اپنے ملک پاکستان کی سالمیت اور معاشرتی امن و سکون کی ہر لمحہ دعا کی جاتی ہے اور بے اختیار ایسے اشعار تخلیق کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔
اے میرے ملک ! تیری فضاؤں کی خیر ہو
دریاؤں، جھیلوں، چشموں، ہواؤں کی خیر ہو
ہمارے ملک کے حالات شروع ہی سے خراب ہیں،کبھی باد سموم، باد بہار میں بدل جاتی ہے تو اس کی مدت کم ہوتی ہے۔ فیض نے وطن سے محبت اور اس میں ہونے والے ستم کو ان الفاظ میں اجاگر کیا ہے۔
نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
پاکستان کے ہر دور اور ہر حکومت کا یہی المیہ ہے کہ حق بات کہنے اور سچائی کی راہوں پر چلنے والے مسافروں کا نان نفقہ بند کردیا جاتا ہے جب کہ اس کے برعکس کذاب اور منافقین کی تو چاندی ہی چاندی ہے، جیل میں بے قصور بند کردینا، پرانی ریت ہے۔ اگر حقیقی ڈاکو، چور، قاتل گرفتار بھی کرلیتے جاتے تو وہ تھوڑے ہی عرصے بعد تعلقات اور رشوت کے عوض چھوڑ دیے جاتے ہیں جب کہ ’’ سچ ‘‘ کی مالا جپنے والے یا تو ساری عمر پابند سلاسل رہتے ہیں یا پھر دار پر لٹکا دیے جاتے ہیں،
ان کا کوئی مقدمہ سننے والا اور انھیں بری کرنے والا کوئی منصف نہیں۔ انھی حالات اور سنگین و غیر منصفانہ رویے نے معاشرے میں انارکی اور ظلم و بربریت کی فضا کو پروان چڑھایا ہے۔ اب کسی کو پرواہ نہیں ہے کہ وہ گرفتار بھی ہو سکتے ہیں اور سزا کے حق دار بھی، وہ لمبی سزا جس کے ملنے سے وہ آزار و ذلت کی کھائی میں گر ہی جائیں گے، ان کے ساتھ ہی ان کا گھر بار، بیوی، بچے اور والدین پوری زندگی غم سہیں گے اور معاشرتی مسائل انھیں جینے نہیں دیں گے، ان کے بچوں کی شادیاں ہونا بھی مشکل ہو جائیں گی۔ ایسی سوچوں سے تخریب کار آزاد ہوچکے ہیں۔
قتل و غارت کا بازار بلا ناغہ سجایا جاتا ہے خاص طور پر کراچی کو ڈاکوؤں کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا، پل بھر میں غریب کی محنت کی کمائی اسلحے کے زور پر لے اڑتے ہیں، والدین کے سامنے تو کبھی اولاد کے روبرو غلیظ حرکتیں جن میں بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کی عزت و آبرو کو تار تار کیا جاتا ہے اور یہ بے ہودہ حرکات کی صورت نازل ہوتی ہیں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
قاتل سیاسی اور خاندانی دشمنی اور نفرت کی بنا پر انسانیت کے پرخچے اڑا دیتے ہیں۔ ایسے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں۔
چند روز پرانا ہی واقعہ ہے جب میٹرک کی طالبہ کے ساتھ رکشہ ڈرائیور نے زیادتی کی اور تین چار ماہ تک اسے ہراساں کرتا رہا، معلوم اس وقت ہوا جب اس لڑکی کو زخمی حالت میں ویرانے میں پھینکا گیا، لڑکی کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے لرزہ خیز انکشاف کیا کہ والدین کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، اس پورے واقعے میں والدین زیادہ قصور وار نظر آتے ہیں، اور وہ لڑکی بھی جس نے زبان بند رکھی۔
والدین نے اپنی بیٹی کی حفاظت اسکول جانے اور لانے کے لیے ماہانہ تنخواہ پر رکشے کا انتظام کیا تاکہ باہر گھات لگائے درندے ان کی لخت جگر کو ترنوالہ نہ بنا لیں، اس قدر حفاظت کرنے کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں۔ مذکورہ والدین اور دوسرے والدین کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا دوست نہیں بناتے ہیں، انھیں اعتبار نہیں بخشتے ہیں کہ وہ ان کی ہر غلطی، ہر خطا کو معاف کر سکتے ہیں۔
جو بھی بات ہو وہ ان کے علم میں ضرور لائی جائے تاکہ قبل از وقت ازالہ کیا جاسکے، ساتھ میں یہ بات بھی گوش گزار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا وہ ان کی عزت اور محبت کے حوالے سے جان ہیں، روح ہیں، ان کے بغیر ان کا جینا محال ہے، آپ بھی انسان ہیں، انسانوں ہی سے غلطی ہو جاتی ہے اور پھر جب ہمارا رب ہمیں معاف کر سکتا ہے تو والدین کیوں اپنے بچوں پر کسی بھی کوتاہی پر تشدد کریں گے، ان حالات میں اعتماد کی فضا قائم رہتی ہے۔
اب اگر والدین خود ہی اپنی اولاد کو ڈرا اور دھمکا کر رکھیں گے، خاص طور پر مائیں کہ ’’دیکھو بیٹا! اگر تم نے کوئی بھی لغزش کی تو تمہارے ابا تمہیں جان سے مار دیں گے، تمہارے جسم کے ٹکڑے کرکے دفنا دیں گے، کسی کو کانوں کان پتا نہیں چلے گا‘‘ اسی طرح رزلٹ کے مواقعوں پر یہ کہتے سنا گیا ہے۔’’ بیٹا جی! فیل ہوئے تو تمہاری خیر نہیں، ہماری ناک نہیں کٹوا دینا، خاندان میں تو بچے ٹاپ کر رہے ہیں، دیکھا نہیں شاہ رخ کو، پوری کلاس میں اول آتا ہے، اور اب تو اس نے ٹاپ کر لیا۔
ننھیال، ددھیال میں واہ، واہ تو ہوئی، اس کے علاوہ اپنے ملک اور پوری دنیا میں شان دار کامیابی کی خبر نے دھوم مچا دی، دور دور سے فون آتے رہے کئی ماہ تک۔‘‘ حقیقی زندگی میں ہمیں بہت سے گھرانے ایسے نظر آتے ہیں جہاں گھر کا سربراہ بیوی بچوں کے لیے ظالم ترین شخص کا کردار ادا کرتا ہے، بچوں کی ہر خواہش کو پیروں تلے مسل دیتا ہے اور بیوی کو ڈانٹ، ڈپٹ کے ساتھ مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر کے ماحول میں حبس اور گھٹن کا عنصر شامل ہو جاتا ہے، بیوی بچوں کو اسی طرح ڈراتی رہتی ہے جس طرح مائیں بچوں کو جنگل یا ویرانے میں جانے کے لیے منع کرتی ہیں، رات کو ریچھ سے ڈراتی ہیں یا بھوت یا دوسری بلاؤں سے۔ ’’ چپ ہو جاؤ، خاموش رہو، نہیں تو ریچھ آ جائے گا اور اٹھا کر لے جائے گا‘‘ اصل میں وہ ریچھ نہیں بلکہ شوہر صاحب ہوتے ہیں، اگر بچوں نے شور کیا تو صاحب کی آنکھ کھل جائے گی اور پھر جو صورت حال ہوگی وہ بے بس عورت ہی جانے، یہ وہ عورتیں ہوتی ہیں جنھیں ان کے گھر والے بوجھ سمجھ کر بھیڑیے یا قصائی کے آگے ڈال کر بھول جاتے ہیں۔
بعض گھرانوں میں تربیت کا فقدان ہوتا ہے، باپ اپنی ذمے داری کو پورا نہیں کرتا ہے اور ماں کو احساس اور نہ اتنی فرصت کہ اپنی اولاد پر توجہ دے، ایسے ہی گھرانے کے بچے محض فیل ہونے پر یا کوئی بڑی غلطی سرزد ہو جانے پر خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں، خودکشی کرنے والے بچوں میں 10 سے 16 سال تک کے طالب علم شامل ہیں جو محض والد کی ڈانٹ ڈپٹ یا فیل ہو جانے کی صورت میں سزا کے خوف سے زندگی سے کھیل جاتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کا انجام موت یا ہاتھ پیر ٹوٹنے سے کم ہرگز نہیں ہوگا، لہٰذا زندگی بھر کی معذوری اور درد ناک سزا سے بہتر ہے خود ہی اجل کو گلے لگا لیا جائے۔ گزشتہ مہینوں میں بڑے درد ناک واقعات نے جنم لیا۔ پہلے اداکارہ عائشہ خان اور اب حمیرا اصغر ۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے۔)
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
DUBAI:’’ یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘
جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔
تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کیلیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کوجانے کا کہہ دیا، انھیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا۔
بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو انھیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا۔
اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بے حد منفی رہا،بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔
اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی، نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا۔
پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے ، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔
پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادیو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہو گی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے۔
شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے،پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا، البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟
کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا۔
ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی، جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے۔
ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرناہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔
اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں،البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے،ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟
ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے ، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟
آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے،پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا۔
فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل راؤنڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا،صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا۔
بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آؤٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے۔
یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے، کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)