پنجابی کھوج گڑھ: للیانی کی مٹی سے اٹھنے والی علمی بیداری کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
پنجاب کی دھرتی نے کئی انقلاب دیکھے مگر للیانی کی خاموش زمیں پر لکھی جانے والی کہانی کچھ اور ہی ہے۔ جس جگہ مہاراجہ دلیپ سنگھ نے انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈالے اور سکھ سلطنت کے زوال کی ابتدا ہوئی، وہی سرزمین آج پنجابی زبان اور ثقافت کے ایک بڑے تحقیقی مرکز کا گہوارہ بن چکی ہے، پنجابی کھوج گڑھ۔
یہ بھی پڑھیں: میں ٹھیٹھ پنجابی ہوں، دل چاہتا ہے اپنی زبان کو بطور مضمون متعارف کرایا جائے، مریم نواز
ڈی ڈبلیو میں شائع ہونے والی فاروق اعظم کی رپورٹ کے مطابق یہ نہ کوئی سرکاری ادارہ ہے اور نہ ہی کسی یونیورسٹی سے وابستہ تحقیقی مرکز بلکہ یہ ایک عام پرائمری اسکول ٹیچر کا غیرمعمولی خواب ہے جس نے ماں بولی سے عشق کو زندگی کا مشن بنایا۔
شاعر، محقق، مؤرخ اور پنجابی شعور کے سرخیل اقبال قیصر نے للیانی کے نواح میں وہ کام اکیلے کیا ہے جو وہ شاید پورے ادارے بھی نہ کر پاتے۔
خاک سے خواب تک: ایک استاد کی کہانیقصور میں پیدا ہونے والے اقبال قیصر کا خاندان قیام پاکستان کے وقت فیروز پور سے ہجرت کر کے لاہور آیا۔ بچپن جھگیوں میں گزرا، والد ڈرائیور تھے لیکن ماں کی سنائی ہوئی پنجابی کہانیاں دل میں کچھ ایسا بسا گئیں کہ زبان اور ثقافت سے جذباتی تعلق امر ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ مولوی عبدالستار کا پنجابی قصہ یوسف زلیخا پہلی کہانی تھی جس نے میرے اندر پنجابی کی چنگاری سلگائی۔
میٹرک میں ان کی پہلی کتاب دو پتر اناراں دے شائع ہوئی اور پھر تحقیق، لکھنے اور پنجابی بولنے کو وقار دینے کا سفر شروع ہوا۔
مزید پڑھیے: دنیا بھر میں ’پنجابی زبان‘ میں ٹیٹو بنوانے کا رجحان کس نمبر پر ہے؟
’سجن‘ اخبار، پنجابی ادب کے بزرگوں کی قربت، اور ثقافتی شناخت کی تلاش نے ان کی سوچ کو وہ گہرائی بخشی جو بعد میں پنجابی کھوج گڑھ جیسے خواب کی بنیاد بنی۔
جب نوکری گئی، تو خواب پروان چڑھاسنہ1998 میں ان کی شہرہ آفاق کتاب Historical Sikh Shrines in Pakistan منظرِ عام پر آئی، جس نے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ مگر دلچسپ بات یہ کہ جب وہ اس کتاب کی تشہیر کے لیے مشیگن گئے تو واپسی پر ملازمت سے فارغ کر دیے گئے۔ لیکن اقبال قیصر نے مایوسی کو موقع بنایا۔ کتاب کی آمدنی سے پونے 7 ایکڑ زمین خریدی اور للیانی میں ایک ایسی دانش گاہ قائم کی جس کا تصور بھی اس وقت ناممکن سمجھا جاتا تھا۔
پنجابی کھوج گڑھ، نہ صرف ایک لائبریری یا تحقیقی مرکز ہے بلکہ یہ پنجابی تہذیب، روایت اور تاریخی شعور کا جیتا جاگتا مظہر ہے۔ یہاں پنجابی ثقافت کی گمشدہ کڑیاں جوڑی جا رہی ہیں۔ بلھے شاہ سے بھگت سنگھ، گُر مکھی سے شاہ مکھی، سکھ تاریخ سے لوک ادب تک۔
پنجابی فلموں کا پوسٹر میوزیم: ایک بصری خزانہسنہ2005 میں قیصر صاحب نے پنجابی فلموں کے نایاب پوسٹرز پر مبنی ایک میوزیم کھولا، جہاں تقسیم سے پہلے کی 35 اور بعد ازاں کی 300 سے زائد فلموں کے پوسٹرز موجود ہیں۔ ان کے بقول اگر ہم یہ سب محفوظ نہ کرتے تو شاید پنجابی فلم کی تاریخ کا کوئی ریکارڈ ہی باقی نہ رہتا۔
وہ ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہیں کہ پہلی بولتی پنجابی فلم مرزا صاحباں کی ہیروئن خورشید بانو تھیں جبکہ شیلا عرف پنڈ دی کڑی میں نور جہاں اور ان کی کزن حیدر باندی نے مرکزی کردار نبھایا اور تینوں کا ہی تعلق قصور سے تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بقول پنجابی فلموں کے پکچوریل میوزیم کے لیے قصور سے زیادہ موزوں جگہ کوئی نہیں۔
کھوج گڑھ میں جین مت سے سکھ روایت تکسال 2017 میں قیصر صاحب کی کتاب ’اجڑے دراں دے درشن‘ منظر عام پر آئی جس میں جین مندروں کی تاریخ کو فکشن کے انداز میں پیش کیا گیا۔ ملک بھر کے سفر کے بعد انہوں نے 25 جین مندروں کو دستاویزی شکل دی۔ ایک ایسا کام جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔
مزید پڑھیں: پنجابی ادب کا درخشاں ستارہ غروب، معروف شاعر تجمل کلیم انتقال کرگئے
کھوج گڑھ میں ان کی لائبریری، تحقیقی کام، رسائل و جرائد اور درجن بھر کتابیں آج بھی پنجابی ادب کے طالبعلموں، محققین اور ثقافت کے متوالوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کا اگلا خواب اس تمام مواد کو ڈیجیٹل کرنا ہے تاکہ دنیا بھر کے پنجابی نوجوان اس سے فائدہ اٹھا سکیں، چاہے وہ گُر مکھی پڑھتے ہوں یا شاہ مکھی۔
اقبال قیصر کا کہنا ہے کہ آج کل ملک میں پنجابی زبان میں کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، پنجابی کتابوں کے پبلشرز موجود ہیں، اسمبلی میں پنجابی زبان میں تقاریر ہوتی ہیں اور سوشل میڈیا پر ہر لہجے، ہر علاقے کا پنجابی مواد وائرل ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسیقی نے دونوں طرف کے پنجابیوں کو جوڑ دیا ہے۔ اب پنجابی صرف بولی نہیں بلکہ ایک مشترکہ ثقافتی شناخت بن چکی ہے۔
پنجابی کھوج گڑھپنجابی کھوج گڑھ اقبال قیصر کا خواب ہے لیکن اس کی چھاؤں میں پلنے والی نسلوں کے لیے یہ ایک ورثہ، تحریک اور روشنی کی علامت بن چکا ہے۔ للیانی کی مٹی آج شعور، تحقیق اور فخر کا استعارہ بن چکی ہے۔
یہ ایک یاد دہانی ہے کہ اگر ایک استاد، تنہا وسائل کے بغیر، پنجابی زبان کو بچانے کا بیڑہ اٹھا سکتا ہے تو ریاست، ادارے اور سماج کیا کچھ نہیں کر سکتے؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقبال قیصر پنجابی بولی پنجابی زبان پنجابی کھوج گڑھ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقبال قیصر پنجابی بولی اقبال قیصر اور ثقافت کے لیے
پڑھیں:
امریکا میں قید کاٹنے والی عافیہ صدیقی کے کیس میں کب کیا ہوا؟
افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں امریکا میں 86 سال کی سزا پانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں اسحاق ڈار کے 25 جولائی کے بیان نے سوشل میڈیا پر کافی تنقید کو دعوت دی اور یہاں تک کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ نے بھی اسحاق ڈار پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ ڈیو پراسیس کا مطلب صرف کسی کو عدالت میں پیش کرنا نہیں بلکہ عافیہ صدیقی کے کیس میں اُن کے 10 حقوق پامال کیے گئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 25 جولائی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی جس میں وزیراعظم نے اُنہیں یقین دلایا کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار نے عافیہ صدیقی کیس سے متعلق اپنے بیان کی وضاحت کردی
25 جولائی کو ہی پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اٹلانٹک کونسل واشنگٹن میں ایک انٹرویو کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کی سزا کے لیے قانونی طریقہ کار کی مثال دیتے ہوئے عافیہ صدیقی کیس کی مثال دی جس پر شدید تنقید کی گئی۔
26 جولائی کو اسحاق ڈار نے اس سلسلے میں ایک وضاحتی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ میرے اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک واشنگٹن میں عمران خان کے کیس کے بارے سوال کے جواب میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کے حوالے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ن لیگ کی حکومتوں کے ادوار میں ہم ہمیشہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے تمام تر سفارتی اور عدالتی معاونت فراہم کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رپیں گے جب تک کہ رہائی کا معاملہ حل نہ ہو جائے۔
انہوں نے کہاکہ ہر ملک کے عدالتی و قانونی طریقہ کار ہوتے ہیں جن کا احترام کیا جاتا ہے چاہے وہ پاکستان ہو یا امریکا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے پر ہماری حکومت کا مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے۔
27 جولائی کو اُنہوں نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں کوئی یہ نہ سکھائے کہ ہم نے عافیہ صدیقی کے لیے کیا کِیا۔ ہم 2015 سے مسلسل اُن کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں۔ میاں نواز شریف نے اُس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما سے اوول آفس میں ملاقات کے دوران عافیہ صدیقی کو پاکستان کی بیٹی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بار بھی میں نے صدر جو بائیڈن کو باقاعدہ دستخط شدہ معافی کی درخواست بھیجی۔
اسحاق ڈار کے اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ نے کہاکہ عافیہ صدیقی کیس کو ڈیو پراسیس آف لا کہنا غلط ہے کیونکہ اِس کیس میں کوئی شواہد موجود نہیں تھے اور جھوٹ بولا گیا تھا۔
لیکن آئیے دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں کب کیا ہوا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بات کی جائے تو وہ 02 مارچ 1972 کو کراچی میں پیدا ہوئیں اور اُنہوں نے امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے نیورو سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
2003 میں وہ پاکستان آئیں اور اس دوران 2003 سے 2008 کے درمیان وہ اپنے بچوں کے ساتھ لاپتا رہیں۔ 2008 میں وہ غزنی افغانستان میں دوبارہ سامنے آئیں اور گرفتار ہوئیں۔ ان کے بارے میں ایک دعوٰی یہ سامنے آتا ہے کہ اس عرصے کے دوران وہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے حراست میں بطور گھوسٹ ڈیٹینی رہیں۔
اُن کے بارے میں ایک دعوٰی یہ کیا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کے رُکن خالد شیخ محمد کی بیوی تھیں۔
عافیہ صدیقی کی گرفتاری
جولائی 2008 غزنی میں پولیس نے گشت کے دوران عافیہ صدیقی کو گرفتار کیا۔ اُنہیں اُس وقت کی افغان پولیس نے گرفتار کیا تھا اور بعد میں امریکی ایف بی آئی نے اُن کی تفتیش کی۔ مبیّنہ طور پر گرفتاری کے وقت ان کے پاس دھماکا خیز مواد بنانے کے فارمولے موجود تھے۔ مبیّنہ طور پر کہا جاتا ہے کہ ایف بی آئی سے دوران تفتیشں اُنہوں نے ایک خاتون اہلکار سے بندوق چھینی اور گولی چلا دی جس سے وہ ہلاک ہو گئی، جبکہ وہاں موجود ایک میل اہلکار نے اُن پر گولی چلائی جس سے وہ زخمی ہوگئیں۔ اس کے بعد اُنہیں امریکا منتقل کردیا گیا۔
امریکہ میں عدالتی کاروائی
2008 میں نیویارک کی ساؤدرن ڈسٹرکٹ میں اُن کے خلاف رسمی طور پر مقدمہ درج کیا گیا۔ 13 جنوری سے 03 فروری 2010 تک اُن کا جج و جیوری ٹرائل ہوا۔ جبکہ 23 ستمبر 2010 کو امریکی اہلکاروں پر حملے کے الزام میں عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی درخواست تاخیر کا شکار کیوں ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے وی نیوز کو بتایا کہ نیویارک کی جس عدالت نے ڈاکٹر عافیہ کو سزا سنائی تھی، اُسی عدالت میں ہم نے ڈاکٹر عافیہ کے رہائی کے لیے درخواست پہلے جولائی میں دائر کرنا تھی لیکن حکومت کی وجہ سے اُس میں تاخیر ہوئی اور اب ممکن ہے ہم اُسے اگست یا ستمبر میں دائر کریں۔
انہوں نے کہاکہ یہ درخواست انسانی بنیادوں پر ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ہوگی اور اِس میں امریکی وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ کی جانب سے اُن 10 حقوق کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کیا جائے گا جو اُنہوں نے لکھے ہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ اِسلام آباد ہائیکورٹ میں ہم نے درخواست دائر کی تھی کہ وفاقی حکومت امریکی عدالت میں اپنا امائیکس بریف داخل کرے، امائیکس بریف کوئی ایسا فرد یا ادارہ ہوتا ہے جو امریکی قانون کے مطابق کسی بھی عدالت میں فریق بن کر اپنی رائے پیش کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت امریکی عدالتوں میں تاثر یہ ہے کہ پاکستان حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کو اس لیے امریکا کے حوالے کیا کہ وہ ملزم تھیں۔ اب پاکستان حکومت جب امریکی عدالت میں اپنا امائیکس بریف داخل کرے گی تو یہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ممد و معاون ثابت ہوگا۔
عمران شفیق نے بتایا کہ اس سال ایک سماعت پر اٹارنی جنرل نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ وفاقی حکومت کو امریکی عدالت میں امائیکس بریف داخل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بعد کہا گیا کہ وفاقی حکومت ایسا نہیں کرے گی۔ اس پر جب اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت سے وجوہات بتانے کو کہا تو جب وجوہات نہیں بتائی گئیں تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی کابینہ کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے تھے۔
عمران شفیق کا کہنا تھا کہ اب وفاقی حکومت اس مقدمے میں تعاون کر رہی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ پاکستانی کی کونسی عدالتوں میں زیر التوا رہا؟
ڈاکٹرعافیہ صدیقی کا کیس زیادہ تر اسلام آباد ہائیکورٹ میں چلا جبکہ اُن کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے کچھ درخواستیں سندھ ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے 21 جولائی کو وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا کہ عدالتی احکامات کے باوجود حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کی صحت، وطن واپسی اور رہائی سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش نہیں کی۔
17 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں ترمیم کی اجازت دے دی جس کو وفاقی حکومت نے یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کیس سے متعلق جو کر سکتے تھے کر چکے ہیں، اور اب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو درخواست میں ترمیم کی اجازت دینا اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا عافیہ صدیقی کیس میں سپریم کورٹ سے رجوع
اس سال 07 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رُکنی بینچ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے افغان شہری شریف اللہ کی امریکا حوالگی بارے سوالات اُٹھا دیے کہ امریکا کے ساتھ ملزمان کی حوالگی سے متعلق باقاعدہ معاہدے کی عدم موجودگی میں شریف اللہ کو کیسے امریکا کے حوالے کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغانستان امریکا امریکی فوجی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سوشل میڈیا عافیہ صدیقی قید وی نیوز