خیبرپختونخوا حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کب آئے گی؟ گورنر نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ جس دن اپوزیشن کے پاس ایک بھی رکن زیادہ ہوجائے گا صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاسکتے ہیں۔
نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں گورنر کے پی نے کہا کہ ہم نے تو ابھی تک کوئی سازش کی اور نہ ہی کوئی بیان دیا، وزیراعلیٰ خود ہی دھمکیاں دے رہے ہیں، گنڈا پور نے کہا کہ بجٹ پاس نہیں ہوگا تو اُس کے بعد جو آئینی راستہ ہوتا اُسے ہی اختیار کرتے۔
انہوں نے کہا کہ ویسے ہم نہیں چاہتے ہی علی امین گنڈا پور بے چارہ بے روزگار ہو اور سیاست چھوڑے۔
گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ وفاق ہو یا صوبہ، اپوزیشن کے پاس جس دن بھی ایک ممبر زیادہ ہو تو عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکتی ہے اور یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کے بعد اپوزیشن کے اس وقت اسمبلی میں 54 ممبران ہیں اور یہ اچھی تعداد ہے، تاہم ابھی ہم نے عدم اعتماد کا حتمی فیصلہ نہیں کیا اور ممبران مزید بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، وقت آنے پر فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ عمران خان کے خلاف وفاق میں عدم اعتماد سے پہلے بھی ایسے ہی ڈائیلاگ سُن رہے تھے مگر ہم نے اُس میں کامیابی حاصل کی۔
گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان قد آور سیاسی شخصیت ہیں اور سیاست میں اُن کا بہت اہم کردار ہے، ہماری آپس میں ملاقاتیں اور سیاسی بات چیت رہتی ہے، سیاسی لوگوں کے ساتھ ہماری غمی اور خوشی، آنا جانا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ علی محمد خان نے بتادیا
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی شرط بتادی۔
پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت قدم بڑھائے تو ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی ابتداء ہو جائے، حکومت کی طرف سے سنجیدگی نظر آئی تو ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف بھی ایک قدم آگے بڑھائے۔
انہوں نے کہا کہ بہتر تو یہ ہے کہ سیاسی جماعت کی سیاسی جماعتو ں سے بات کی جائے لیکن موجودہ صورتحال میں سب سے بات ہونی چاہیے۔
رہنما پی ٹی آئی علی محمد خان نے کہا کہ دونوں اطراف سے ایک ایک قدم آگے بڑھانا ہو گا، جبکہ دونوں اطراف کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا، حکومت کی طرف سے سنجیدگی نظر آئی تو ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف بھی ایک قدم آ گے بڑھائے، اگر حکومت قدم بڑھائے تو ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی ابتداء ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اب نتیجہ خیز مذاکرات ہونے چاہیئں۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے علی محمد خان نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ سیاسی جماعت کی سیاسی جماعتو ں سے بات ہونی چاہیے لیکن موجودہ صورتحال میں سب سے بات ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی واقعات میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، یہ بے وقوفی ہو گی کہ دہشت گردی کے شکار صوبے کی حکومت کو رخصت کیا جائے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا امر معنی ہے کہ مل کر فیصلہ کیا جائے کہ ملک کو کیسے آگے لے کر جانا ہے، تمام لوگوں کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔
علی محمد خان نے کہا کہ سیاسی انتقام سے نکلیں، سیاسی لیڈر شپ کو جیل میں ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمارا ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان سے ہی نہیں نکل رہا، ضرورت ہے کہ دوبارہ چیزیں ڈی ایسکیلیٹ ہوںْ
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کو سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق بات کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں لوگ عمران خان کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے، کوئی بھی اپنی سیاسی قبر نہیں کھودے گا، کوئی لوٹا بنے گا تو وہ اپنی سیاسی زندگی کا آخری الیکشن لڑے گا اور اسے ووٹ نہیں ملیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کل پی ٹی آئی کی سیاسی لیڈر شپ اور رہنما بیٹھے تھے اور یہ اتفاق رائے ہوا کہ اگر احتجاج کرنا ہے تو اس کو ملک بھر میں پھیلایا جائے۔