اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی میں ’اسٹڈی موڈ‘ متعارف کرا دیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نمایاں کمپنی اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی میں ’اسٹڈی موڈ‘ کے نام سے ایک نیا فیچر متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد طلبہ کی تنقیدی اور تخلیقی سوچ کو فروغ دینا ہے۔ اس فیچر کے ذریعے طلبہ کو صرف سوالات کے جوابات نہیں دیے جاتے بلکہ اُن کی سمجھ، کارکردگی اور تصورات پر مبنی جوابی سوالات کے ذریعے سیکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اوپن اے آئی کا نیا ویب براؤزر گوگل کروم کے لیے چیلنج کیوں؟
اوپن اے آئی کی نائب صدر برائے تعلیم لیا بیلسکی کے مطابق ’اسٹڈی موڈ‘ طلبہ کو ایک جواب حاصل کرنے والے پلیٹ فارم کے بجائے ایک تعلیمی ساتھی کے طور پر چیٹ جی پی ٹی کے استعمال کی طرف لے جانے کی کوشش ہے۔
Study mode in ChatGPT is designed to be interactive, using Socratic questioning and scaffolded responses to help guide users.
Available to logged-in Free, Plus, Pro, Team users, with availability in ChatGPT Edu coming in the coming weeks.https://t.co/7ZndVHx2OF
— OpenAI (@OpenAI) July 29, 2025
یہ نیا فیچر اوپن اے آئی کی اس کوشش کا حصہ ہے جس کے تحت تعلیمی اداروں میں چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے والے لاکھوں طلبہ کی سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جائے۔ کیونکہ مختلف مطالعات نے یہ واضح کیا ہے کہ اگرچہ چیٹ جی پی ٹی نوجوانوں کے لیے مفید ہو سکتا ہے، لیکن اس کا حد سے زیادہ استعمال تنقیدی سوچ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خبردار! کیا آپ بھی چیٹ جی پی ٹی سے گہرے راز شیئر کرتے ہیں؟
’اسٹڈی موڈ‘ میں چیٹ جی پی ٹی خود طلبہ سے سوالات کرتا ہے تاکہ وہ صرف جوابات پر انحصار نہ کریں بلکہ مفاہمت اور تجزیاتی صلاحیت کو بھی استعمال کریں۔ تاہم، اس فیچر کی افادیت کی کچھ حدود بھی ہیں، کیونکہ طلبہ باآسانی دوبارہ معمول کے چیٹ موڈ میں واپس جا سکتے ہیں۔
As ChatGPT becomes a go-to tool for students, we’re committed to ensuring it fosters deeper understanding and learning.
Introducing study mode in ChatGPT — a learning experience that helps you work through problems step-by-step instead of just getting an answer. pic.twitter.com/B8VbRYJH6r
— OpenAI (@OpenAI) July 29, 2025
فی الحال والدین یا تعلیمی منتظمین کے لیے ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس کے ذریعے طلبہ کو مستقل طور پر ’اسٹڈی موڈ‘ میں رکھا جا سکے، تاہم اوپن اے آئی مستقبل میں ان خصوصیات پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
’اسٹڈی موڈ‘ فی الحال چیٹ جی پی ٹی کے تمام صارفین کے لیے دستیاب ہے، خواہ وہ فری پلان استعمال کر رہے ہوں یا پلس، پرو یا ٹیم پلان۔ اوپن اے آئی جلد ہی اس فیچر کو اپنے ’ایجو‘ سبسکرائبرز کے لیے بھی دستیاب بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ChatGPT google OPENAI we news اسٹڈی موڈ اسٹوڈنٹ اوپن اے آئی تعلیم ٹیکنالوجی چیٹ جی پی ٹی گوگلذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹوڈنٹ اوپن اے ا ئی تعلیم ٹیکنالوجی چیٹ جی پی ٹی گوگل اوپن اے ا ئی چیٹ جی پی ٹی کے لیے
پڑھیں:
تعلیم اور درسگاہوںکے مسائل
ملک اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں کمی کردی گئی جس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وفاق اور صوبوں کی زیرِ انتظام یونیورسٹیوں میں مالیاتی بحران بڑھ گیا ہے مگر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے کی بیوروکریسی کی شاہ خرچیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایچ ای سی کے حوالے سے یہ خبر ذرایع ابلاغ پر خوب اجاگر ہوئی کہ ایچ ای سی کی بااختیار اتھارٹی نے اپنے کنٹریکٹ ملازمین اور ان کی شریک حیات کے لیے ملازمت کے بعد ہیلتھ بینیفٹس جاری رکھنے کی منظوری دیدی ہے۔
ایچ ای سی کے 44 ویں اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پالیسی کے تحت کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین، عام ملازمین سے لے کر چیئرمین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سمیت اعلیٰ افسران جن کی ماہانہ تنخواہیں پانچ لاکھ اور اس سے زیادہ ہیں۔ اس پالیسی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ایک طرف تعلیمی بجٹ کی کمی کے باوجود یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف وفاق اور صوبوں کی زیر نگرانی یونیورسٹیوں میں تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے آئین کے تحت اردو کو قومی زبان قرار دینے کے فیصلے کے تحت کراچی میں قائم وفاقی اردو کالجز کو وفاقی اردو یونیورسٹی کی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا تھا، یوں 2002 میں ایک اسپیشل آرڈیننس کے تحت وفاقی اردو یونیورسٹی قائم ہوئی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی 2017سے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ اردو یونیورسٹی کے 2017سے ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے ارکان واجبات سے محروم ہیں۔ موجودہ اساتذہ اور عملے کو بھی تنخواہ اور رینٹل سیلنگ الاؤنس نہ ملنے جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ریٹائرڈ اساتذہ اور عملے کی کئی ماہ کی پنشن ابھی تک ادا نہیں ہوسکی۔ اس دوران اردو یونیورسٹی کے 10 ریٹائرڈ اساتذہ اور ریٹائرڈ عملے کے 5 اراکین انتقال کرچکے ہیں۔
گزشتہ 6 ماہ کے دوران حاضر سروس ایک سینئر خاتون پروفیسر اور ایک اسسٹنٹ رجسٹرار بھی انتقال کرگئے، یوں 200 سے زائد خاندان مصائب کا شکار ہیں۔ وفاقی انفارمیشن کمیشن کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق اردو یونیورسٹی نے 67 کروڑ روپے کی رقم مختلف بینکوں کے اکاؤنٹس میں ڈپازٹ کی گئی ہے جس پر ہر سال منافع بھی ملتا ہے، مگر معاملہ صرف وفاقی اردو یونیورسٹی کا نہیں بلکہ وفاق کے زیرِ انتظام دیگر یونیورسٹیاں بھی مالیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بعض اوقات مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں میں بھی اسی نوعیت کا بحران ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور عملے کے لوگ بھی کئی کئی دفعہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کو مسلسل ہدایات جاری کی ہیں کہ یونیورسٹیاں نئے وسائل پیدا کریں۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے پاس خطہ اراضی فروخت کرنے، طلبہ کی فیسوں میں اضافہ کرنے اور تعلیمی شعبہ جات کو بند کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے یونیورسٹیوں کو مالیاتی کمک کی فراہمی کے لیے قیمتی اراضی فروخت کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر اس وقت کے ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر بنوری کی شدید مخالفت کی بناء پر اس پالیسی پر عمل نہ ہوسکا۔
ڈاکٹر بنوری کا کہنا تھا کہ اراضی کی فروخت کے معاملات میں لینڈ مافیا کی مداخلت بڑھ جانے کے خدشات ہیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں پر زور دیا کہ طلبہ سے لی جانے والی فیسوں، امتحانات، انرولمنٹ، مارک شیٹ اور ڈگریوں کے اجراء اور دستاویزات کی تصدیق کے لیے وصول کی جانے والی فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا جائے۔ اس فیصلے سے نچلے متوسط طبقے کے طلبہ کے علاوہ متوسط طبقے کے طلبہ بھی متاثر ہوئے۔ بہت سے طالب علموں نے فیس کی رقم نہ ہونے کی بناء پر تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔
گزشتہ سال کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے مختلف پروگراموں میں زیرِ تعلیم 30 سے 40 فیصد طلبہ نے فیس جمع نہیں کرائی تھی۔ فیسوں میں اضافے کے فیصلے سے غریب طلبہ خاندانوں کے طلبہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بلوچستان میں غربت کی لکیر کے نیچے 70 فیصد آبادی زندگی گزار رہی ہے۔ ہر 10 میں سے چوتھا آدمی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بلوچستان میں طلبہ کی اکثریت مختلف اسکالر شپس پر تعلیم حاصل کرتی ہے مگر صوبائی حکومت کے وظائف کی تعداد محدود ہوگئی ہے۔ اب یونیورسٹیاں اپنے فنڈ سے فیس معاف کرنے کے بجائے محکمہ بیت المال سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتی ہیں۔ بیت المال زکوۃ کی رقم سے مخصوص زمرہ جات کے طلبہ کو ملتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں داخلے کی شرح کم ہوئی۔ سرکاری یونیورسٹیاں سوشل سائنس کے مضامین کے علاوہ بیسک سائنس کے بعض مضامین کی تدریس بند کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ اس فیصلے سے اردو، سندھی، بلوچی، پشتو اور براہوی زبان میں تعلیم کے راستے میں مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔
یونیورسٹیوں میں زبانوں کے علم کے علاوہ سماجی علوم اور بیسک سائنس کے شعبوں کے بند ہونے سے نظامِ تعلیم پر سخت منفی نتائج برآمد ہوںگے، اگر ان شعبوں میں تدریس بند رہی تو پھر اسکولوں اورکالجوں میں بنیادی مضامین کی تدریس کے لیے اساتذہ دستیاب نہیں ہوںگے۔ ایک اور رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد کی اہم یونیورسٹیوں میں بیسک سائنس کے مضامین میں طلبہ کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ مختلف زبانوں پر تحقیق کے مراکز کے علاوہ دنیا کے مختلف خطوں کے مسائل پر تحقیق کرنے والے سینٹروں کی بندش سے قومی زبانوں کی ترقی رک جائے گی ۔
وزیر اعظم کو اعلیٰ تعلیم کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر فوری توجہ دینی چاہیے ۔ حکومت کو یونیورسٹیوں کے مالیاتی بحرانوں کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ نئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 300 یونیورسٹیوں میں کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔