ٹرانسفارمر کی تبدیلی حیسکو کی ذمے داری، کسی کو رقم ادا نہ کریں،ترجمان
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹنڈوجام (نمائندہ جسارت )حیسکو کے ترجمان ثاقب کمبھار نے کہا ہے کہ ٹرانسفارمر کے جلنے یا خراب ہونے کی صورت میں نیا ٹرانسفارمر فراہم کرنا حیسکو کی مکمل ذمے داری ہے، اس مقصد کے لیے صارفین کو ہرگز کوئی رقم ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی بھی علاقہ میں ٹرانسفارمر خراب ہو جائے یا جل جائے تو حیسکو کا مقامی عملہ چند گھنٹوں میں متبادل ٹرانسفارمر نصب کرنے کا پابند ہے۔ یہ بات انہوں نے حیسکو صارفین کے نام جاری کردہ ایک اہم پیغام میں کہی ترجمان نے واضح کیا کہ حیسکو چیف حیدرآباد کی جانب سے سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ صارفین کے تمام مسائل فوری طور پر حل کیے جائیں، اور کسی بھی ملازم کی جانب سے رشوت یا پیسے طلب کرنے کی شکایت سامنے آنے پر فوری کارروائی کی جائے گی انھو ںنے کہا کہ اگر کوئی حیسکو ملازم صارفین سے ٹرانسفارمر کی مرمت یا تبدیلی کے بدلے میں رقم طلب کرے تو فوراً حیسکو کو اطلاع دی جائے تاکہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جا سکے انہوں نے خبردار کیا کہ ٹرانسفارمرکوپرائیویٹ بنانا ایک جرم ہے، اور اگر کوئی فرد یا گروہ ایسا عمل کرے تو اس کی اطلاع بھی فوری طور پر متعلقہ حکام کو دی جائے تاکہ قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے ترجمان نے حیسکو عملے کو بھی متنبہ کیا کہ کسی بھی علاقے میں بجلی کی فراہمی میں تعطل کی صورت میں فوری ردعمل دینا ان کی پیشہ ورانہ ذمے داری ہے، اور اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی یا تاخیر ناقابل برداشت ہوگی انھوںنے صارفین پر زور دیا کہ وہ بجلی چوری جیسے جرم کی حوصلہ شکنی کریںانہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص یا ملازم بجلی چوری میں ملوث پایا گیا، تو اس کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے صارفین سے اپیل کی کہ وہ حیسکو کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر دیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے کسی بھی نے کہا
پڑھیں:
برطانیہ ،اسائلم سسٹم میں بڑی تبدیلی: مستقل رہائش کیلئے 20 سال انتظار لازم
برطانیہ (ویب ڈیسک)نے پناہ گزینوں کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی ہے جس کے تحت پناہ گزینوں کا درجہ عارضی کیا جائے گا اور مستقل رہائش کے حصول کے لیے انتظار کی مدت کو چار گنا بڑھا کر 20 سال کر دیا جائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حکومت اپنی امیگریشن پالیسیوں کو سخت کر رہی ہے، خاص طور پر فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر آنے والوں کے خلاف، تاکہ ریفارم یوکے جیسی مقبول جماعت کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کو روک سکے، جو امیگریشن کے بیانیے کی قیادت کر رہی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈنمارک کے طریقۂ کار سے رہنمائی لے رہی ہے — جو یورپ میں سخت ترین پالیسیوں میں شمار ہوتا ہے — جہاں کئی ممالک میں تارکین وطن مخالف جذبات بڑھنے سے پابندیاں مزید سخت ہوئی ہیں، جس پر حقوقِ انسانی کے گروہوں نے سخت تنقید کی ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ نے ہفتہ کی شب جاری کردہ بیان میں کہا کہ تبدیلیوں کے حصے کے طور پر کچھ پناہ گزینوں کو معاونت فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری — جس میں رہائش اور ہفتہ وار الاؤنس شامل ہیں — ختم کر دی جائے گی۔
وزیر داخلہ شبانہ محمود کی سربراہی میں چلنے والے محکمے نے کہا کہ یہ اقدامات اُن پناہ گزینوں پر لاگو ہوں گے جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں، اور ان پر بھی جنہوں نے قانون توڑا ہو۔ وزارت نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کی جانے والی مدد اُن افراد کو ترجیحی بنیادوں پر دی جائے گی جو معیشت اور مقامی کمیونیٹیز میں کردار ادا کرتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے یہ بھی کہا کہ پناہ گزینوں کو تحفظ اب “عارضی ہوگا، باقاعدگی سے اس کا جائزہ لیا جائے گا، اور اگر اُن کا وطن محفوظ قرار پایا تو درجہ منسوخ کر دیا جائے گا۔”
وزیر داخلہ شبانہ محمود نے اتوار کو اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہمارا نظام دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں خاصا فراخدل ہے، جہاں پانچ سال بعد آپ کو مؤثر طور پر خودکار طور پر مستقل رہائش مل جاتی ہے۔ ہم اس میں تبدیلی لائیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ان تبدیلیوں کے تحت پناہ گزین کا درجہ ہر ڈھائی سال بعد پرکھا جائے گا، جبکہ مستقل رہائش تک پہنچنے کا راستہ اب “20 سال کا کہیں زیادہ طویل مرحلہ” ہوگا۔
شبانہ محمود نے کہا کہ وہ پیر کو ان تبدیلیوں کی مزید تفصیلات فراہم کریں گی، جن میں یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کے آرٹیکل 8 سے متعلق اعلان بھی شامل ہوگا۔
حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ ECHR میں رہنا چاہتی ہے مگر آرٹیکل 8 — جو خاندان کی یکجائی کے حق سے متعلق ہے — کی تشریح تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
شبانہ محمود نے کہا کہ اس آرٹیکل کو “اس انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کا مقصد اُن افراد کی ملک بدری کو روکنا ہے جو ہمارے امیگریشن قوانین کے مطابق اس ملک میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔”
برطانوی حکومت کے سخت اقدامات کو تنقید کا سامنا ہے۔ 100 سے زائد برطانوی فلاحی تنظیموں نے شبانہ محمود کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ وہ “مہاجرین کو موردِ الزام ٹھہرانے اور دکھاوے کی پالیسیوں” کو ختم کریں، جو نفرت اور تشدد میں اضافہ کر رہی ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں میں ظاہر ہوا ہے کہ امیگریشن برطانوی ووٹرز کے لیے معیشت سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ گرمیوں میں اُن ہوٹلوں کے باہر احتجاج ہوئے جہاں پناہ گزینوں کو سرکاری خرچے پر ٹھہرایا گیا تھا۔
مارچ 2025 تک کے سال میں مجموعی طور پر 109,343 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی — جو پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ اور 2002 کی بلند ترین سطح سے 6 فیصد زیادہ ہے۔
شبانہ محمود نے کہا کہ حکومت مزید “محفوظ اور قانونی” راستے کھولنے کی کوشش کرے گی، کیونکہ ان کے مطابق برطانیہ کو مشکلات سے بھاگنے والوں کی مدد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔