پاکستان میں BMW گاڑیوں کی قیمتوں میں لاکھوں روپے کی کمی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دیوان موٹرز نے پاکستان میں BMW کی تمام گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام وفاقی بجٹ 2025-26 میں کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس میں کمی کے بعد سامنے آیا ہے۔
کم قیمتوں کا اطلاق پیٹرول اور پلگ اِن ہائبرڈ (PHEV) دونوں ماڈلز پر ہو گا، جس کے باعث کئی ہائی پرفارمنس گاڑیاں اب پہلے سے کہیں زیادہ سستی ہو گئی ہیں۔
کم قیمت ماڈلز جیسے کہ BMW 218 GC کی قیمت میں تقریباً 45 لاکھ روپے کی کمی ہوئی ہے، جبکہ پریمیم ماڈلز پر اس سے بھی بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ X7 M60i xDrive کی قیمت میں تقریباً 4 کروڑ 79 لاکھ روپے تک کمی کی گئی ہے۔
کمپنی کے مطابق، نئی قیمتوں کا اطلاق فوری طور پر ملک بھر میں تمام مجاز ڈیلرشپس پر کر دیا گیا ہے۔
بھارتی ٹینس اسٹار رادھیکا یادیو والد کی فائرنگ سے قتل
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
چینی کی قیمتوں میں اضافہ، وفاقی حکومت کا چینی کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دینے کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مارکیٹ میں پیدا ہونے والی قلت کے بعد وفاقی حکومت نے نجی شعبے کو 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ٹیکس چھوٹ دے دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے، جس کے تحت 30 ستمبر 2025 تک درآمد کی جانے والی چینی پر سیلز ٹیکس اور ویلیو ایڈیڈ ٹیکس میں بڑی نرمی دی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق درآمد شدہ چینی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کم کر کے 0.25 فیصد کر دیا گیا ہے، جبکہ 3 فیصد ویلیو ایڈیڈ ٹیکس سے مکمل چھوٹ دے دی گئی ہے، یہ اقدام حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کی کوششوں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل حکومت کی اپنی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف ہے۔
یاد رہے کہ ملک میں حالیہ مہینوں کے دوران چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، جو 160 سے 180 روپے فی کلو تک جا پہنچی، اس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے چینی کی بڑے پیمانے پر برآمد کو قرار دیا جا رہا ہے، جس کے بعد مقامی مارکیٹ میں قلت پیدا ہوئی۔
اب اسی قلت کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے نجی شعبے کو درآمد کی اجازت دی ہے اور اس پر ٹیکس میں چھوٹ دے کر مارکیٹ میں استحکام لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم اپوزیشن اور معاشی تجزیہ کار اس پالیسی کو “غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ” قرار دے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ چینی کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں آٹا، گھی، دالیں، چاول اور سبزیاں بھی مہنگی ہو چکی ہیں۔ آٹے کی فی کلو قیمت 130 سے 150 روپے، گھی 500 روپے فی کلو، اور دال چنا 300 روپے فی کلو سے تجاوز کر چکی ہے۔
شہری حکومت کے ان دعوؤں پر سوال اٹھا رہے ہیں جن میں عوام کو ریلیف دینے کی بات کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر مہنگائی نے متوسط اور نچلے طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ حکومت ہر بار مہنگائی کے خلاف اعلانات اور دعوے کرتی ہے، لیکن زمینی حقائق برعکس ہیں، چینی کی برآمد کی اجازت دے کر پیدا کردہ بحران کو اب درآمد اور ٹیکس چھوٹ کے ذریعے قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا خمیازہ براہ راست عام شہری بھگت رہا ہے۔