سانحہ سوات، چیختے لمحوں میں ڈوبتی انسانیت
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
سانحہ سوات کے مناظر سوشل میڈیا پر دیکھے۔ وہ مناظر جو روح کو چیر گئے، دل کو زخمی کر گئے۔ ایسا لگا جیسے کوئی تیز دھار نشتر روح میں اتر گیا ہو۔ کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ سانسیں ہوکوں میں الجھ گئیں۔ آنکھیں بے ساختہ نم ہو گئیں۔دریا بپھر چکا تھا۔ وحشت ناک لہریں بد مست ہاتھی کی طرح سب کچھ تہہ و بالا کر رہی تھیں۔ ہر گزرتا لمحہ پانی کی شدت اور درندگی بڑھا رہا تھا۔ ڈسکہ سے سیر کے لیے آئے ایک خاندان کے اٹھارہ افرادمرد، عورتیں اور بچے دریا کے بیچ ایک ٹیلے پر محصور ہو چکے تھے۔ لمحہ بھر پہلے وہ قدرتی حسن کا نظارہ کرنے وہاں پہنچے تھے۔ اس وقت دریا میں پانی معمول کے مطابق بہہ رہا تھا۔ موسم خشک تھا، مطلع صاف۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں۔ دل پر سکون تھا۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ موت ان کے گرد رقص کر رہی ہے۔پھر اچانک دریا کی لہروں میں مستی اور اچھال آ گیا۔ پانی نے رفتار پکڑی۔ جس طرف سے وہ لوگ ٹیلے پر آئے تھے، وہاں بھی پانی برق رفتاری سے بڑھنے لگا۔ یہ فلیش فلڈ تھا۔ ایسی قیامت جو لمحوں میں ٹوٹتی ہے۔ اس ریلے نے انہیں سنبھلنے کا موقع تک نہ دیا۔ پانی نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال دیا۔ خوف کی شدت سے چیخیں بلند ہوئیں۔ خواتین پکارنے لگیں، بچے سسکنے لگے، مرد مدد کے لیے دہائیاں دینے لگے۔ مگر سب بے سود۔کنارے پر لوگ موجود تھے۔ کچھ ویڈیو بنانے میں مصروف تھے، کچھ ساکت، جیسے بے حسی کا مجسمہ۔ ہوسکتا ہے کسی نے پولیس یا ریسکیو کو فون کیا ہو، مقامی لوگوں سے مدد مانگی ہو۔ لیکن حقیقت یہی رہی کہ کوئی بروقت ان تک نہ پہنچ سکا۔ وہ ٹیلے پر کھڑے، لرزتے، کانپتے، زندہ لاشوں کی طرح، مدد کے لیے پکارتے رہے۔ وقت گزرتا گیا، پانی بڑھتا گیا۔ خود کو ان کی جگہ رکھ کر سوچیں تو کلیجہ منہ کو آ جائے۔
بچوں کے ہاتھ ماں کے گریبانوں سے لپٹے ہوں گے، عورتیں اپنے شوہروں کو تک رہی ہوں گی، اور سامنے موت کھڑی ہو گی، منہ کھولے، نگلنے کو تیار۔کسی کمزور نے جب پانی کے بہا ئوکے سامنے دم توڑ دیا ہو گا، تو باقی کتنے بے بسی سے اس کی موت کا منظر دیکھ رہے ہوں گے؟ باپ نے بچے کو بچانے کی کوشش کی ہو گی اور خود بھی بہہ گیا ہو گا۔ ماں، فریاد کرتی، جب آگے بڑھی ہو گی تو لڑکھڑا کر پانی میں جا گری ہو گی۔ لمحہ بہ لمحہ، ایک ایک کر کے سب پانی میں اترتے گئے۔ موت ان کے گرد رقص کرتی رہی اور ہم،بس دیکھتے رہے۔المیہ صرف قدرتی نہیں تھا، انسانی بھی تھا۔ سب جانتے تھے کہ برسات کا موسم ہے۔ بالائی علاقوں میں گزشتہ دو دن سے موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ دریا میں طغیانی کا خطرہ بڑھ چکا تھا۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو عوام کو بروقت آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ حفاظتی انتظامات کرنے چاہیے تھے۔ دریا کے قریب جانے اور نہانے پر سخت پابندی ہونی چاہیے تھی۔ فلیش فلڈ جیسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ریسکیو ٹیمیں ہمہ وقت الرٹ ہونی چاہیے تھیں۔ وہ جگہ جہاں یہ خاندان دریا برد ہوا، اچانک پانی وہاں سے نہیں نکلا تھا۔ یہ ریلا کئی میل کا سفر طے کر کے پہنچا تھا۔ راستے میں کئی شہر آئے، مگر کسی نے نیچے والوں کو خبر نہ دی۔ کوئی وارننگ جاری نہ ہوئی۔ کیا پورے شہر میں دو درجن لائف جیکٹس بھی موجود نہ تھیں؟ کیا انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بچانا ممکن نہ تھا؟ دو گھنٹے تک وہ لوگ دریا میں مدد کے لیے پکارتے رہے۔ کیا یہ دو گھنٹے بھی کم تھے؟افسوس کی بات ہے کہ حکومت نام کی کوئی شے اس لمحے دکھائی نہ دی۔ نہ کوئی منظم ادارہ، نہ کوئی مربوط کارروائی۔ یہ ایک ایسا المیہ تھا جسے روکا جا سکتا تھا، اگر ذمہ دار ادارے جاگ رہے ہوتے۔ اب تحقیقات ہوں گی، بیانات جاری ہوں گے، دو چار افسر معطل کر دیے جائیں گے، اور وقت کے ساتھ یہ واقعہ بھی بھلا دیا جائے گا۔ مگر جن کے پیارے اس ریلے میں بہہ گئے، ان کی آنکھوں سے تو ہر لمحہ ایک سیلاب بہتا رہے گا۔ ان کے دل پر جو بیتی، وہ وقت کے ساتھ کم نہیں ہو گی۔
یہ واقعہ ریاست کی بے عملی، نااہلی اور غیرذمہ داری پر ایک کالا داغ ہے۔ سیاحتی مقامات پر فلیش فلڈ وارننگ سسٹم موجود ہونے چاہئیں۔ ہر علاقے میں ریسکیو کی تربیت یافتہ ٹیمیں ہمہ وقت موجود ہوں۔ سیاحوں کو محفوظ راستوں اور ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جائے۔ مقامی حکومتوں کو آپس میں فوری رابطے کی صلاحیت دی جائے تاکہ وقت پر اطلاع دی جا سکے۔ اگر ان میں سے ایک بھی قدم وقت پر اٹھایا جاتا، تو شاید آج ایک خاندان کے اٹھارہ افراد زندہ ہوتے۔یہ صرف ایک حادثہ نہیں، ایک سوال ہے ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا انسانی جان کی قیمت صرف اخباری بیانوں اور ٹویٹس تک محدود ہو چکی ہے؟ اگر ایسا ہے، تو یاد رکھیں، کل کسی اور دریا میں، کسی اور ٹیلے پر، کوئی اور خاندان اسی انجام سے دوچار ہو گا۔ اور ہم پھر صرف دیکھتے رہ جائیں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
سانحہ دریائے سوات: ایگزیکٹیو انجینئر محکمہ آبپاشی نے کمیٹی کو بیان اور شواہد دے دیے
—فائل فوٹو
سانحہ دریائے سوات کے حوالے سے ایگزیکٹیو انجینئر وقار شاہ نے سیلابی صورتحال پر محکموں کو بھیجے گئے میسجز انکوائری کمیٹی کو جمع کروادیے، جبکہ سیلاب کے حوالے سے ریڈنگ سمیت دیگر ریکارڈ بھی پیش کردیا۔
سانحہ دریائے سوات کے حوالے سے انکوائری کمیٹی کی جانب سے سوال پوچھا گیا کہ مینگورہ بائی پاس روڈ پر سیاح کیسے ڈوبے؟
جس کے جواب میں ایگزیکٹیو انجینئر وقار شاہ نے بتایا کہ ساڑھے 9 بجے تک مینگورہ بائی پاس پر سیاح جس وقت دریا میں اترے اس وقت صورتحال نارمل تھی اور ڈوبنے والے سیاح دریا میں سیلفیاں لے رہے تھے۔
محکمہ آبپاشی نے اپنی رپورٹ میں ریسکیو 1122 کو فلڈ ریسکیو آلات مہیا کرنے کی سفارش کی ہے۔
ایگزیکٹیو انجینئر وقار شاہ نے مزید بتایا کہ 10 بجے کے بعد منگلا ور نالہ، مالم جبہ نالہ، سوخ درہ نالہ، مٹہ نالہ کا پانی دریائے سوات میں آیا۔ خواز خیلہ گیمن بریج سے 26 ہزار کیوسک پانی پونے 11 بجے واقعے کی جگہ پر پہنچا، مقامی نالوں کے پانی سے دریا میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا جس سے سیاح بہہ گئے۔
انکوائری کمیٹی کی جانب سے پوچھا گیا کہ سیلابی صورتحال کیسے پیدا ہوئی؟ کیا وقت پر متعلقہ محکموں کو اطلاع دی تھی؟
جس کے جواب میں وقار شاہ نے بتایا کہ خواز خیلہ میں گیمن بریج پر سیلابی صورتحال 9 بجکر 30 منٹ پر پیدا ہوئی۔ بحرین اور اطراف میں بارش ہو رہی تھی اور پہاڑوں پر کلاوڈ برسٹ ہوا، پھر دریائے سوات میں پتھروں اور مٹی والا پانی گرا اور بہاؤ میں اچانک اضافہ ہوا، دریائے سوات میں پانی میں اضافے سے ضلعی انتظامیہ اور تمام اداروں کو بروقت آگاہ کیا تھا۔
ایگزیکٹیو انجینئر نے مزید بتایا کہ محکمہ آبپاشی کا گیج ریڈر موقع پر موجود تھا اور ریڈنگ متعلقہ محکموں کو بھیج رہا تھا۔