پاکستان نے اپنی طاقت پر انحصار کر کے جنگ لڑی، غریدہ فاروقی کا بھارتی جنرل کے بیان پر تبصرہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) بھارتی ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ کے جنگ میں چین کی پاکستان کی مدد سے متعلق بیان پر اینکر پرسن غریدہ فاروقی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ پاکستان نے اپنی طاقت پر انحصار کرتے ہوئے لڑی ہے۔ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس پر ایک بیان میں غریدہ فاروقی نے کہا کہ بھارتی ڈپٹی آرمی چیف نے دعویٰ کیا کہ چین نے پاکستان کو انٹیلیجنس فراہم کی۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ریکارڈ پر سب کچھ موجود ہے کہ پاکستان نے اپنی طاقت پر انحصار کرتے ہوئے لڑائی لڑی اور بھارتی جنگی طیاروں کی نقل و حرکت سے مکمل طور پر آگاہ تھا، جب سے انہوں نے اپنے ایئر بیسز پر انجن آن کیے۔اینکر پرسن کا کہنا تھا کہ بھارت کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان نے دہائیوں سے صرف بھارت سے لڑنے پر توجہ مرکوز رکھی اور خود کو اسی کے لیے تیار کیا ہے، انہیں اپنے وجودی اور ازلی دشمن کو جاننے کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔
صدر آصف علی زرداری کو عہدے سے ہٹانے کے لیے ابتدائی کام شروع ہو چکا ہے، صحافی اعزاز سید کا دعویٰ
Indian Deputy Army Chief Lt.
An analysis
1. Today on 4 July, in yet another failed attempt of series of its defeat cover ups, Indian Deputy Army Chief LTG Rahul Singh while giving twisted statement on so called… — Gharidah Farooqi (T.I.) (@GFarooqi) July 4, 2025
مزید :
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: پاکستان نے
پڑھیں:
بھارت کے ساتھ لڑائی میں چین نے پاکستان کی براہ راست مدد کی، بھارتی جنرل
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جولائی 2025ء) بھارتی فوج کے ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے جمعہ کے روز دعویٰ کیا ہے کہ چین نے مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپ کے دوران اسلام آباد کو ''براہِ راست معلومات‘‘ فراہم کیں۔ سنگھ نے بھارت کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو فوری طور پر بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
جوہری طاقت کے حامل دونوں ممالک کے درمیان چار روز تک میزائل اور ڈرونز کے حملوں کے تبادلے کے ذریعے شدید لڑائی ہوئی تھی، جسے دہائیوں کی بدترین جھڑپ قرار دیا گیا۔ یہ جھڑپ رواں سال اپریل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہندو سیاحوں پر حملے کے بعد شروع ہوئی، جس کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کیا تھا، تاہم اسلام آباد نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
(جاری ہے)
لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے نئی دہلی میں ایک دفاعی صنعت سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''ہم نے دو محاذوں پر لڑائی لڑی: پاکستان سامنے تھا اور چین اسے ہر ممکن مدد فراہم کر رہا تھا۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے درمیان بات چیت جاری تھی، تو پاکستانی افسر بھارتی دفاعی تیاریوں کے بارے میں تفصیلات سے باخبر تھے۔
''انہیں چین سے براہِ راست معلومات مل رہی تھیں۔‘‘تاہم سنگھ نے یہ واضح نہیں کیا کہ بھارت کو یہ معلومات کیسے حاصل ہوئیں۔اس حوالے سے چین کی وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
یاد رہے کہ 2020ء میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے، تاہم اکتوبر 2024ء میں افواج کی واپسی کے معاہدے کے بعد کشیدگی میں کچھ کمی آئی۔
بھارت ماضی میں یہ کہہ چکا ہے کہ اگرچہ پاکستان اور چین کے قریبی تعلقات ہیں لیکن لڑائی کے دوران بیجنگ کی جانب سے کوئی براہِ راست مدد کے شواہد موجود نہیں۔ تاہم بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر جیسی معلومات کمرشل طور پر دستیاب ہوتی ہیں اور ممکن ہے کہ پاکستان نے چین یا کسی اور ذریعے سے یہ حاصل کی ہوں۔
پاکستانی حکام بھی اس الزام کی تردید کر چکے ہیں کہ چین نے انہیں جھڑپ کے دوران فعال تعاون فراہم کیا تاہم انہوں نے سیٹلائٹ یا ریڈار مدد کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی۔
بیجنگ نے مئی میں جنگ بندی کا خیر مقدم کیا تھا اور 2013 ء سے پاکستان کی معیشت کو مختلف سرمایہ کاریوں اور مالی امداد سے سہارا دے رہا ہے۔ جنگ بندی کے بعد چینی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات میں پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں مکمل حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔
جنرل سنگھ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ترکی نے بھی پاکستان کو جنگ کے دوران اہم مدد فراہم کی، جس میں معروف ترک ساختہ ڈرون بیرکتار اور دیگر دفاعی سازوسامان شامل تھا۔
ان کے مطابق ترکی نے تربیت یافتہ افراد بھی فراہم کیے۔ واضح رہے کہ ترکی اور پاکستان کے قریبی تعلقات ہیں اور پاکستان اور بھارت کے درمیان جھڑپوں کے دوران انقرہ نے اسلام آباد سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا، جس کے ردعمل میں بھارت میں ترک مصنوعات اور سیاحت کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی تھی۔ترکی کی وزارت دفاع نے اس حوالے سے تبصرہ کے لیے روئٹرز کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
شکور رحیم روئٹرز کے ساتھ
ادارت: رابعہ بگٹی