کمپٹیشن کمیشن کے مختلف عدالتوں میں بیک لاگ میں 40 فیصد کمی
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
اسلام آباد:
کمپٹیشن کمیشن کے مختلف عدالتوں میں بیک لاگ میں 40 فیصد کمی سے زیر التوا مقدمات 567 سے کم ہو کر 223 رہ گئے۔
مقدمات کے فیصلوں کے نتیجے میں جرمانوں کی مد میں 36 کروڑ روپے ریکور کیے گئے۔
اپیلٹ ٹربیونل میں بیک لاگ 58 فیصد کم ہوا، 121 مقدمات کے فیصلے سنائے گئے۔ اپلیٹ ٹربیونل میں زیر التوا مقدمات صرف 89 رہ گئے۔
لاہور ہائیکورٹ نے 39 فیصلے سنائے جس سے بیک لاگ میں 78 فیصد کمی ہوئی۔ سندھ ہائیکورٹ نے 40 مقدمات کے فیصلے سنائے جس کے سبب بیک لاگ 61 فیصد کم ہوگیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 13 کیسز نمٹائے، جس سے بیک لاگ 43 فیصد کم ہوا۔
سپریم کورٹ نے 11 مقدمات نمٹاتے ہوئے اہم فیصلے سنائے۔ عدالت عظمیٰ نے کمپٹیشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے متعلق 171 کیسز یکجا کر دیے۔
سپریم کورٹ کے مطابق کمپٹیشن کمیشن جائزہ کے لئے کسی بھی کمپنی سے معلومات طلب کر سکتا ہے، کمپٹیشن کمیشن کی کارروائی کو مکمل ہونے سے قبل عدالتوں میں چیلنچ نہیں کیا جا سکتا۔ کمپٹیشن کمیشن کو معلومات طلب کرنے کے لیے جواز فراہم کرنے کی ضرورت نہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کمپٹیشن کمیشن فیصلے سنائے فیصد کم
پڑھیں:
امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری کردہ وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کے ایک اہم حصے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق عدالت نے قرار دیا ہے کہ وفاقی سطح پر ووٹ ڈالنے کے لیے شہریوں سے شہریت کا ثبوت طلب کرنا آئین کے منافی ہے اور صدرِ مملکت کو ایسا حکم دینے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال مارچ میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ شرط عائد کی تھی کہ امریکا میں ووٹ ڈالنے والے ہر شہری کو اپنی شہریت کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ اس اقدام سے غیر قانونی تارکین وطن کی ووٹنگ میں مبینہ مداخلت روکی جا سکے گی، تاہم عدالت نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ امریکی آئین کے تحت ووٹنگ کے اصولوں اور اہلیت کا تعین صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدرِ مملکت کو اس بارے میں کسی نئی پابندی یا شرط لگانے کا اختیار حاصل نہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ووٹ کا حق بنیادی جمہوری اصول ہے، جس پر انتظامی اختیارات کی بنیاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
سیاسی ماہرین کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ امریکی صدارتی انتخابات سے قبل انتخابی قوانین پر جاری بحث کو مزید شدت دے گا۔ ریپبلکن پارٹی کے حلقے اس فیصلے کو غلط سمت میں قدم قرار دے رہے ہیں، جبکہ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے حقِ رائے دہی کے تحفظ کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔
مبصرین کے مطابق ٹرمپ کا یہ اقدام انتخابی شفافیت کے نام پر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش تھی جب کہ مخالفین کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مقصد اقلیتوں اور کم آمدنی والے طبقے کے ووٹ کو محدود کرنا تھا، جو زیادہ تر ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔