کیا واقعی ’’کتاب کلچر‘‘ ختم ہوچکا ہے؟ اگر واقعی ایسا ہوتا تو دھڑا دھڑ کتابیں کیوں چھپ رہی ہوتیں ہے؟ درحقیقت ’’کتاب کلچر‘‘ ختم نہیں ہوا ہے ’’کتاب‘‘ختم ہوچکی ہے یا یوں کہیے کہ کتاب کی ’’حرمت‘‘ ختم ہوچکی ہے اور وہ بھی کتاب ہی کے ہاتھوں۔کہ کتاب کے نام پر ایسی ایسی خرافات چھپنے لگی ہیں جنھیں پڑھنا تو درکنار نام دیکھ کر ہی ابکائیاں آنے لگیں۔
یہاں بھی وہی سلسلہ ہے جو انسانی دنیا میں ہمیشہ سے چلا آرہا ہے، کسی بھی چیز کی مقبولیت پر اس کی نقلیں اور دونمبریاں چل پڑتی ہیں جیسا ہم پاکستان میں بہت سی چیزوں میں دیکھ رہے ہیں ۔جعلسازی اور دونمبری زوروں پر ہے۔یہ کتاب جس کا ذکر ہم کررہے ہیں ، اس کانام ہے ماں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جو خود اپنے آپ میں پڑھنے والوں سے خود کو پڑھوانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماں کے بارے میں انسانوں نے بڑے پر زور قسم کے اقوال زرین اور مکالمے بنائے رکھے ہیں لیکن عملی طور پر انسان نے عورت کو کبھی ’’ماں‘‘ نہیں سمجھا ہے۔ اس کی وجہ مرد کا عورت پر برتری کا خناس ہے ورنہ عورت کی باقی ساری حیثتیں عارضی ہیں اور صرف ماں کی حیثیت مستقل ہے۔
دنیا میں جتنی جنگیں ہوئی ہیں، ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی، ان سب میں ممکن ہے کہ بیوی کا شوہر نہ مرتا ہو ، کسی بہن کا بھائی نہ مرتا ہو اور کسی بیٹی کا باپ نہ مرتا ہ و لیکن ایسی جنگ نہ کبھی ہوئی ہے نہ ہوتی ہے نہ ہوگی جس میں ماں کے بیٹے نہ مرتے ہوں۔مطلب یہ دنیا میں بے شمار مرد ایسے ہوسکتے ہیں جن کی بیویاں نہ ہوں، ایسے بھی لاتعداد ہوسکتے ہیں جن کی بہن نہ ہو اور ایسے بھی جن کی بیٹیاں نہ ہوں لیکن ایسا مرد کبھی نہیں ہوا ہے جس کی ’’ماں‘‘ نہ ہو۔ بچے کی جسمانی ضروریات باپ یا مرد کی ذمے داری ہوتی ہے جب کہ اس کی اندرونی’’تعمیر‘‘ ماں کرتی ہے۔
وہ پیٹ سے لے کر دودھ پلانے تک، اپنے ساتھ سلانے، اپنے جسم کی حرارت اس میں منتقل کرنے تک۔اٹھنا بٹھنا،چلنا پھرنا ،کھانا پینا۔یوں کہیے کہ بچے کو انسان بننانے تک سارا کام ماں کا ہوتا ہے۔ جہاں تک اس کی جسمانی ضروریات اور نشوونما کا تعلق ہے تو اس کا متبادل دولت، جائیداد اور گھرانا بھی ہوسکتا ہے لیکن ماں کا متبادل کچھ بھی نہیں۔بوتل کا دودھ، الگ بیڈ روم،نوکروں کا پالن پوسن اس کا متبادل ہرگز نہیں ہوسکتا۔گو بے بی بہتر سینٹرز بچے کو جسمانی ضروریات دے سکتے ہیں، ذہنی اور روحانی تعمیر نہیں۔یہ ایک فرد جو خود کو مرد کہتا ہے۔
اس نے ہمیشہ عورت کا استحصال کیا ہے ، ہر ہر لحاظ سے اسے انسان کا درجہ نہیں دیا ہے چنانچہ ہزاروں سال سے اسے ’’محدود‘‘ کررکھا ہے جس کی وجہ سے وہی بات یہاں بھی ہوگئی ہے۔جو اشرافیہ نے عوامیہ کے ساتھ کیا ہے کہ اپنے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے عوامیہ کو دماغ کے عدم استعمال کا شکار بنایا ہے چنانچہ عوامیہ اور عورت دونوں دماغی عدم استعمال سے صرف جسم ہوکر رہ گئے،جب کہ اشرافیہ اور مرد کے دماغ کثرت استعمال سے شیطانی بن گئے ہیں۔ چنانچہ عورت کو مرد نے اور عوامیہ کو اشرافیہ نے آج بڑی چالاکی سے ’’اپنے کام‘‘ پر بھی لیا ہے، آزادی نسواں، تعلیم نسواں،برابری اور عورت سب کچھ کرسکتی ہے، وہ مرد سے کسی بھی میدان میں پیچھے یا کم نہیں ہے۔
اس قسم کی باتوں، نعروں، ترانوں اور خیالات نے برین واش اور ہپناٹائز عورت کو باہر نکال کر اپنے حصے کے کام پر لگادیا ہے یعنی اسے مردوں کے برابر کماو بنادیا ہے۔اور اس کا اپنا کام بچے کو انسان بنانااس سے چھڑوا لیا ہے۔وہ فوجی بن رہی ہے، پائیلٹ ، ڈرائیور اور سائنس دان بن رہی ہے، مرد سے کمائی میں آگے بڑھ رہی ہے اور جو کام اس مرد کا ہے وہ کرنے لگی ہے جب کہ اس کا اپنا کام اس سے چھوٹ گیا ہے۔
اس چالاک مرد نے اسے اپنا مددگار تو بنالیا ہے لیکن بچے سے اس کی ماں چھین لی۔چنانچہ پھر ہم روتے رہتے ہیں کہ انسانوں میں انسانیت نہیں رہی، محبت نہیں رہی۔ ہمدردی اور رحم نہیں رہی۔کہاں اور کیسے رہے گی کہ یہ چیزیں ڈالنے والی ماں کو تو آپ نے کماو بنالیا چنانچہ بوتل کے دودھ، نوکروں کی پرورش اور کمرشل تعلیمی ادارے، ڈاکٹر،انجینئر ،افسر، لیڈر وغیرہ تو پیدا کرلیتے ہیں لیکن ان کے اندر انسان نہیں ہوتا۔
جو کتاب اس وقت میرے سامنے پڑی ہے۔ ’’ماں‘‘ اور جس کا ذیلی عنوان ہے۔عظمتوں کی داستاں۔اس میں پر لحاظ سے ماں کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا ہے۔تاریخی لحاظ سے، مذہبی لحاظ سے، سائنسی لحاظ سے نفسیاتی لحاظ سے ثابت کیا گیا ہے کہ یہ ’’ماں‘‘ ہی ہے جو حیوان کے اندر انسان پیدا کرتی ہے اور جسے ہم نے بدقسمتی سے ایک جسم،ایک کماو مشین، ایک جنسی سمبل بناکر رکھ دیا ہے۔خدا نے انسان کو جس غرض وغائت کے لیے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے، اس غرض وغائت کی تکمیل صرف اور صرف ماں کرتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہے اور
پڑھیں:
تجدید وتجدّْد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
3
مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔
متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔
تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)
آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔
الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔
غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔
(جاری)