فلسطین معاملے پر کاغذی کارروائی سے آگے بڑھنے کی سخت ضرورت ہے، پرواتھنی ہریش
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے نے کہا کہ فلسطینیوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں نتائج کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ حماس کو غزہ میں اپنی حکمرانی ختم کرنی چاہیئے اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا ہونگے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرینہ تنازعے کا مستقل حل تلاش کرنے کے مقصد سے اقوام متحدہ میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا کے بیشتر ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے دوران کئی دہائیوں سے چلے آ رہے اس مسئلے پر مختلف ممالک نے اپنا موقف واضح کیا ہے۔ ہندوستان نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی اور اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کے لئے دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ میں واضح طور پر کہا کہ اسرائیل-فلسطین تنازعہ کو حل کرنے کے لئے جاری عالمی کوششوں کو اب بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے دو ریاستی حل حاصل کرنے پر توجہ دینی چاہیئے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی کو کاغذی حل سے مطمئن نہیں ہونا چاہیئے بلکہ عملی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے پرواتھنی ہریش نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی کانفرنس میں ہونے والی بحث اس بات کا تعین کرتی ہے کہ بین الاقوامی برادری کا ماننا ہے کہ دو ریاستی حل کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس دو ریاستی حل کے ذریعے امن کے قیام کی طرف اب تک کے راستے پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ہریش نے کہا کہ اب ہماری کوششوں کو اس بات پر مرکوز کرنی چاہیئے کہ بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے دو ریاستی حل کیسے لایا جائے اور دونوں لڑنے والی جماعتوں کو ایک دوسرے سے براہ راست رابطہ میں لایا جائے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) میں کہا کہ حمایت کی توثیق ایسے اقدامات کی شکل میں ہونی چاہیئے جو دو ریاستی حل کے راستے کو آسان بنائیں۔ ہماری توجہ اور کوششیں ایسے اقدامات اور ان کے طریقہ کار کی نشاندہی پر ہونی چاہیئے۔ 25 صفحات پر مشتمل نتائج کی دستاویز جس کا عنوان "نیویارک کا اعلامیہ فلسطین کے سوال کے پُرامن حل اور دو ریاستی حل پر ہے" میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیئے اور حماس کو تمام مغویوں کو رہا کرنا چاہیئے۔ 28-30 جولائی کو ہونے والی اس اعلیٰ سطحی کانفرنس کی مشترکہ صدارت سعودی عرب اور فرانس کر رہے ہیں۔
فلسطینیوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں نتائج کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ حماس کو غزہ میں اپنی حکمرانی ختم کرنی چاہیئے اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا ہوں گے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو فوری طور پر غزہ میں کام کرنے کے لئے ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دینی چاہیئے۔ ہندوستان کی جانب سے پیش سفیر ہریش نے کہا کہ اقوام متحدہ کی کانفرنس سے کچھ ورکنگ پوائنٹس سامنے آرہے ہیں اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کاغذی حل سے مطمئن نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ ایسے عملی حل کے حصول کی کوشش کرنی چاہیئے جو ہمارے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں میں واقعی تبدیلی لاسکیں۔ انہوں نے اس "عظیم کوشش" میں تعاون کرنے کے لئے ہندوستان کی مکمل حمایت کا بھی اظہار کیا۔ ہریش نے کہا کہ ہندوستان نے مختصر وقت میں کئے جانے والے اقدامات پر واضح موقف اختیار کیا ہے۔ ان میں فوری جنگ بندی، انسانی بنیادوں پر امداد جاری رکھنا، تمام مغویوں کی رہائی اور بات چیت کا راستہ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ میں ہریش نے کہا کہ دو ریاستی حل کرنی چاہیئے گیا ہے کہ انہوں نے میں کہا کہا گیا کرنے کے کے لئے
پڑھیں:
اقوام متحدہ کانفرنس؛ فلسطینی ریاست کے قیام کیلیے 15 ماہ کا وقت طے، اسرائیل امریکا برہم
نیویارک میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی اقوام متحدہ کی دو ریاستی حل کانفرنس میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے 15 ماہ کا وقت طے کرلیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے تحت دو ریاستی حل کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
دنیا بھر کے 125 سے زائد ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے اور دو ریاستی حل کی طرف پیش قدمی کرے۔
سات صفحات پر مشتمل اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شرکاء نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر ختم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
مسودے میں دو ریاستی حل کے قیام پر زور دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ خطے میں جنگ، قبضے اور نقلِ مکانی سے امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اعلامیہ میں کے مطابق کانفرنس کے شرکاء نے دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 15 ماہ کا وقت مقرر کیا ہے۔
مسودے کے مطابق شرکا نے اسرائیل سے دو ریاستی حل کے لیے اعلانیہ عہد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اجتماعی اقدامات پر اتفاق کیا۔
علاوہ ازیں شرکا نے غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک وقف فنڈ کے قیام کی حمایت بھی کی۔
اعلامیہ کے اہم نکات:
غزہ جنگ کا خاتمہ: حملوں میں معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر اسرائیل اور حماس دونوں کی مذمت کی گئی۔
آزاد فلسطینی ریاست کا قیام: ایک غیر مسلح، خودمختار فلسطین جو اسرائیل کے ساتھ امن سے رہے۔
فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول: غزہ سمیت تمام فلسطینی علاقوں پر فلسطین اتھارٹی کا اختیار تسلیم کیا گیا۔
حماس کا خاتمہ: حماس سے غزہ میں حکومت ختم کرنے اور ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کو سونپنے کا مطالبہ کیا گیا۔
بین الاقوامی سیکیورٹی مشن: اقوام متحدہ کے تحت ایک عبوری مشن فلسطینی شہریوں کی حفاظت اور سیکیورٹی منتقلی کو یقینی بنائے گا۔
ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کی اپیل: تمام اقوام سے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ — بالخصوص ان ممالک سے جنہوں نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
اسرائیل اور امریکا کا ردِ عمل؛اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دو ریاستی حل کانفرنس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ اعلامیہ کے نکات ہماری سیکیورٹی اور قومی مفاد کے منافی ہیں۔
امریکا نے بھی دو ریاستی حل کانفرنس کو غیر موزوں اور غیر مفید قرار دے کر بائیکاٹ کیا تھا۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے دو ریاستی حل کانفرنس کو دہشت گردی کے لیے "آنکھیں بند کرنا" قرار دیا۔