عمان کے بائیکرز کلب کا پاکستان کا سیاحتی دورہ، پاکستانی ثقافت اور مہمان نوازی کی تعریف
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
پاکستان کی خوبصورت، قدرتی مناظر اور ثقافت سے متاثر ہو کر سیاح پاکستان کا رخ کرنے لگے، عمان کے بائیکرز کلب نے پاکستان کا سیاحتی دورہ کرتے ہوئے پاکستانی ثقافت اور مہمان نوازی کی تعریف کی۔
بوشر بائیکرز کلب کی پاکستان آمد اس بات کی عکاسی ہے کہ پاکستان سیاحت کے لیے محفوظ ملک ہے۔ عمانی بائیکرز نے پاکستانی تہذیب و روایات اور قدرتی خوبصورتی کا قریب سے مشاہدہ کیا۔
عمانی بائیکرز کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے بائیکس پر پاکستان سیاحتی دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
ماجد عبداللہ الراوحی کا کہنا تھا کہ پاکستان بہت خوبصورت اور محفوظ ملک ہے، پاکستان کے لوگ بہت دوستانہ اور وہ آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں، غیر ملکی سیاح آسانی سے پاکستان آسکتے ہیں اور ان کے لیے ہر قسم کے سیاحتی مقامات موجود ہیں۔
محمد جمعہ صالح الراوحي نے کہا کہ پاکستان آنا میرے لیے خوشگوار تجربہ ہے، پاکستان کے بارے میں جو منفی تاثر پھیلا گیا یہ ملک اس سے بہت مختلف ہے، میں دل کی گہرائیوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ غیر ملکی سیاح پاکستان کا دورہ ضرور کریں۔
ماجد عبداللہ حاجی الرواہی نے کہا کہ پاکستانی عوام اور حکومت دونوں نے ہماری بے حد مہمان نوازی کی اور انتہائی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔
محمد حسن عیسیٰ المانی نے کہا کہ ہمارا پاکستان کا دورہ بہت شاندار رہا ہے اورہمارا یہ سفر ہر قسم کے موسموں کا حسین امتزاج تھا، بائیکنگ اور سیاحت کے شوقین حضرات کے لیے پاکستان ایک بہترین ملک ہے۔ پاکستان میں کمیپنگ اور مہم جوئی کے بہت زیادہ مقامات موجود ہیں۔
عمانی بائیکر کامل نصیر علی نے پیغام دیا کہ اگر نئے سیاحتی مقامات دریافت کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کا سفر ضرور کریں۔
اوور سیز پاکستانی محمد کاشف نے کہا کہ شمالی پاکستان کا سفر ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔
عاطف علی نامی ایک اوورسیز پاکستانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے خنجراب پاس کا شاندار سفر، شمالی علاقوں کی بے مثال مہمان نوازی نے بہت متاثر کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مہمان نوازی پاکستان کا کہ پاکستان پاکستان ا نے کہا کہ
پڑھیں:
طالبان کے وزیرِ خارجہ کا اگلے ہفتے بھارت کا دورہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) ایک بڑی اور اہم پیش رفت میں جو خطے کی جغرافیائی سیاست کو بدل سکتی ہے، طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی 9 اکتوبر کو بھارت کا دورہ کریں گے۔ یہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کابل سے نئی دہلی کا پہلا اعلیٰ سطحی دورہ ہو گا، جو بھارت اور طالبان کے درمیان تعلقات کے نئے مرحلے کو ظاہر کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تصدیق کی ہے کہ متقی کو بین الاقوامی سفری پابندیوں سے عارضی استثنیٰ دیا گیا ہے، جس کے تحت وہ 9 سے 16 اکتوبر کے درمیان نئی دہلی کا دورہ کر سکیں گے۔ یہ استثنیٰ اس دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جسے طالبان انتظامیہ اور خطے کی دیگر طاقتیں دونوں ہی اہم سمجھتی ہیں۔
(جاری ہے)
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سفارتی حلقے کئی مہینوں سے اس لمحے کی تیاری کر رہے تھے۔
جنوری سے ہی بھارتی حکام بشمول خارجہ سیکرٹری وکرم مِسری اور سینیئر آئی ایف ایس افسر جے پی سنگھ نے امیر خان متقی اور دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ کئی مذاکرات کیے، جو اکثر دبئی جیسے غیر جانبدار مقامات پر ہوئے۔ دبئی میں وکرم مِسری اور افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ملاقات میں افغانستان کے لیے بھارت کی جاری انسانی ہمدردی، خاص طور پر صحت کے شعبے اور پناہ گزینوں کی بحالی پر۔ پر مبنی امداد پر بات ہوئی۔اصل موڑ 15 مئی کو، بھارت کے پاکستان کے خلاف آپریشن سیندور کے فوراً بعد آیا، جب بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے امیر خان متقی سے فون پر بات کی۔ یہ 2021 کے بعد پہلی وزارتی سطح کی بات چیت تھی۔ اس موقع پر جے شنکر نے پہلگام دہشت گرد حملے کی طالبان کی مذمت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور افغان عوام کے ساتھ بھارت کی ''روایتی دوستی‘‘ کو دہرایا۔
بھارت کے طالبان سے بڑھتے تعلقاتاس سے قبل اپریل میں طالبان نے کابل میں بھارتی حکام کے ساتھ اعلیٰ سطحی اجلاس میں پہلگام حملے کی مذمت کی تھی، جہاں بھارت نے اس حملے کی تفصیلات شیئر کیں۔ بھارت کے بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم اشارہ تھا کہ بھارت اور افغانستان دہشت گردی کے معاملے پر ایک ہی صفحے پر ہیں۔
اس کے بعد بھارت نے افغانستان کو براہِ راست انسانی امداد میں اضافہ کیا، جس میں غذائی اجناس، ادویات اور ترقیاتی تعاون شامل ہے۔
ستمبر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد بھارت سب سے پہلے امداد بھیجنے والوں میں شامل تھا، جس نے فوری طور پر ایک ہزار خیمے اور 15 ٹن خوراک متاثرہ صوبوں کو روانہ کی۔ اس کے بعد مزید 21 ٹن امدادی سامان بھیجا گیا جس میں ادویات، صفائی کے کٹس، کمبل اور جنریٹر شامل تھے۔ اسے افغان عوام کی مدد کے لیے بھارت کے عزم کا اظہار قرار دیا گیا۔
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت تقریباً 50 ہزار ٹن گندم، 330 ٹن سے زائد ادویات اور ویکسینز، اور 40 ہزار لیٹر جراثیم کش ادویات فراہم کر چکا ہے۔ یہ مستقل کوششیں لاکھوں افغان عوام کو خوراک کی کمی، صحت کے مسائل اور انسانی بحران سے نمٹنے میں اہم سہارا فراہم کر رہی ہیں۔
پاکستان کے لیے دھچکا؟بھارتی تجزیہ کار اس دورے کو پاکستان کے لیے ایک دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
کیونکہ پاکستان طویل عرصے سے کابل پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس سال کے اوائل میں اسلام آباد کی جانب سے 80 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے نے طالبان کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر دیے تھے، جس سے بھارت کو زیادہ فعال کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔تجزیہ کاروں کے مطابق متقی کی نئی دہلی آمد کابل کی پاکستان پر انحصار کم کرنے اور اپنے تعلقات کو متنوع بنانے کی خواہش کی علامت ہے۔
بھارت کے لیے یہ دورہ ایک نازک لیکن حکمتِ عملی پر مبنی قدم بتایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کے ساتھ براہِ راست تعلقات بھارت کو افغانستان میں اپنے طویل مدتی مفادات کے تحفظ، خطے سے دہشت گردی کے خطرات روکنے، اور چین و پاکستان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے دورے کے دوران ہونے والی دوطرفہ ملاقات کو ایک ایسا موڑ سمجھا جا رہا ہے جو بھارت اور افغانستان کو محتاط تعاون کی نئی راہ پر گامزن کر سکتا ہے، ایک ایسی راہ جو پورے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو دوبارہ ترتیب دے سکتی ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین