Express News:
2025-10-04@20:10:13 GMT

صدر ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیاں

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کو روز ایک نئے بحران کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ اور ان کے مخصوص ساتھی فیصلہ کرتے ہوئے امریکی آئین کا بھی خیال نہیں کرتے۔

امریکی نظام سے منحرف دانشور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہر آنے والے امریکی صدر نے کانگریس کی منظوری کے بغیر دیگر ممالک پر حملے کیے ہیں مگر صدر ٹرمپ ان سب سے آگے نکل گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو مکمل تباہ کرنے کے بیانیے پر قائم ہیں۔ ایرانی حکومت کا علیحدہ مؤقف ہے مگر اگر امریکی حملہ کے نتیجے میں تابکاری کے اثرات پھیلتے تو صرف ایران ہی نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھی اس سے متاثر ہوتے۔

صدر ٹرمپ جب اقتدار میں آئے تو غزہ میں حماس کی مزاحمت جاری تھی۔ اسرائیل اپنی مسلسل فوجی کارروائیوں کے باوجود غزہ پر قبضہ نہیں کر پا رہا تھا۔ صدر ٹرمپ کے لیے اسرائیل کی ناکامی ناقابلِ برداشت تھی۔

صدر ٹرمپ نے ایک طرف تو اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد میں اضافہ کیا اور جب سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت اور جنگ بندی کی قراردادیں پیش ہوئیں تو امریکا نے اسے ویٹو کردیا۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی امریکی یونیورسٹیوں میں ایک آپریشن شروع کیا۔ اس آپریشن کا مقصد امریکا کی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کو ختم کرنا اور غزہ کے لیے آواز اٹھانے والے طلبہ اور اساتذہ کو عبرت کا نشان بنانا تھا۔

امریکا کے آئین میں کی گئی پہلی ترمیم کے تحت امریکا کے شہریوں کے آزادئ اظہار اور آزادئ صحافت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ امریکی آئین کی اسی شق کے تحت امریکا کی یونیورسٹیوں میں علمی آزادی Academic Freedom کا ادارہ انتہائی مستحکم ہوا تھا مگر صدر ٹرمپ نے علمی آزادی کے ادارے کو ختم کرنے کے لیے دنیا کی مشہور ہارورڈ اور کولمبیا یونیورسٹی میں دی جانے ولی گرانٹ کو معطل کردیا۔ امریکی حکومت نے دیگر یونیورسٹیوں پر دباؤ ڈالا کہ فلسطین کی حمایت کرنے والے اساتذہ اور طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا جائے، پھر ان تمام غیر ملکی طلبہ کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

ان طلبہ کو امریکی پولیس نے ہراساں کیا اور انھیں جلاوطن کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے ایک فلسطینی نژاد محمد خلیل بھی تھے۔ محمد خلیل نے امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں میں غزہ پر اسرائیل کے حملہ کے خلاف مظاہروں اور دھرنوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

محمد خلیل کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، وہ امریکا میں Parmenent Resident ہیں۔ محمد خلیل کی شادی امریکی شہری سے ہوئی ہے مگر محمد خلیل کو فیڈرل پولیس نے گرفتار کیا اور 104 دن انھیں کنسنٹریشن کیمپ میں رکھا گیا۔ محمد خلیل نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس کو انفورسمنٹ کنسنٹریشن کیمپ میں رکھا گیا۔ اس کیمپ میں ایک بیرک میں 70افراد قید تھے۔ اس میں لائٹیں دن را ت جلتی رہتی تھیں اورکسی شخص کی پرائیویسی کا تصور نہیں تھا۔ جب فیڈرل کورٹ نے محمد خلیل کی نظربندی کو غیر قانونی قرار دیا تو محمد خلیل کو رہائی ملی۔

 صدر ٹرمپ نے برسوں سے آباد غیر ملکی امیگرنٹس کو گرفتار کر کے ملک بدر کرنے کے احکامات دیے۔ امریکا سے آنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکا کی فیڈرل پولیس نے سڑکوں پر چلنے والے افراد تک کو گرفتار کرکے کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیج دیا۔ امریکا دراصل غیر ملکی آبادکاروں کا ملک ہے۔

جب ایک چرچ کی خاتون پادری نے ان غیر ملکی شہریوں کے ملک بدری کے نقصانات بیان کیے اور امریکی حکومت کے اقدامات کو غیر انسانی قرار دیا تو صدر ٹرمپ نے اس پادری کی سب کے سامنے توہین کی۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت اور فلسطینی عوام کی نسل کشی کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے طویل سماعت کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی جرائم کے قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا اور نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ اسرائیل اور امریکا نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیا، صدر ٹرمپ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ انھوں نے عالمی عدالت انصاف کی تین خاتون ججوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔

 صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد یہ منصوبہ پیش کیا تھا کہ فلسطینی شہری غزہ کو خالی کردیں اور اس خوبصورت مقام پر ہاؤسنگ سوسائٹی اور ٹورسٹ ریزورٹ قائم کیے جائیں۔ صدر ٹرمپ کے اس خیال کو عملی شکل دی جائے تو فلسطینی ایک دفعہ پھر اپنے وطن کو چھوڑنے کے بعد بے گھر ہوجائیں گے، وہ ملکوں ملکوں پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھریں گے۔ امریکی اخبارات نے لکھا تھا کہ صدر ٹرمپ کے داماد رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

انھوں نے چند سال قبل غزہ کا دورہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ اپنے داماد کے اس آئیڈیے کو عملی شکل دینے کے لیے لاکھوں انسانوں کو قربان کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کے ایک اخبار نے صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم کے مابین ہونے والے معاہدے کی تفصیلات بھی ظاہرکر دی ہیں۔ اس معاہدے کے تحت غزہ کو تین عرب ممالک کی نگرانی میں دے دیا جائے گا۔ حماس کے حامیوں کو غزہ سے نکال دیا جائے گا۔ دنیا میں اس سے زیادہ غیر انسانی منصوبہ اورکیا ہوسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی مختلف امریکی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں یو ایس ایڈ کا ادارہ بھی شامل ہے۔ یو ایس ایڈ کا ادارہ دنیا کے بہت سے ممالک میں تعلیم ، صحت، صاف پانی اور کلائیمیٹ چینج جیسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ فراہم کرتا تھا۔ یو ایس ایڈ کے تحت پاکستان میں 30 کے قریب پروجیکٹ پر کام ہو رہا تھا۔

ان پروجیکٹ کے بند ہونے سے جیکب آباد سمیت کئی شہروں میں صاف پانی کے پلانٹ بند ہوگئے۔ کئی تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کو دی جانے والی امداد بند ہوگئی۔ اب اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانہ نے امریکا میں تعلیم کے حصول کے لیے ویزے حاصل کرنے والے طلبہ کو ہدایت کی ہے کہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اوپن کردیں، اگر کسی طالب علم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں ایسی پوسٹ وائرل ہوئی جس میں غزہ میں امریکی یا اسرائیلی مظالم کا ذکر ہو تو پھر متعلقہ طالب علم کے لیے ویزے کا حصول مشکل ہوجائے گا۔ صدر ٹرمپ نے نیویارک میئر کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ظہرانی کو کمیونسٹ پاگل قرار دیتے ہوئے ایشیائی اور افریقی افراد سے ایک دفعہ پھر نفرت کا اظہارکیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یو ایس ایڈ کے تحت دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں ٹی بی کے خاتمہ کے پروجیکٹ چل رہے تھے جو اب بند ہوگئے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے تجارتی جنگ کو ایک نئی شکل دیدی۔ مختلف ممالک کی برآمدات پر ٹیرف بڑھا دیا گیا۔ امریکی حکومت کے اس فیصلے سے پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک زیادہ متاثر ہوئے جو امریکا سے بارگیننگ کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چین اور بھارت جن کا شمار دنیا کے چند بڑے صنعتی ممالک میں ہونے لگا ہے، ان ممالک نے امریکا کو ان کی شرائط پر ٹیرف کم کرنے پر مجبور کیا۔ صدر ٹرمپ کا اعلان تھا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو ختم کرائیں گے۔ یوکرین نے اسی بناء پر صدر ٹرمپ کو اس نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا تھا۔

اسی طرح صدر ٹرمپ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی روزہ جنگ کو رکوانے کا سہرا بھی لیا مگر صدر ٹرمپ وزیراعظم مودی کو واشنگٹن میں پاکستان سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں کرسکے۔ اب بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ایسا ہی تناؤ ہے جیسا مئی کے مہینے میں تھا۔ صدر ٹرمپ نیو لبرل ازم کا سیاہ چہرہ ہیں۔ نیو لبرل ازم کا مطلب ہی سرمایہ دار ممالک کی دنیا بھر پر بالادستی ہے جو اس صدی میں سامراج کی نئی قسم ہے۔ حکومت پاکستان کو نئی صورتحال میں دوبارہ اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یونیورسٹیوں میں صدر ٹرمپ کے یو ایس ایڈ امریکا کی محمد خلیل غیر ملکی کے تحت اور اس کے لیے کے بعد

پڑھیں:

انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال

واشنگٹن میں موجود ڈان اخبار سے منسلک سینیئر صحافی انور اقبال کا کہنا ہے کہ انڈیا پر امریکا کی جانب سے پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول اب امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیرف جنگ کے باوجود بھارت اور امریکا کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں جاری

وی نیوز کے پروگرام وی ورلڈ میں بات کرتے ہوئے انور اقبال نے بتایا کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات کی خرابی سے پاکستان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ س کی چھوٹی سی مثال کچھ یوں ہے کہ باسمتی چاول امریکا میں انڈیا سے آیا کرتا تھا لیکن اس وقت انڈین دکانوں میں بھی پاکستانی چاول نظر آ رہا ہے کیونکہ وہ سستا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر بھارت پر طویل المدتی امریکی پابندیاں لگتی ہیں تو پاکستان مصالحوں، گارمنٹس اور دیگر اشیا کی سپلائی بڑھا سکتا ہے لیکن اُس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی معیشت مضبوط ہو اور آپ امریکی مارکیٹ میں سستے داموں چیزیں پہنچا سکیں۔

’اس وقت دنیا پاکستان کی حیثیت کو تسلیم کر رہی ہے‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان جو چاہ رہا تھا وہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے یہ چاہتا تھا کہ اسے انڈیا، ایران یا افغانستان کی عینک سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جائے جس نے دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ایٹمی ہتھیار بنائے۔

انور اقبال نے کہا کہ امریکا میں پاکستان کی اہمیت آیا مشرقِ وسطٰی کے تناظر میں بڑھی ہے یا افغانستان کے تناظر میں، اس سوال کےجواب میں انور اقبال نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت، افغانستان کے ساتھ جو سرحد ہے اس حوالے سے بھی پاکستان کی اہمیت ہے لیکن جس طرح سے پاکستان نے بھارت کے ساتھ فوجی کشیدگی میں مؤثر طریقے سے اپنا دفاع کیا ہے اس سے اقوام عالم میں پاکستان کا قد بڑھا ہے پاکستان کی اہمیت بڑھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کو لگتا تھا کہ چین کو قابو میں رکھنے کے لیے اُسے بھارت کی ضرورت ہے لیکن بھارت کو قابو میں رکھنے کے لیے اُسے پاکستان کی بھی ضرورت ہے کیوںکہ بھارت قابو سے باہر نکل سکتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ پاکستان کی معدنیات میں امریکا کو دلچسپی ہے اس کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت بڑھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان نہیں چاہتا کہ وہ ماضی کی طرح کسی بلاک کے ساتھ الحاق کر کے کسی دوسرے بلاک کے خلاف جنگ کرے اور اب یہ پاکستان کو سوٹ نہیں کرتا اور نہ ہی امریکا یہ چاہتا ہے اور نہ چین یہ چاہتا ہے۔

انور اقبال نے کہا کہ اس وقت پاکستان پالیسی ساز اداروں کے پاس سنہری موقع ہے کہ پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کروائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے پاکستان کو اپنی معیشت مضبوط کرنی پڑے گی۔

مزید پڑھیے: بھارت امریکا تجارتی کشیدگی: مودی کی قوم سے اپنی مصنوعات استعمال کرنے کی اپیل

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کی معیشت بہتر نہ ہو تو آپ کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں بھی پاکستان کو اپنی معیشت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

’چینی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پاکستان کا جنگ جیتنا بھی اہم بات ہے‘

انور اقبال نے کہا کہ مئی میں ہونے والی پاک بھارت فوجی کشیدگی میں امریکا نے پاکستان کی کوئی فوجی مدد نہیں کی اور پاکستان نے یہ جنگ چینی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جیتی جس نے امریکا کو سوچنے پر مجبور کیا اور امریکا کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان مکمل طور پر چین کے ساتھ شامل ہو جائے اور امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان پر اُس کا کچھ نہ کچھ اثر قائم رہے۔

 ’اسرائیل جانتا ہے اس کے اقدامات قانونی نہیں‘

اسرائیل کی جانب سے صمود فلوٹیلا پر حملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل شروع سے ایک غیر مقبول ریاست ہے اور اُنہیں بھی پتا ہے کہ کل وہ مقبول ریاست نہیں بن جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب ڈینی ڈینن نے پاکستانی مندوب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ آپ ہماری مخالفت کریں گے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل جانتا ہے کہ جب تک مغربی طاقتیں اُس کے ساتھ ہیں اُسے کچھ نہیں ہو سکتا اور اسرائیلیوں کو اپنی دفاعی طاقت، اپنے بین الاقوامی تعلقات پر بڑا بھروسہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سب ممالک کی باتوں کو جھٹلا کے سروائیو کر سکتے ہیں اس لیے اُن کے لیے اِس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ اُن کی طرف سے کیے گئے اقدامات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

’مغربی دنیا میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت میں کمی آ رہی ہے‘

انور اقبال نے کہا کہ نئی نسل کی وجہ سے مغربی دنیا میں اسرائیل کی غیر مشروط حمایت میں کمی آ رہی ہے اور اس کے لیے اسرائیلی پریشان بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل مخالف مظاہروں سے نئی نسل کو دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسرائیل مخالف مظاہروں میں یہودی بھی شرکت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا نے 32 کمپنیوں کو تجارتی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا، چین اور بھارت کی فرمیں بھی متاثر

انہوں نے کہا کہ نئی نسل ابھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہیں اور جب وہ ہو جائے گی تو اسرائیل کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس وقت جو نسل حکمران ہے وہ اسرائیلی کی حمایت کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا میں پاکستانی چاول بھارت بھارت پر امریکی پابندیاں پاکستان سینیئر صحافی انور اقبال

متعلقہ مضامین

  • بنگلہ دیش کے مشیر قومی سلامتی کی اعلیٰ امریکی عہدیداروں سے ملاقاتیں، دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال
  • امریکی ٹیرف: انڈیا واٹس ایپ اور مائیکروسافٹ کے متبادل دیسی ایپس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں
  • پاکستان کی امریکا کو پسنی پورٹ ٹرمینل میں سرمایہ کاری کی پیشکش
  • امریکا کا کیریبین سمندر میں چوتھا فضائی حملہ، 4 مبینہ منشیات فروش ہلاک
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • وینزویلا نے ایف35 طیاروں کی تعیناتی پر امریکا کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • امریکا کا یوکرین کو میزائل حملوں کے لیے انٹیلی جنس فراہم کرنے کا فیصلہ
  • کینیڈا نے شہریوں کو امریکا کے سفر سے خبردار کردیا
  • امریکا یوکرین کو روسی شہروں پر حملوںکی معلومات فراہم کریگا
  • ’مریخ پر جینا اور مرنا چاہتا ہوں‘، ایلون مسک مسک کی خواہش