اٹلی نے 5 لاکھ ورک ویزوں کا اعلان کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
لاہور (نیوز ڈیسک) اٹلی کی معیشت کو مزید تقویت بخشنے کا فیصلہ ، تین سال میں پانچ لاکھ غیر ملکی ورکرز کو کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔
یورپی ملک اٹلی نے 2026 تا 2028 کے درمیان مجموعی طور پر 4 لاکھ 97 ہزار پانچ سو لیبر ویزے جاری کرنے کا اعلان جاری کردیا۔ یہ فیصلہ ملک میں بڑھتی ہوئی لیبر کی کمی کو پورا کرنے اور قانونی امیگریشن کے دروازے کھولنے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، پہلے مرحلے میں یعنی 2026 کے دوران 1 لاکھ 64 ہزار 8 سو پچاس غیر ملکی ورکرز کو اٹلی میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ان ویزوں کا آغاز خاص طور پر زرعی، صنعتی اور خدمات کے شعبے میں عمل میں لایا جائے گا، جہاں لیبر کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 2023 تا 2025 کے دوران بھی اٹلی نے 4 لاکھ پچاس ہزار ورک پرمٹس جاری کیے تھے، جس کا مقصد غیر قانونی امیگریشن کی حوصلہ شکنی اور قانونی راستوں کو فروغ دینا ہے۔
وزیرِ اعظم جارجیا میلونی کی قیادت میں موجودہ حکومت ایک جانب قانونی مہاجرین کے لیے دروازے کھول رہی ہے، تو دوسری طرف غیر قانونی داخلوں اور سمندری راستوں سے آنے والے پناہ گزینوں پر سخت پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف اٹلی کے لیے ایک معاشی تقویت ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک کے ہنر مند افراد کے لیے ایک سنہری موقع بھی بن سکتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بروقت حکمتِ عملی تیار کرے تو ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔
دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔
یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔
خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔