Express News:
2025-09-18@23:29:31 GMT

’’ماں‘‘ ایک منفرد کتاب

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

کیا واقعی ’’کتاب کلچر‘‘ ختم ہوچکا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہوتا تو دھڑا دھڑ کتابیں کیوں چھپ رہی ہوتیں ہے؟ درحقیقت ’’کتاب کلچر‘‘ ختم نہیں ہوا ہے ’’کتاب‘‘ختم ہوچکی ہے یا یوں کہیے کہ کتاب کی ’’حرمت‘‘ ختم ہوچکی ہے اور وہ بھی کتاب ہی کے ہاتھوں۔کہ کتاب کے نام پر ایسی ایسی خرافات چھپنے لگی ہیں جنھیں پڑھنا تو درکنار نام دیکھ کر ہی ابکائیاں آنے لگیں۔

یہاں بھی وہی سلسلہ ہے جو انسانی دنیا میں ہمیشہ سے چلا آرہا ہے، کسی بھی چیز کی مقبولیت پر اس کی نقلیں اور دونمبریاں چل پڑتی ہیں جیسا ہم پاکستان میں بہت سی چیزوں میں دیکھ رہے ہیں ۔جعلسازی اور دونمبری زوروں پر ہے۔یہ کتاب جس کا ذکر ہم کررہے ہیں ، اس کانام ہے ماں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو خود اپنے آپ میں پڑھنے والوں سے خود کو پڑھوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ماں کے بارے میں انسانوں نے بڑے پر زور قسم کے اقوال زرین اور مکالمے بنائے رکھے ہیں لیکن عملی طور پر انسان نے عورت کو کبھی ’’ماں‘‘ نہیں سمجھا ہے۔ اس کی وجہ مرد کا عورت پر برتری کا خناس ہے ورنہ عورت کی باقی ساری حیثتیں عارضی ہیں اور صرف ماں کی حیثیت مستقل ہے۔

دنیا میں جتنی جنگیں ہوئی ہیں، ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی، ان سب میں ممکن ہے کہ بیوی کا شوہر نہ مرتا ہو ، کسی بہن کا بھائی نہ مرتا ہو اور کسی بیٹی کا باپ نہ مرتا ہ و لیکن ایسی جنگ نہ کبھی ہوئی ہے نہ ہوتی ہے نہ ہوگی جس میں ماں کے بیٹے نہ مرتے ہوں۔مطلب یہ دنیا میں بے شمار مرد ایسے ہوسکتے ہیں جن کی بیویاں نہ ہوں، ایسے بھی لاتعداد ہوسکتے ہیں جن کی بہن نہ ہو اور ایسے بھی جن کی بیٹیاں نہ ہوں لیکن ایسا مرد کبھی نہیں ہوا ہے جس کی ’’ماں‘‘ نہ ہو۔ بچے کی جسمانی ضروریات باپ یا مرد کی ذمے داری ہوتی ہے جب کہ اس کی اندرونی’’تعمیر‘‘ ماں کرتی ہے۔

وہ پیٹ سے لے کر دودھ پلانے تک، اپنے ساتھ سلانے، اپنے جسم کی حرارت اس میں منتقل کرنے تک۔اٹھنا بٹھنا،چلنا پھرنا ،کھانا پینا۔یوں کہیے کہ بچے کو انسان بننانے تک سارا کام ماں کا ہوتا ہے۔ جہاں تک اس کی جسمانی ضروریات اور نشوونما کا تعلق ہے تو اس کا متبادل دولت، جائیداد اور گھرانا بھی ہوسکتا ہے لیکن ماں کا متبادل کچھ بھی نہیں۔بوتل کا دودھ، الگ بیڈ روم،نوکروں کا پالن پوسن اس کا متبادل ہرگز نہیں ہوسکتا۔گو بے بی بہتر سینٹرز بچے کو جسمانی ضروریات دے سکتے ہیں، ذہنی اور روحانی تعمیر نہیں۔یہ ایک فرد جو خود کو مرد کہتا ہے۔

 اس نے ہمیشہ عورت کا استحصال کیا ہے ، ہر ہر لحاظ سے اسے انسان کا درجہ نہیں دیا ہے چنانچہ ہزاروں سال سے اسے ’’محدود‘‘ کررکھا ہے جس کی وجہ سے وہی بات یہاں بھی ہوگئی ہے۔جو اشرافیہ نے عوامیہ کے ساتھ کیا ہے کہ اپنے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے عوامیہ کو دماغ کے عدم استعمال کا شکار بنایا ہے چنانچہ عوامیہ اور عورت دونوں دماغی عدم استعمال سے صرف جسم ہوکر رہ گئے،جب کہ اشرافیہ اور مرد کے دماغ کثرت استعمال سے شیطانی بن گئے ہیں۔ چنانچہ عورت کو مرد نے اور عوامیہ کو اشرافیہ نے آج بڑی چالاکی سے ’’اپنے کام‘‘ پر بھی لیا ہے، آزادی نسواں، تعلیم نسواں،برابری اور عورت سب کچھ کرسکتی ہے، وہ مرد سے کسی بھی میدان میں پیچھے یا کم نہیں ہے۔

اس قسم کی باتوں، نعروں، ترانوں اور خیالات نے برین واش اور ہپناٹائز عورت کو باہر نکال کر اپنے حصے کے کام پر لگادیا ہے یعنی اسے مردوں کے برابر کماو بنادیا ہے۔اور اس کا اپنا کام بچے کو انسان بنانااس سے چھڑوا لیا ہے۔وہ فوجی بن رہی ہے، پائیلٹ ، ڈرائیور اور سائنس دان بن رہی ہے، مرد سے کمائی میں آگے بڑھ رہی ہے اور جو کام اس مرد کا ہے وہ کرنے لگی ہے جب کہ اس کا اپنا کام اس سے چھوٹ گیا ہے۔

اس چالاک مرد نے اسے اپنا مددگار تو بنالیا ہے لیکن بچے سے اس کی ماں چھین لی۔چنانچہ پھر ہم روتے رہتے ہیں کہ انسانوں میں انسانیت نہیں رہی، محبت نہیں رہی۔ ہمدردی اور رحم نہیں رہی۔کہاں اور کیسے رہے گی کہ یہ چیزیں ڈالنے والی ماں کو تو آپ نے کماو بنالیا چنانچہ بوتل کے دودھ، نوکروں کی پرورش اور کمرشل تعلیمی ادارے، ڈاکٹر،انجینئر ،افسر، لیڈر وغیرہ تو پیدا کرلیتے ہیں لیکن ان کے اندر انسان نہیں ہوتا۔

جو کتاب اس وقت میرے سامنے پڑی ہے۔ ’’ماں‘‘ اور جس کا ذیلی عنوان ہے۔عظمتوں کی داستاں۔اس میں پر لحاظ سے ماں کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا ہے۔تاریخی لحاظ سے، مذہبی لحاظ سے، سائنسی لحاظ سے نفسیاتی لحاظ سے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ ’’ماں‘‘ ہی ہے جو حیوان کے اندر انسان پیدا کرتی ہے اور جسے ہم نے بدقسمتی سے ایک جسم،ایک کماو مشین، ایک جنسی سمبل بناکر رکھ دیا ہے۔خدا نے انسان کو جس غرض وغائت کے لیے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے، اس غرض وغائت کی تکمیل صرف اور صرف ماں کرتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے اور

پڑھیں:

توجہ کا اندھا پن

مورخہ 4 ستمبر 2025 کو جاوید چوہدری کا ایک کالم بعنوان International Blindness پر لکھا تھا جس میں سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی ’’بے توجہی‘‘ پر بات کی گئی تھی، مغرب کے لوگ اپنی سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی بے توجہی سے تشویش میں مبتلا ہیں۔

 اسی لیے نفسیات دانوں نے ایک نئی تھیوری ’’توجہ کا اندھاپن‘‘ کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کیا تھا، اور ایک آٹھ سالہ بچے کو بطور چائلڈ ایکٹر روم کے سینٹرل پارک میں بٹھا دیا اور چاروں طرف اس کی گمشدگی کے پوسٹر لگا دیے، لیکن سارا دن گزر گیا، لوگ آتے رہے، جاتے رہے، لیکن کسی نے بھی اس بچے کی طرف توجہ نہ دی جو گمشدہ تھا، ایک خاتون نے تو پوسٹر بھی پڑھا اور بچے کے پاس جا کر اس کا موازنہ بھی کیا، لیکن بجائے دیے ہوئے فون نمبر پہ مسنگ بچے کے بارے میں اطلاع دیتی، کندھے اچکائے وہاں سے چلی گئی۔

مجھے یہ کالم پڑھ کر خیال آیا کہ ہماری سوسائٹی بھی توجہ کے اندھے پن کا شکار ہے، ہم بہت بری طرح توجہ کے فقدان یا اندھے پن کا شکار ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ تلاش گمشدہ پر چھپنے والے اشتہاروں پر کسی نے توجہ دی ہو؟ ہم ہر لحاظ سے توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد ایک ایسا شہر ہے جس کے بارے میں ماہرین نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہاں زلزلے کے فالٹ لائن ہے، یہاں زلزلے آ سکتے ہیں۔

پھر سب نے 2008 کا زلزلہ دیکھا ۔ گزشتہ سال جب میں اسلام آباد اپنے بیٹے کے پاس گئی، تو وہ شام کو مجھے اور بیوی بچوں کو لانگ ڈرائیو پر لے گیا، تب میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بلند و بالا فلیٹ بنائے جا رہے ہیں، خاص کر چکری روڈ کے ہر جگہ فلیٹ ہی فلیٹ نظر آئے، ہاؤسنگ اسکیمیں نظر آئیں، درخت کاٹے گئے اور پہاڑوں کو توڑا گیا، اور بنگلوز بن گئے، فلیٹ بن گئے، اسے توجہ کا اندھا پن ہی کہیں گے کہ درختوں کے کاٹنے سے پتھر اپنی جگہ چھوڑیں گے اور اگر خدا نخواستہ کلاؤڈ برسٹ ہوا اور بے تحاشا بارش سے سیلاب آ گیا تو کیا ہوگا۔ جب میں نے اپنے بیٹے سے یہ بات کی کہ زلزلوں والی زمین پر بلند و بالا فلیٹ تعمیر کرنے کی اجازت محکمے نے کیوں دے دی؟ تو وہ بولا ’’امی! آپ جانتی تو ہیں کہ اس ملک میں سب کام ہو جاتے ہیں۔‘‘

اس نے ٹھیک ہی کہا تھا، جب کوئی امیر آدمی پیسہ خرچ کرکے سینیٹر بن سکتا ہے تو کیا نہیں ہو سکتا؟ اس کی بلا سے شہر ڈوب جائے، اس کی جیب خالی نہ ہو۔ مجھے اسلام آباد بالکل پسند نہیں ہے، ایک عجیب سی بے چینی طاری رہتی ہے۔ جب کبھی کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہوا تو یہ شہر سمٹا ہوا لگتا تھا، کانفرنس میں جاتے تھے تو وہیں سے واپس آ جاتے تھے، لیکن جب بیٹے کے پاس جاتی تھی تو وہ گھمانے لے جاتا تھا، اس شہر کی ایک ایک تفریح گاہ میری دیکھی ہوئی ہے، جب وہ گزشتہ سال جون 24 میں لانگ ڈرائیو پر لے کر گیا تو بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر میرا تو دل دہل گیا۔ سب سے زیادہ مجھے ان لوگوں کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی چاہا جنھوں نے ان فلیٹوں اور بستیوں میں بکنگ کروا کے رہائش اختیار کرنے کا سوچا ہے۔ یہ بھی توجہ کا زوال یا اندھا پن ہے ۔ لاہور میں راوی کنارے بنائی گئی بستی کا جو حال ہوا ہے، اس کے بعد لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ بقول دلاور فگار:

لے کے رشوت پھنس گیا ہے

دے کے رشوت چھوٹ جا

اب آتے ہیں توجہ کے ایک اور فقدان کی طرف، یہ ہے بزرگ شہریوں اور معمر افراد کے تعلق سے بیگانگی۔ کسی بھی دفتر میں، کسی بینک میں یا کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے میں کہیں بھی آپ چلے جائیں، بزرگ شہری اور معمر افراد دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی نشست نہیں، کوئی علیحدہ کاؤنٹر نہیں۔ ایک بار میں نے ایک بینک منیجر سے یہ کہا کہ آپ سینئر سٹیزن کے لیے علیحدہ کاؤنٹر کر دیں تو انھوں نے بڑی بدتمیزی سے جواب دیا کہ لوگ صرف بینکوں سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ وہ سینئر سٹیزن کا خیال رکھیں۔

پھر ایک اسی بینک کی دوسری برانچ سے جہاں میرا اکاؤنٹ ہے یہی سوال کیا تو منیجر آپریشن بہت شائستگی سے بولے کہ ’’میڈم! ہمارے پاس عملہ کم ہے، ورنہ پہلے یہاں بھی ایک علیحدہ کاؤنٹر ہوتا تھا‘‘ جسے میں نے بھی دیکھا تھا، لیکن اب صرف لکڑی کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا ضرور ایک طرف رکھا نظر آتا ہے جس پر لکھا ہے، معذور اور بزرگ شہریوں کے لیے۔زندگی کے جس شعبے میں بھی آپ نظر دوڑائیں توجہ کا اندھا پن ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ہجرت کے بعد معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے، اس کے اثرات دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں اور جب سے موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے تباہی مچائی ہے تب سے توجہ کا فقدان بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک اپارٹمنٹ میں جو اٹھائیس فلیٹوں پر مشتمل ہے، اس میں ایک خاتون تنہا رہتی ہیں۔

ملازمہ کام کرکے چلی جاتی ہے، بچے ملک سے باہر ہیں، ایک فلور پر چار فلیٹ ہیں، لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ان خاتون سے یہی پوچھ لیں کہ انھیں بازار سے کچھ منگوانا تو نہیں ہے، یا ان کی طبیعت ٹھیک ہے۔ انھیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ بچے بہتر مستقبل کے لیے بیرون ملک چلے گئے، ماں باپ اکیلے رہ گئے، اگر صاحب حیثیت ہیں تو ملازمہ رکھ لی یا چوکیدار کو پیسے دے کر جو کچھ منگوانا ہو منگوا لیا، ورنہ تنہا پڑے رہے۔ سڑکوں اور شاپنگ مالز کے گیٹ پر آپ نے موٹر سائیکلیں اور کاریں کھڑی دیکھی ہوں گی، مجال ہے جو کسی کو خیال آ جائے کہ اس نے غلط پارکنگ کی ہے۔

چند ماہ کے دوران ملک میں برساتی اور سیلابی صورت حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اب رخ سندھ کی طرف ہے لیکن خواہ اسلام آباد ہو یا کراچی، نالوں پر بلڈنگیں بنائی جا رہی ہیں، کراچی تو ویسے بھی سطح سمندر سے نیچے ہے۔ سمندر کے کنارے ہوٹل بن گئے ہیں، نالے بند ہو گئے ہیں، اگر کراچی میں کلاؤڈ برسٹ ہوا تو یہ خدائی قہر ہوگا۔

مجھے تو لگتا ہے کہ بادلوں کا پھٹنا، سیلاب کا آنا، بستیاں اجڑنا سب اسی وجہ سے ہے کہ ہم فطرت کے خلاف جا رہے ہیں، جب آبی گزرگاہیں بند ہو جائیں گی، دریاؤں کی زمین پر بستیاں بنا دی جائیں گی، نالے بند کر دیے جائیں گے تو یہ پانی کہاں جائے گا؟ باران رحمت صرف ایک نقطے کے فرق سے ’’ زحمت‘‘ بن جاتا ہے۔ ہماری قوم ہر معاملے میں توجہ کے اندھے پن کا شکار ہو رہی ہے۔ ہم ایک بے حس قوم ہیں اور وہ قوم ہیں جو جس شاخ پہ بیٹھتی ہے اسی پر کلہاڑا چلاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • توجہ کا اندھا پن
  • انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
  • افروز عنایت کی کتاب ’’سیپ کے موتی‘‘ شائع ہوگئی
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش
  • ’اب خود کو انسان سمجھنے لگا ہوں‘، تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے خود سے متعلق ایسا کیوں کہا؟
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • ’ کیا میں ایسی عورت لگتی ہوں؟‘ تنوشری دتہ نے 1 کروڑ 65 لاکھ روپے کی بگ باس آفر فوراً  ٹھکرا دی
  • کتاب ہدایت