WE News:
2025-07-06@17:04:55 GMT

آسٹن 10 کار: کلاسک خوبصورتی جو آج بھی دلوں پر راج کرتی ہے

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

آسٹن 10 کار: کلاسک خوبصورتی جو آج بھی دلوں پر راج کرتی ہے

کاروں کے شوقین افراد کے لیے بعض گاڑیاں محض سواری نہیں بلکہ یادگار لمحوں، ماضی کی خوشبو، اور انجینئرنگ کے شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایسی ہی ایک گاڑی ہے ’آسٹن 10‘، جو آج بھی شوقین طبقے کے دلوں پر راج کرتی ہے۔

1930 کی دہائی میں برطانوی کمپنی آسٹن موٹرز نے یہ کار متعارف کروائی، اور جلد ہی یہ برصغیر پاک و ہند سمیت دنیا کے کئی ممالک میں مقبول ہو گئی۔ اپنی نفیس بناوٹ، خوبصورت curves، لکڑی کی ٹرم، اور مضبوط انجن کے باعث یہ کار اپنے وقت کی شان سمجھی جاتی تھی۔

آسٹن 10 کی مقبولیت کی وجہ اس کا سادہ مگر دلکش ڈیزائن ہے۔ مخصوص گول ہیڈلائٹس، کروم گرِل، لکڑی کے dashboard، اور آرام دہ نشستیں، آج بھی کلاسیکی گاڑیوں کے نمائشوں میں اسے سب سے منفرد بنا دیتی ہیں۔

یہ کار 1125cc کے انجن کے ساتھ آتی تھی، جو اپنے وقت میں نہایت مؤثر تصور کیا جاتا تھا۔ چار اسپیڈ گیئر باکس، مضبوط chassis اور نسبتا کم فیول کھپت نے اسے اُس دور کی خاندانی کار کا لقب دلوایا۔

مزید پڑھیں: گوجرانوالہ: تھیم پارک میں وائلڈ لائف کی کارروائی، غیر قانونی طور پر رکھے گئے 4 نایاب چیتے برآمد

پاکستان میں اب بھی کئی افراد اپنی آسٹن 10 کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ کئی لوگ اسے اپنے دادا یا نانا کی نشانی کے طور پر محفوظ رکھے ہوئے ہیں، جب کہ کچھ شوقین حضرات اسے ریسٹور (بحال) کر کے نمائشوں میں پیش کرتے ہیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور ملتان جیسے شہروں میں وقتاً فوقتاً ہونے والی کلاسیکی کار شوز میں آسٹن 10 سب کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔

آسٹن 10 صرف ایک کار نہیں بلکہ ماضی کی جھلک ہے، وہ دور جب گاڑیاں وقار، وقعت اور شخصیت کا استعارہ ہوتی تھیں۔ اس کار سے جڑی کئی کہانیاں، کئی یادیں، اور کئی نسلوں کی مسکراہٹیں اب بھی زندہ ہیں۔

وقت بدلا، کاروں کی دنیا میں بے شمار ماڈل آئے اور گئے، لیکن آسٹن 10 جیسے کلاسیکی شاہکار نہ صرف انجینئرنگ کا کمال ہیں بلکہ ایک دور کی پہچان بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آسٹن 10 کو دیکھ کر دل سے یہی صدا نکلتی ہے کہ ’کلاس کبھی پرانی نہیں ہوتی‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آسٹن 10 کار اسلام اباد برطانوی کمپنی آسٹن موٹرز پاکستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا سٹن 10 کار اسلام اباد برطانوی کمپنی آسٹن موٹرز پاکستان آج بھی

پڑھیں:

مقامِ شہادت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

قرآن وحدیث میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جِدّوجُہد کے لیے دو کلمات آئے ہیں: ایک ’’جہاد‘‘ اور دوسرا ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘۔ جہاد میں عموم ہے اور قتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ کے پاس بعض مجاہدین آئے، آپؐ نے اُن سے فرمایا: خوش آمدید! تمہارا آنا باعثِ خیر ہو، اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف آئے ہو، صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! جہادِ اکبر کیا ہے، آپؐ نے فرمایا: بندے کا اپنے نفس کی خواہشاتِ (باطلہ) کے خلاف جِدّوجُہد کرنا‘‘۔ (الدررالمنتثرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ) یہ حدیث اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، مگر معناً درست ہے۔ الغرض مومن کی زندگی سعیِ پیہم اور جُہدِ مُسلسل کا نام ہے اور قِتال فی سبیل اللہ اُس کا ایک شعبہ ہے، قتال فی سبیل اللہ کی تعریف اس حدیث مبارک میں موجود ہے: ’’ایک شخص نے نبیؐ کے پاس حاضر ہوکرعرض کیا: یارسول اللہ! ایک شخص (ذاتی، قبائلی یا گروہی) حمیّت کی خاطر لڑتا ہے، دوسرادادِ شَجاعت پانے کے لیے لڑتا ہے اور تیسرا شان دکھانے کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے اللہ کی راہ میں کون ہے، آپؐ نے فرمایا: جو اللہ کے کلمے (دین) کے غلبے کے لیے لڑے، تو اللہ کی راہ میں ہے‘‘۔ (بخاری) اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جہاد کو اپنے ساتھ بیع وشراء سے تعبیر فرمایا: ’’بے شک اللہ نے مؤمنوں سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے، (یہ وہ لوگ ہیں) جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، پس (کبھی دشمن کو) قتل کرتے ہیں اور (کبھی راہِ خدا میں) مارے جاتے ہیں، یہ تورات، انجیل اور قرآن میں اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور کون ہے، پس تم اس سودے پر خوش ہوجائو جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے‘‘، (التوبہ: 111) پس اللہ کی راہ میں مارے جانے والے کو شہید کہتے ہیں۔ علماء نے بتایا: اُسے شہید اس لیے کہتے ہیں کہ وہ زبانِ قال کے بجائے زبانِ حال سے شہادت دیتا ہے کہ اُس نے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کردی ہے اور اس کی روح موت کے ساتھ ہی جنت میں پہنچ جاتی ہے۔
اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے میں جو روحانی لذت ہے، اُس کے مقابلے میں جنت کی نعمتیں بھی کم ہیں، حدیث پاک میں ہے: ’’نبیؐ نے فرمایا: (۱) ہر وہ شخص جو جنّت میں داخل ہوگا، وہ (دوبارہ) دنیا میں واپس جانا پسند نہیں کرے گا، خواہ اس کو روئے زمین کی تمام چیزیں مل جائیں، البتہ شہید جب آخرت میں اپنی عزت اور وجاہت دیکھے گا تو صرف وہ یہ تمنا کرے گا کہ وہ پھر دنیا میں جائے اور (یکے بعد دیگرے) دس بار راہِ خدا میں قتل کیا جائے‘‘۔ (بخاری)
رسول اللہ ؐ نے مقامِ شہادت کو عظمت عطا کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کا ضامن ہے جو اللہ کی راہ میں گھر سے نکلا، اس کا گھر سے نکلنا صرف مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کی وجہ سے تھا کہ میں اس کو اجرِ کثیر یا مالِ غنیمت کے ساتھ لوٹائوں یا اس کو جنت میں داخل کروں، اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو میں کسی لشکر سے پیچھے بیٹھا نہ رہتا، میں اس کو ضرور پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل کیا جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر قتل کیا جائوں‘‘۔ (بخاری) یقینا آپؐ کو شہادتِ ظاہری نہیں پانا تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا: ’’اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا‘‘، (المائدہ: 67) لیکن اس کے باوجود آپ ؐ نے بار بار شہادت کی تمنا کرکے اس منصب کو عظمت عطا کی۔
’’رسول اللہؐ نے صحابہ کرام میں کھڑے ہوکر فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا تمام اعمال میں افضل ہے، ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! بتلائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، آپؐ نے فرمایا: ہاں! اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کیے جائو درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو، پھر آپ ؐ نے فرمایا: تم نے کیا کہا تھا؟، اس نے عرض کیا: میں نے کہا تھا: اگر میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں تو کیا اس سے میرے گناہوں کی معافی ہوجائے گی، آپؐ نے فرمایا: ہاں! درآں حالیکہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی نیت رکھنے والے ہو اور پیٹھ پھیرنے والے نہ ہو تو قرض کے سوا تمہارے باقی گناہ معاف کردیے جائیں گے، کیونکہ جبریل امین نے مجھے یہ ابھی بتایا ہے‘‘۔ (مسلم)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے شہداء کے لیے حیاتِ جاودانی کی بشارت دی ہے: (۱) ’’اور جو اللہ کی راہ میں مارا جائے، اُسے مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں اُن کی زندگی کا شعور نہیں ہے‘‘، (البقرہ: 154) (۲) ’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، تم انہیں ہرگزمُردہ گمان نہ کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے ربّ کے پاس رزق پاتے ہیں‘‘۔ (آل عمران: 169) جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے، وہ طبّی اور ظاہری اعتبار سے فوت ہوجاتا ہے اور اس پر موت کے احکام جاری ہوتے ہیں، اس کی بیوی بیوہ قرار پاتی ہے، اس کی وراثت تقسیم ہوجاتی ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں مردہ کہنے کی ممانعت فرمائی اور یہ بھی کہ اپنے ذہن میں بھی انہیں مردہ گمان نہ کرو۔ اُن کی حیات بعد الموت کی کیفیت کیا ہے، یہ اللہ تبارک وتعالیٰ بہتر جانتا ہے، ہم غیر مشروط طور پر اس پر ایمان لانے کے پابند ہیں۔
شہید کا مقام اتنا بلند اس لیے ہے کہ وہ رضا ورغبت سے اپنی سب سے قیمتی متاعِ حیات کو اللہ کی راہ میں قربان کردیتا ہے، مذکورہ احادیثِ مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ وہ جنت کی ابدی اور دائمی نعمتوں کو پاکر بھی تمنائے شہادت کرے گا، جبکہ حدیث مبارک کی شہادت کے مطابق کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں جانے کی تمنا نہیں کرے گا، جبکہ شہید زبانِ حال سے کہتا ہے:
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی بندۂ مومن نے اگر اللہ کی راہ میں جان دی ہے، تو یہ اُسی کی عطا تھی، اپنے پاس سے کیا دیا، ہاں! ایک جان کے بدلے میں سوجانیں قربان کرتا تو یہ اُس کا کمال ہوتا، مگر یہ اُس کے بس کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ امام عالی مقام حسینؓ نے شبِ عاشور اپنے اہلِ بیت اور جاں نثاروں سے فرمایا: ’’جو آج کی رات اپنے گھر والوں کے پاس جانا چاہے تو میں اُسے اجازت دیتا ہوں، کیونکہ قوم میرے خون کی پیاسی ہے، جب وہ مجھے شہید کردیں گے، تو دوسروں سے بے نیاز ہوجائیں گے، آپ نے اپنے چچازادوں بنو عقیل سے کہا: تمہارے حصے کی قربانی مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے دیدی ہے، میں تمہیں اجازت دیتا ہوں: تم چلے جائو، سب نے یک زبان ہوکر کہا: آپ کے بعد جینا کس کام کا، لوگ کیا کہیں گے: ہم نے اپنے بزرگ، اپنے سردار، اپنے چچازاد کو مشکل وقت میں چھوڑ دیا، ہم نے دنیا کی زندگی کی محبت میں ان کے ساتھ مل کر دشمن پر تیر چلایا، نہ نیزہ گھونپا اور نہ تلوار چلائی، واللہ! ہم ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، بلکہ ہم اپنی جانوں، مالوں اور اہل سمیت اپنا سب کچھ آپ پر قربان کردیں گے اور اُس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک آپ کے انجام کو نہ پہنچیں۔ مسلم بن عوسجہ اسدی اور سعید بن عبداللہ حنفی نے کہا: واللہ! ہم آپ کو مشکل وقت میں ہرگز تنہا نہیں چھوڑیں گے حتیٰ کہ اللہ دیکھ لے کہ ہم نے رسول اللہ ؐ کے غیاب میں اپنی بساط کے مطابق آپ کی حفاظت کی، واللہ! یہ تو ایک جان ہے، اگر ہمیں ہزار جانیں بھی ملیں تو ہم ایک ایک کر کے سب آپ پر قربان کردیں گے۔ ہم تب تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ ہم اپنا سب کچھ آپ پر قربان نہ کردیں اور جب ہم شہید کردیے جائیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے حق ادا کردیا۔

متعلقہ مضامین

  • دھواں دار خطاب سے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بننے والی پاک فوج کی کیپٹن ایمان درانی کون ہیں؟
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • صحافتی تنظیموں اور میڈیا ورکرز کے حقوق کی حمایت کر تے رہیں گے ‘ امین الحق
  • ایم کیوایم آزادی اظہاررائے اور میڈیا ورکرز کے حقوق کی حمایت کرتی ہے: سید امین الحق
  • کرنل شیر خان شہید کی برسی:قوم کا عظیم بیٹا آج بھی دلوں میں زندہ
  • ہیرو آف کربلا
  • پاک فوج کی کیپٹن ایمان درانی سوشل میڈیا پر چھاگئیں
  • مقامِ شہادت
  • کیپٹن کرنل شیر خان کو ان کی 26ویں برسی پر عسکری قیادت اور افواج سلام پیش کرتی ہیں، آئی ایس پی آر