر ہونے کا شدید یا شدید ترین خطرہ ہو گا۔
کلیئر نولیس نے کہا ہے کہ اب کی بار یورپ میں یکم جولائی کو ہی شدید گرمی محسوس کی جا رہی ہے جبکہ عام حالات میں ایسا موسم کچھ تاخیر سے آتا تھا۔ ان حالات میں ملکی سطح پر موسمیاتی اداروں کی جانب سے انتباہ کا اجرا اور صحت کو گرمی سے تحفظ دینے کی مںصوبہ بندی بہت اہم ہیں۔
'ڈبلیو ایم او' موسمی شدت کے بارے میں بروقت آگاہی کی فراہمی کے ذریعے صحت و زندگی کے تحفط میں مدد دے رہا ہے۔ اس ضمن میں ادارے کا ارتباطی طریقہ کار خاص اہمیت رکھتا ہے جس کے تحت ایسے علاقوں میں موسمیاتی خطرات سے بچاؤ کے لیے مشاورت دی جاتی ہے جہاں ان سے لاحق خطرات دیگر جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
بڑھتی ہوئی معاشی بے یقینی حکومتی ناکامی کا واضح ثبوت ہے، علامہ باقر زیدی
اپنے ایک بیان میں ایم ڈبلیو ایم سندھ کے صدر نے کہا کہ ملک کو آئی ایم ایف کے رحم کرم پر چھوڑنے کے بجائے فوری مستحکم معاشی حکمت عملی بنانی ہوگی، تاکہ مذید اقتصادی بحران سے بچا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صدر علامہ سید باقر عباس زیدی کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی بے یقینی معاشی حکمتِ عملی کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے، سرمایہ کاری کے غیر مستحکم ماحول کے باعث متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کا پاکستان سے اپنے آپریشنز محدود اور مکمل طور پر بند کرنا قابل تشویش ہے، جو حکومتی معاشی پالیسیوں اور اصلاحاتی اقدامات پر سنگین سوالات کھڑے کر رہے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں علامہ باقر زیدی نے کہا کہ ملک میں بے روزگاری کا طوفان ویسے ہی نہیں تھم رہا، تعلیم یافتہ نوجوان اپنا مستقبل یہاں محفوظ نہیں سمجھتے اور لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر مؤثر حکومتی پالیسیوں نے بے روزگاری کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔
علامہ باقر زیدی نے کہا کہ مہنگائی اور ٹیکسوں کے مسلسل اضافے نے عام شہری کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے، جبکہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بند ہونے کے باعث ہزاروں افراد مسلسل بے روزگار ہو رہے ہیں، ایسے حالات میں عالمی کمپنیاں جس رفتار سے پاکستان چھوڑ رہی ہیں وہ صرف حکومتی ناکام معاشی حکمتِ عملی کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی حکمت عملی، عدم تسلسل اور سرمایہ کاری کیلئے غیر سازگار ماحول نے نہ صرف کاروباری سرگرمیوں کو محدود کیا ہے، بلکہ مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بری طرح مجروح ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو آئی ایم ایف کے رحم کرم پر چھوڑنے کے بجائے فوری مستحکم معاشی حکمت عملی بنانی ہوگی، تاکہ مذید اقتصادی بحران سے بچا جا سکے۔