عدالت نے مزید 5 یوٹیوب چینلز کی بندش کا حکم معطل کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(نمائندہ جسارت)اسلام آباد کی مقامی عدالت کی جانب سے 27 معروف یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کے حوالے سے اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، مزید 5 یوٹیوب چینلز کی بندش کا حکم معطل کر دیا گیا۔ 6 یوٹیوبرز نے جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کے فیصلے
کیخلاف اپیل دائر کی تھی، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد افضل مجوکہ نے درخواست پر سماعت کی، عدالت نے دلائل سننے کے بعد مخدوم شہاب الدین، اوریا مقبول جان، عبدالقادر، عزیر انور اور عمیر رفیق کی حد تک چینلز کی بندش کے حکم کو معطل کر دیا ہے۔سینئر صحافی حبیب اکرم کی عدم دستیابی کے باعث اپیل پر فیصلہ نہیں ہوسکا، عدالت نے حبیب اکرم کی حاضری اور دلائل کے لیے درخواست 14 جولائی تک ملتوی کر دی ہے۔خیال رہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے 8 جولائی کو ایف آئی اے کی درخواست پر صحافی مطیع اللہ جان ، اسد طور ، اوریا مقبول جان اور صدیق جان سمیت 27 معروف یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ریاست مخالف مواد کے حوالے سے ایف آئی اے نے 2 جون کو انکوائری شروع کی، ایف آئی اے کی جانب سے پیش کردہ شواہد سے عدالت مطمئن ہے، قانون کے مطابق کاروائی کر سکتے ہیں۔عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ یوٹیوب کے انچارج افسر کو حکم دیا جاتا کہ ہے 27 یوٹیوب چینل بلاک کر دیا جائے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان اور اسد طور کے یوٹیوب چینلز کی بندش کا حکم بھی معطل کر دیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چینلز کی بندش یوٹیوب چینلز اسلام ا باد معطل کر دیا عدالت نے کا حکم
پڑھیں:
جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا
اسلام آباد: جعلی ڈگری کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج فرائض انجام دینے سے عارضی طور پر روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں سنا دیتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم جاری کیا۔ عدالت نے معروف قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر اوصاف علی کو عدالتی معاون مقرر کیا، جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کی سماعت کے قابل ہونے پر قانونی معاونت طلب کی گئی ہے۔
یہ فیصلہ ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے دائر کردہ کو وارنٹو رٹ پٹیشن پر دیا گیا۔ تاہم، کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔ ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کی وجہ سے غیر حاضر ہیں اور سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
دورانِ سماعت اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار کونسل کے نمائندگان روسٹرم پر آ گئے اور اس درخواست پر تحفظات کا اظہار کیا۔ وکلا نمائندگان نے پٹیشن کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فی الوقت عدالت صرف ابتدائی اعتراضات کا جائزہ لے رہی ہے، اور ابھی نہ تو جج صاحب کو اور نہ ہی کسی دوسرے فریق کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فیصلہ نہیں دیتی، یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا۔
عدالت اس اہم آئینی سوال پر غور کر رہی ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہو، تو کیا ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے؟
اسلام آباد بار کونسل کے رکن راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے خلاف شکایات کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو حاصل ہے، اور اگر عدالتیں اس نوعیت کی پٹیشنز کو سماعت کے لیے منظور کرتی رہیں تو یہ عدلیہ کے وقار کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
عدالت نے بار کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ آیا وہ اس کیس میں فریق ہیں؟ ساتھ ہی کہا کہ اگر نوٹس جاری کیا گیا تو تمام متعلقہ فریقین کو سنا جائے گا۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم علی گجر نے کہا کہ بار اس معاملے میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ یہ درخواست قابلِ سماعت نہیں۔
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ بار کا آئینی مؤقف قابلِ قدر ہے، تاہم اس وقت عدالت صرف ابتدائی قانونی اعتراضات پر غور کر رہی ہے۔
Post Views: 6