زیارت امام حسینؑ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی، جعفریہ الائنس
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
اپنے بیان میں ترجمان جعفریہ الائنس نے کہا کہ زائرین امام حسینؑ کو روکنا، ان کے حوصلے پست کرنا اور سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی حکومت کی بدترین نااہلی بےحسی کی عکاسی کرتا ہے، ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر زمینی راستے کھولے، زائرین کو سہولیات دے اور سیکورٹی فراہم کرے، بصورت دیگر شدید ترین عوامی ردعمل کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ جعفریہ الائنس کے ترجمان نے کہا ہے کہ اربعین امام حسین علیہ السلام کے مقدس سفر پر جانے والے زائرین پر بذریعہ سڑک پابندی ناقابل برداشت اور حکومتی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو حکومت اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتی وہ اپنی آئینی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں ترجمان جعفریہ الائنس نے مزید کہا کہ راستے بند کرنا، زائرین امام حسینؑ کو روکنا، ان کے حوصلے پست کرنا اور سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی حکومت کی بدترین نااہلی بےحسی کی عکاسی کرتا ہے، ہم واضح کرتے ہیں کہ اربعین امام حسینؑ کا سفر عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور اس میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو قوم اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی، ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر زمینی راستے کھولے، زائرین کو سہولیات دے اور سیکورٹی فراہم کرے، بصورت دیگر شدید ترین عوامی ردعمل کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جعفریہ الائنس
پڑھیں:
یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
بھارت میں یکم نومبر 1984 وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم ہوئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کردیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتلِ عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے، جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔
یکم نومبر 1984 بھارت کی سیاہ تاریخ کا وہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی۔ 31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا، جس دوران ہزاروں سکھ مارے گئے جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ جریدہ ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوؤں نے ووٹنگ لسٹوں کے ذریعے سکھوں کی شناخت اور پتوں کی معلومات حاصل کیں اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔
شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ہندوستانی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔
انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں گھروں کی نشاندہی کرتے، اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہوکر سکھ مکینوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے۔ یہ خونیں سلسلہ تین دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔
1984 کے سانحے سے قبل اور بعد میں بھی سکھوں کے خلاف بھارتی ریاستی ظلم کا سلسلہ تھما نہیں۔ 1969 میں گجرات، 1984 میں امرتسر، اور 2000 میں چٹی سنگھ پورہ میں بھی فسادات کے دوران سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہی نہیں، 2019 میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے سمندر پار مقیم سکھ رہنماؤں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔
18 جون 2023 کو سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں قتل کر دیا گیا، جس پر کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔
ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے، جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔