تہران میں صیہونی رجیم کے لئے کام کرنیوالا نیٹ ورک گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
پولیس حکام کے مطابق یہ نیٹ ورک نہ صرف تصاویر اور ویڈیوز بنا کر مختلف چینلز پر پھیلا رہا تھا بلکہ حساس مقامات کی لوکیشن بھی دشمن کو ارسال کر رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ ایرانی دارالحکومت تہران کے محکمہ پولیس نے بتایا ہے کہ شہر کے جنوب مغرب میں صیہونی رجیم کے لئے سرگرم نیٹ ورک کو تلاش کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ نیٹ ورک تہران کے مختلف علاقوں سے 12 روزہ جنگ کے دوران قومی سلامتی کیخلاف تصاویر اور مواد کو مختلف چینلز اور ذرائع سے پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ پولیس کے مطابق نیٹ ورک کے ماسٹر مائنڈ تک رسائی کے بعد اس کے ساتھ کام کرنیوالے تمام ایجنٹس کو پکڑا گیا ہے۔
اسی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ نیٹ ورک نہ صرف تصاویر اور ویڈیوز بنا کر مختلف چینلز پر پھیلا رہا تھا بلکہ حساس مقامات کی لوکیشن بھی دشمن کو ارسال کر رہا تھا۔ یہ نیٹ ورک دشمن کے ساتھ مسلسل اور مستقل طور پر رابطے میں تھا اور باہر سے ہدایات لیکر کام کر رہا تھا۔ گرفتاری سے پہلے اپنی آخری کوشش کے طور پر یہ نیٹ ورک روزمرہ زندگی عوام میں مایوسی پھیلانے کے لئے ایسی خبریں اور معلومات پھیلا رہا تھا کہ اشیائے خوردونوش کی نایابی واقع ہو چکی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ عوامی حمایت اور قومی اتحاد و وحدت سے دشمن کے مذموم مقاصد کو ناکام بنایا جا رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یہ نیٹ ورک رہا تھا
پڑھیں:
آسٹریلیا میں بھارتی طلبا چھٹیوں میں چوریاں کرنے لگے؛ 10 ملین ڈالرز کی نقب
آسٹریلیا میں بھارتی طلبا کی منظم چوریوں کا انکشاف ہوا جس میں صرف پانچ ماہ کے دوران 10 ملین ڈالرز سے زائد کی چوریاں بے نقاب ہوگئیں۔
آسٹریلوی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے بھارتی طلبا اور عارضی ویزوں پر رہائش پذیر افراد پر مشتمل 19 رکنی گروہ کو گرفتار کیا ہے۔
اس گروہ پر الزام ہے کہ انھوں نے بڑے اسٹورز سے 10 ملین ڈالرز سے زائد مالیت کا قیمتی اشیاء چرایا۔
آسٹریلوی پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد ایک منظم نیٹ ورک کی صورت میں کام کر رہے تھے۔
پولیس کے مطابق بھارتی طالب علموں کی جانب سے چوری کیے گئے سامان میں بچوں کا فارمولا دودھ، وٹامنز اور الیکٹرک ٹوتھ برش بھی شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان چوری کیا گیا یہ تمام سامان مخصوص خریداروں کو فراہم کیا جاتا تھا جو بعد میں اسے مہنگے داموں فروخت کرتے تھے۔
اس رپورٹ کے منظرِعام پر آنے کے بعد آسٹریلوی حکام نے کہا کہ ایسے واقعات نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔