دنیا بھر میں یوم شہدائے کشمیر منایا گیا، پاکستانی قیادت کا شہداء کو خراجِ عقیدت
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:آج 13 جولائی کو دنیا بھر میں مقیم کشمیری عوام نے یومِ شہدائے کشمیر عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا، یہ دن 1931 میں سری نگر میں ڈوگرہ راج کے خلاف اذان کی تکمیل کے دوران شہید ہونے والے 22 کشمیریوں کی یاد میں ہر سال منایا جاتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق یومِ شہدائے کشمیر کے موقع پر مختلف ممالک میں کشمیریوں اور ان کے ہمدردوں کی جانب سے تقاریب، ریلیوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا، جن میں ان عظیم شہداء کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جدوجہدِ آزادی کشمیر کی بنیاد رکھی۔
اس موقع پر صدرِ مملکت آصف زرداری نے اپنے پیغام میں کہا کہ 13 جولائی 1931 کو جامِ شہادت نوش کرنے والے 22 عظیم کشمیری نوجوانوں کی قربانی تحریکِ آزادی کا سنگِ میل ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی یومِ شہدائے کشمیر پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ دن کشمیریوں کی ناقابل تسخیر جدوجہد، قربانی اور بھارتی جبر کے خلاف ان کی مزاحمت کی علامت ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کا نوٹس لے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دلانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
یاد رہے کہ 13 جولائی 1931 کو سری نگر سینٹرل جیل کے باہر جب ایک کشمیری نوجوان نے نمازِ ظہر کے لیے اذان دینی شروع کی تو ڈوگرہ فوج نے اس پر گولی چلا دی۔ اس کے بعد ایک کے بعد ایک نوجوان آگے آتا گیا اور اذان مکمل کرنے کے دوران 22 نوجوان شہید ہو گئے۔
یہ دن اس لازوال قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے جس نے کشمیری عوام کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن کی اور آج بھی ان کے جذبہ مزاحمت اور جدوجہد کا مرکز ہے۔
کشمیری ہر سال یومِ شہدائے کشمیر اس لیے مناتے ہیں تاکہ دنیا کو یاد دلایا جا سکے کہ ان کی جدوجہد محض جغرافیہ کی نہیں بلکہ حق، آزادی اور انسانی وقار کی ہے۔ یہ دن کشمیری عوام کی آزادی کے عزم، قربانیوں اور بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف ان کے انکار کی نمائندگی کرتا ہے، جو آج بھی پوری قوت سے جاری ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بہادر اور جری حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ 89 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اور جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کے معروف رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ آج شام اپنے گھر سوپور میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 89 سالہ عبدالغنی بٹ کا تعلق شمالی کشمیر کے بُوٹینگو گاؤں سے تھا، جو سوپور سے تقریباً 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
اس عظیم رہنما نے سری پرتّاپ کالج سری نگر سے فارسی، اکنامکس اور سیاسیات میں تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں ماسٹرز اور قانون کی ڈگری بھی حاصل کی۔
ان کا شمار مُسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے بانی ارکان میں ہوتا ہے۔ عبدالغنی بٹ نے 1987 کے اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔
انتخابات کو بہت سے حلقوں میں دھاندلی زدہ قرار دیا گیا اور ان نتائج نے ہی سیاسی جدوجہد کو مسلح تحریک کی طرف مائل ہونے میں مدد دی۔
جدوجہد آزادی کشمیر کی میں عبدالغنی کی لگن، محنت اور صعوبتیں برداشت کرنے کے عزم مصمم کے باعث آل پارٹیز حرِیت کانفرنس کے چیئرمین بھی بنے۔
انہوں نے مسلم کانفرنس، جموں و کشمیر کی سربراہی بھی کی، جسے بھارت کی حکومت نے ممنوع قرار دیا ہوا تھا۔
اس تنظیم کا بنیادی موقف کشمیر میں بھارت کے ناجائز قبضے اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے نظام کو تسلیم نہ کرنا تھا۔
ان کی تنظیم کا نعرہ مقبوضہ کشمیر کا حق خود ارادیت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کی کوشش کرنا رہا ہے۔
کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف انہوں نے دن رات ایک کردیئے جس کی پاداش میں قید و نظربندی کی صعوبتیں برداشت کیں۔
وہ طویل عرصے نقاہت اور عمر رسیدگی سے جڑے امراض میں مبتلا تھے اور آج لاکھوں چاہنے والے سوگواروں اور اپنے نظریاتی ساتھیوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔