سفارتی تبدیلیاں یا سیاسی انتقام: ٹرمپ انتظامیہ نے محکمہ خارجہ کے 1350 ملازمین فارغ کردیے
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی سیاست اور بیوروکریسی میں ایک بار پھر ہلچل مچ گئی ہے، جہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک غیر معمولی فیصلہ کرتے ہوئے محکمہ خارجہ سے 1350 سے زائد ملازمین کو برطرف کر دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اس اہم اقدام نے جہاں واشنگٹن ڈی سی میں سیاسی گرمی پیدا کی ہے، وہیں بین الاقوامی حلقوں میں بھی سفارتی ردعمل اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس برطرفی کو ٹرمپ کے متنازع ’’امریکا فرسٹ‘‘ایجنڈے کی کڑی سمجھا جا رہا ہے، جس کا مقصد داخلی پالیسیوں اور سفارتی ترجیحات کو ازسرنو ترتیب دینا ہے۔
اس بڑے اقدام کا نوٹیفکیشن امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے دستخط سے جاری کیا گیا، جس میں 1107 سول سروس ورکرز اور 246 فارن سروس افسران کو ملازمت سے فارغ کیے جانے کا اعلان شامل تھا۔
یہ فیصلہ ایک وفاقی عدالت سے اجازت ملنے کے فوری بعد عمل میں آیا، جس نے ٹرمپ انتظامیہ کے متنازع اصلاحاتی منصوبے کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹوں کو وقتی طور پر ختم کر دیا۔
محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں اس عمل کو ’تنظیم نو منصوبہ‘ قرار دیا گیا ہے، جس کے مطابق متعدد دفاتر، خصوصاً وہ جو انسانی حقوق، جمہوریت اور پناہ گزینوں کے معاملات سے متعلق ہیں، بند کیے جا رہے ہیں۔ ان کاموں کو اب علاقائی بیوروز کے تحت منتقل کیا جائے گا تاکہ مرکزی نظام کو ہموار اور مؤثر بنایا جا سکے۔
یہ اقدامات صرف ادارہ جاتی ڈھانچے کی تبدیلی تک محدود نہیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک سیاسی مفہوم بھی پوشیدہ ہے۔ اس حوالے سے عالمی میڈیا میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان ملازمین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جو اس کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے تھے یا انہیں غیر وفادارسمجھا جاتا تھا۔ اس الزام نے برطرفی کے اس عمل کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔
اس اچانک اقدام کے بعد محکمہ خارجہ کی عمارت میں جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ برطرف کیے گئے درجنوں ملازمین نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر رخصت کیا، آنکھوں میں آنسو اور ہاتھوں میں سامان سے بھرے باکس لیے یہ افراد ایک خاموش احتجاج کا حصہ بنے۔ عمارت کے باہر ’شکریہ امریکی سفارتکارو‘کے پلے کارڈز تھامے اہلکاروں کی خاموش موجودگی نے اس واقعے کو تاریخی لمحہ بنا دیا۔
دریں اثنا ڈیموکریٹک سینیٹرز کی جانب سے اس فیصلے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ سینیٹر ٹِم کین نے اسے امریکا کی قومی سلامتی کے لیے ایک خطرناک رویہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب دنیا میں روس، چین اور مشرق وسطیٰ جیسے بحران موجود ہیں، یہ قدم غیر ذمہ دارانہ اور نقصان دہ ہے۔
رپورٹس کے مطابق برطرف کیے گئے ملازمین میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد وہاں پھنسے افغان شہریوں کو نکالنے کے حساس کام پر مامور تھے۔ یہ حقیقت اس اقدام کو مزید تشویشناک بنا دیتی ہے، خاص طور پر ان حالات میں جب امریکا عالمی سطح پر اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
محکمہ خارجہ کی جانب سے ملازمین کو 5 صفحات پر مشتمل چیک لسٹ بھی دی گئی، جس میں واضح ہدایت تھی کہ شام 5 بجے کے بعد وہ عمارت میں داخل نہیں ہو سکیں گے اور ان کی ای میل سروسز بھی بند کر دی جائیں گی۔ اس عمل نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ قدم محض تنظیمی تبدیلی ہے یا سیاسی انتقام کا تسلسل۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ برطرفیاں نہ صرف امریکی بیوروکریسی میں خوف کی فضا پیدا کریں گی بلکہ آئندہ کسی بھی حکومت کے لیے سفارتی مشینری کی تشکیل ایک پیچیدہ مسئلہ بن جائے گا۔ اس اقدام کے دور رس اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے، جن میں امریکا کی خارجہ پالیسی پر عالمی اعتماد کا بحران بھی شامل ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
امریکی ایوانِ نمائندگان نے الہان عمر کے خلاف سرزنش کی قرارداد مسترد کر دی
امریکی ایوانِ نمائندگان نے ڈیموکریٹ رکن کانگریس الہان عمر کو قدامت پسند کارکن چارلی کرک کی موت سے متعلق تبصروں پر سرزنش (Censure) کرنے کی قرارداد مسترد کر دی۔
بدھ کی رات ہونے والی ووٹنگ میں قرارداد کو 213 ارکان نے حمایت جبکہ 214 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ ری پبلکن اکثریت والے ایوان میں یہ قرارداد اس وقت ناکام ہوئی جب 4 ری پبلکن ارکان کوری ملز (فلوریڈا)، جیف ہرڈ (کولوراڈو)، ٹام مک کلنٹاک (کیلیفورنیا) اور مائیک فلڈ (نیبراسکا) نے ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر مخالفت کی۔
قرارداد ری پبلکن رکن نانسی میس نے پیش کی تھی، جس میں نہ صرف الہان عمر کو سرزنش بلکہ ایوان کی 2 کمیٹیوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے چارلی کرک کے قتل پر خوشی منانے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی، امریکی نائب وزیر خارجہ
تنازعہ اس وقت بڑھا جب الہان عمر نے ایک ویڈیو ری پوسٹ کی، جس میں کرک کو ’قابلِ نفرت انسان‘ کہا گیا اور ری پبلکن جماعت پر تنقید کی گئی کہ وہ اس کی موت کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
مک کلنٹاک نے کہا کہ اگرچہ الہان عمر کے تبصرے ’قابلِ مذمت اور نفرت انگیز‘ تھے لیکن وہ ایوان کے قواعد کے خلاف نہیں اور اظہارِ رائے کی آزادی کے تحت آتے ہیں۔
سیاسی ردعملمائیک فلڈ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو پہلے ہاؤس ایتھکس کمیٹی میں بھیجا جانا چاہیے۔
الہان عمر نے دعویٰ کیا کہ نینسی میس یہ معاملہ اپنے سیاسی فائدے اور گورنر کی دوڑ کے لیے اچھال رہی ہیں۔
ڈیموکریٹ لیڈر حکیم جیفریز نے ایوان میں کہا کہ ری پبلکن پارٹی والے صرف ’جھوٹے بیانیے‘ کو ہوا دے رہے ہیں۔ اور ایسے وقت میں جب سیاسی تشدد بڑھ رہا ہے، یہ طرزِ عمل غیر ذمہ دارانہ ہے۔
ایوان میں حالیہ برسوں میں سرزنش کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، لیکن الہان عمر کے خلاف قرارداد کی ناکامی اور اس سے قبل ڈیموکریٹ رکن لا مونیکا میک آئور کے خلاف قرارداد مسترد ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض ری پبلکن ارکان بھی اس رجحان کو مناسب نہیں سمجھتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الہان عمر امریکی ایوان نمائندگان چارلی کرک