Daily Ausaf:
2025-10-04@23:50:16 GMT

سانحہ سوات، چیختے لمحوں میں ڈوبتی انسانیت

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

سانحہ سوات کے مناظر سوشل میڈیا پر دیکھے۔ وہ مناظر جو روح کو چیر گئے، دل کو زخمی کر گئے۔ ایسا لگا جیسے کوئی تیز دھار نشتر روح میں اتر گیا ہو۔ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ سانسیں ہوکوں میں الجھ گئیں۔ آنکھیں بے ساختہ نم ہو گئیں۔دریا بپھر چکا تھا۔ وحشت ناک لہریں بد مست ہاتھی کی طرح سب کچھ تہہ و بالا کر رہی تھیں۔ ہر گزرتا لمحہ پانی کی شدت اور درندگی بڑھا رہا تھا۔ ڈسکہ سے سیر کے لیے آئے ایک خاندان کے اٹھارہ افرادمرد، عورتیں اور بچے دریا کے بیچ ایک ٹیلے پر محصور ہو چکے تھے۔ لمحہ بھر پہلے وہ قدرتی حسن کا نظارہ کرنے وہاں پہنچے تھے۔ اس وقت دریا میں پانی معمول کے مطابق بہہ رہا تھا۔ موسم خشک تھا، مطلع صاف۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں۔ دل پر سکون تھا۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ موت ان کے گرد رقص کر رہی ہے۔پھر اچانک دریا کی لہروں میں مستی اور اچھال آ گیا۔ پانی نے رفتار پکڑی۔ جس طرف سے وہ لوگ ٹیلے پر آئے تھے، وہاں بھی پانی برق رفتاری سے بڑھنے لگا۔ یہ فلیش فلڈ تھا۔ ایسی قیامت جو لمحوں میں ٹوٹتی ہے۔ اس ریلے نے انہیں سنبھلنے کا موقع تک نہ دیا۔ پانی نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیا۔ خوف کی شدت سے چیخیں بلند ہوئیں۔ خواتین پکارنے لگیں، بچے سسکنے لگے، مرد مدد کے لیے دہائیاں دینے لگے۔ مگر سب بے سود۔کنارے پر لوگ موجود تھے۔ کچھ ویڈیو بنانے میں مصروف تھے، کچھ ساکت، جیسے بے حسی کا مجسمہ۔ ہوسکتا ہے کسی نے پولیس یا ریسکیو کو فون کیا ہو، مقامی لوگوں سے مدد مانگی ہو۔ لیکن حقیقت یہی رہی کہ کوئی بروقت ان تک نہ پہنچ سکا۔ وہ ٹیلے پر کھڑے، لرزتے، کانپتے، زندہ لاشوں کی طرح، مدد کے لیے پکارتے رہے۔ وقت گزرتا گیا، پانی بڑھتا گیا۔ خود کو ان کی جگہ رکھ کر سوچیں تو کلیجہ منہ کو آ جائے۔
بچوں کے ہاتھ ماں کے گریبانوں سے لپٹے ہوں گے، عورتیں اپنے شوہروں کو تک رہی ہوں گی، اور سامنے موت کھڑی ہو گی، منہ کھولے، نگلنے کو تیار۔کسی کمزور نے جب پانی کے بہا ئوکے سامنے دم توڑ دیا ہو گا، تو باقی کتنے بے بسی سے اس کی موت کا منظر دیکھ رہے ہوں گے؟ باپ نے بچے کو بچانے کی کوشش کی ہو گی اور خود بھی بہہ گیا ہو گا۔ ماں، فریاد کرتی، جب آگے بڑھی ہو گی تو لڑکھڑا کر پانی میں جا گری ہو گی۔ لمحہ بہ لمحہ، ایک ایک کر کے سب پانی میں اترتے گئے۔ موت ان کے گرد رقص کرتی رہی اور ہم،بس دیکھتے رہے۔المیہ صرف قدرتی نہیں تھا، انسانی بھی تھا۔ سب جانتے تھے کہ برسات کا موسم ہے۔ بالائی علاقوں میں گزشتہ دو دن سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ دریا میں طغیانی کا خطرہ بڑھ چکا تھا۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو عوام کو بروقت آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ حفاظتی انتظامات کرنے چاہیے تھے۔ دریا کے قریب جانے اور نہانے پر سخت پابندی ہونی چاہیے تھی۔ فلیش فلڈ جیسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ریسکیو ٹیمیں ہمہ وقت الرٹ ہونی چاہیے تھیں۔ وہ جگہ جہاں یہ خاندان دریا برد ہوا، اچانک پانی وہاں سے نہیں نکلا تھا۔ یہ ریلا کئی میل کا سفر طے کر کے پہنچا تھا۔ راستے میں کئی شہر آئے، مگر کسی نے نیچے والوں کو خبر نہ دی۔ کوئی وارننگ جاری نہ ہوئی۔ کیا پورے شہر میں دو درجن لائف جیکٹس بھی موجود نہ تھیں؟ کیا انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بچانا ممکن نہ تھا؟ دو گھنٹے تک وہ لوگ دریا میں مدد کے لیے پکارتے رہے۔ کیا یہ دو گھنٹے بھی کم تھے؟افسوس کی بات ہے کہ حکومت نام کی کوئی شے اس لمحے دکھائی نہ دی۔ نہ کوئی منظم ادارہ، نہ کوئی مربوط کارروائی۔ یہ ایک ایسا المیہ تھا جسے روکا جا سکتا تھا، اگر ذمہ دار ادارے جاگ رہے ہوتے۔ اب تحقیقات ہوں گی، بیانات جاری ہوں گے، دو چار افسر معطل کر دیے جائیں گے، اور وقت کے ساتھ یہ واقعہ بھی بھلا دیا جائے گا۔ مگر جن کے پیارے اس ریلے میں بہہ گئے، ان کی آنکھوں سے تو ہر لمحہ ایک سیلاب بہتا رہے گا۔ ان کے دل پر جو بیتی، وہ وقت کے ساتھ کم نہیں ہو گی۔
یہ واقعہ ریاست کی بے عملی، نااہلی اور غیرذمہ داری پر ایک کالا داغ ہے۔ سیاحتی مقامات پر فلیش فلڈ وارننگ سسٹم موجود ہونے چاہئیں۔ ہر علاقے میں ریسکیو کی تربیت یافتہ ٹیمیں ہمہ وقت موجود ہوں۔ سیاحوں کو محفوظ راستوں اور ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ مقامی حکومتوں کو آپس میں فوری رابطے کی صلاحیت دی جائے تاکہ وقت پر اطلاع دی جا سکے۔ اگر ان میں سے ایک بھی قدم وقت پر اٹھایا جاتا، تو شاید آج ایک خاندان کے اٹھارہ افراد زندہ ہوتے۔یہ صرف ایک حادثہ نہیں، ایک سوال ہے ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا انسانی جان کی قیمت صرف اخباری بیانوں اور ٹویٹس تک محدود ہو چکی ہے؟ اگر ایسا ہے، تو یاد رکھیں، کل کسی اور دریا میں، کسی اور ٹیلے پر، کوئی اور خاندان اسی انجام سے دوچار ہو گا۔ اور ہم پھر صرف دیکھتے رہ جائیں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دریا میں کے لیے

پڑھیں:

گلوبل صمود فلوٹیلا میں سوار افراد کی گرفتاری انسانیت کیخلاف سنگین جرم ہے، حنیف طیب

ایک بیان میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان سمیت جن ممالک کو امریکہ اور اسرائیل سے خیر کی توقع ہے وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں، امریکہ برطانیہ سمیت کئی یورپین ممالک کا دامن مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہے جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین نظام مصطفی پارٹی سابق وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر حاجی حنیف طیب نے کہا کہ گلوبل صمود فلوٹیلا میں سوار افراد کو اسرائیلی فورسز کی جانب سے گرفتار کرنا وحشیانہ اقدام، دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ حاجی محمد حنیف طیب نے کہا کہ صمود فلوٹیلا کا مقصد غزہ کے لوگوں کو ضروریات زندگی کی اشیاء، کھانا، پینا، ادویات فراہم کرنا تھا، ان کے پاس امدادی سامان تھا کوئی اسلحہ نہیں تھا، اس پرُامن مشن میں پاکستان، تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش، قطر، بحرین، عمان، کویت، موریتانیا، ترکیہ، ملائیشیا، بارسلونا، جنوبی افریقہ سمیت 44 ممالک کے نمائندے شریک تھے، جس میں ڈاکٹرز، انسانی حقوق کے نمائندے، سیاست دان، صحافی و دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے، اس سارے عمل کو امریکی صدر ٹرمپ خاموشی سے دیکھتے رہے، امن کے علمبردار سمجھنے والے امریکی صدر نے ان کی فی الفور رہائی کے لئے اقدامات نہیں کئے، پاکستان سمیت جن ممالک کو امریکہ اور اسرائیل سے خیر کی توقع ہے وہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں، امریکہ برطانیہ سمیت کئی یورپین ممالک کا دامن مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہے جن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گلوبل صمود فلوٹیلا میں سوار افراد کی گرفتاری انسانیت کیخلاف سنگین جرم ہے، حنیف طیب
  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  • پیارے نبی (ص) انسانیت کے علمبردار اور اخوت و محبت کی مثال ہیں، الحاج عرفان احمد
  • صمود فلوٹیلا کے امدادی کارکنوں کی عدم رہائی انسانیت سوز ظلم و جبر ہے، شاداب نقشبندی
  • سید علی شاہ گیلانی کی بیوہ کا مکان قرق کرنا خلاف انسانیت ہے، محبوبہ مفتی
  • انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد
  • ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ،کاشف سعید شیخ
  • صمود فلوٹیلا پرحملہ، انسانیت کا مقدمہ
  • صمود فلوٹیلا، اسیر انسانیت اور یومِ کپور کی گونج
  • لمحوں میں لاکھوں کا سونا چوری، کیمرہ دیکھتا ہی رہ گیا