جرمنی میں شدت پسندی کے واقعات کا سدباب کیسے ممکن؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جولائی 2025ء) چار جولائی 2025 کو ہینوور کے قریب آرنم میں ایک 26 سالہ نرس رحمہ عائد کو ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کے الزام میں مقتولہ کے ایک جرمن ہمسائے کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ اس علاقے کے رہائشی گواہ ہیں کہ یہ ہمسایہ 26 سالہ مقتولہ کو حجاب پہننے کی وجہ سے پہلے بھی ہراساں کرتا رہتا تھا۔
رحمہ تیونس سے جرمنی ایک بہتر مستقبل کے خواب لے کر آئی تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے آگے بڑھنے اور محفوظ مستقبل کی تعمیر کی کوششوں میں وہ اپنی جان گنوا بیٹھیں۔ اس واقعے سے علاقے کی مسلم کمیونٹی میں خوف اور غصہ پایا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر اس واقعے کی مذمت کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ٹھوس اقدامات بھی زیر بحث ہیں۔
(جاری ہے)
رحمہ کی والدہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کی بیٹی نے بارہا ایک پڑوسی سے خوف کا اظہار کیا تھا، جو اکثر ان کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا اور باقاعدہ ڈرانے کی کوشش کرتا تھا۔
مقتولہ کے قریبی دوستوں نے بھی تصدیق کی ہے کہ رحمہ کا حجاب پہننے کا انتخاب مسلسل تناؤ کا باعث رہا مگر بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود رحمہ نے کبھی حجاب ترک کرنے پر غور نہیں کیا۔چار جولائی کی بدقسمت صبح رحمہ کے گھر سے طرف سے چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دیں اور ایمرجنسی سروسز کو فورا بلایا گیا مگر ان کے پہنچنے تک انہیں صرف خون میں لت پت بے جان لاش ملی۔
مقتولہ کے سینے اور کندھے پر چھریوں کے متعدد زخم پائے گئے۔ عینی شاہدین نے ایک 31 سالہ جرمن شخص کو خون کے چھینٹوں سے داغدار دیکھا، جسے پولیس نے فوری گرفتار کر لیا اور تفشیش جاری ہے۔رحمہ کا قتل یورپ میں بڑھتے ہوئے کشیده ماحول میں ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ہینوور میں نیٹ ورک اگینسٹ فیمسائڈ نامی تنظیم کے زیر انتظام ایک احتجاج کا انتظام کیا گیا، جس میں اس قتل کی بھرپور مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ اس جرم کو واضح طور پر تسلیم کیا جائے اور مجرم کو سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
یہ ہولناک قتل اپنی طرز کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ جرمنی میں بڑھتے ہوئے چاقو کے حملوں، مذہبی شدت پسندی اور تارکین وطن کی حفاظت سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے۔جرمن اخبار بلڈ کی جانب سے شائع کردہ جرائم کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں روزانہ اوسطاﹰ 79 مجرمانہ نوعیت کے حملے ہوتے ہیں۔ جرمن پولیس نے 2024ء میں چاقو کے حملوں سے متعلق ہزاروں جرائم درج کیے ہیں اور چاقو حملوں میں شدید زخمی ہونے والوں کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان حملوں کو عام طور پر انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند سوچ قرار دیا جاتا ہے، جس میں مختلف رنگ نسل اور مذہب کے لوگوں کے لیے عدم برداشت پائی جاتی ہے۔لوئر سیکسنی کو عمومی طور پر ایک متنوع اور تمام رنگ و نسل کے افراد کے لیے محفوظ ریاست سمجھا جاتا ہے۔ اس ریاست میں شدت پسندی کا ایسا ہولناک واقعہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے بہت پریشان کن ہے۔
جرمن حکومت کی طرف سے بھی اس نسل پرستی اور مذہبی شدت پسندی کو روکنے کے لیے مزید اقدامات اور فعال کردار کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کی طرف سے چاقو یا چھری رکھنے سے متعلق سخت قوانین بنانے پر ہمیشہ زور دیا جاتا ہے مگر عام طور پر ان تمام قوانین کو ناقابل عمل تصور کیا جاتا ہے۔چاقو اور چھری ایک روزمرہ استعمال کی چیز ہے، جو ہر گھر میں پائی جاتی ہے، اس ناگزیر گھریلو اوزار پر پابندی لگانا آسان نہیں ہے اور پابندی کا یہ اقدام ایک عام امن پسند شہری کی زندگی بھی مشکل کر سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قوانین سزاؤں اور پابندیوں پہ توجہ مرکوز رکھنے کے ساتھ ساتھ اس شدت پسندی کے مسئلے کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ رحمہ جو انسانی خدمت کے عظیم پیشے کو سیکھنے اور لوگوں کی مدد کرنے کی نیت سے جرمنی آئی تھیں ان کے لیے دل میں اس قدر نفرت رکھنا یقینا کسی بڑی گہری اور تشویش ناک بیماری کی علامت ہے۔ جرمن معاشرہ نسل پرستی اور مذہبی نفرت کو کسی صورت قابل قبول نہیں سمجھتا وہاں لوگوں کے دلوں میں اتنی گہری بدگمانی کیوں پائی جا رہی ہے کہ ایک حجاب جیسے بے ضرر انفرادی فیصلے کومذہبی نفرت کی بھینٹ چڑھنا پڑا۔
دوسرے ممالک سے آئی ہوئی خواتین اکثر اسے ایک بہت مثبت نقطہ گردانتی ہیں کہ جرمنی میں کسی کے پریشان کرنے کی صورت میں خاتون کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا جب کہ ہمارے ہاں اکثر زور اسی پر رہتا ہے کہ خاتون نے کیا پہن رکھا تھا، کس وقت گھر سے نکلی تھی، کس کے ساتھ گئی تھی اور کسی نہ کسی طرح ان کا اپنا قصور ضرور ہوگا۔ جبکہ جرمنی میں ان سب سوالات سے بالاتر ہو کر توجہ صرف مجرم پر رکھی جاتی ہے اور اس کو سزا دی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خواتین آزادی اور سکون سے سانس لے سکتی ہیں۔
ایسے میں رحمہ کا قتل اس یقین اور بھروسے کے بالکل برعکس ہے۔ یہ تو بات وہیں آ کر ٹھہر گئی کہ کہیں خاتون کو اس لیے پریشان کیا گیا کہ کیونکہ اس نے حجاب نہیں پہنا تھا اور یہاں اس لیے قتل کر دیا گیا کہ کیونکہ اس نے حجاب پہنا تھا۔ یہ صرف مذہبی شدت پسندی ہی نہیں بلکہ حقوق نسواں کی بھی بڑے پیمانے پر پامالی ہے، جو پہناوے کے انتخاب کا بنیادی حق چھین رہی ہے۔ریلوے اسٹیشنوں، ٹرام اور بس اسٹینڈوں، سپر مارکیٹوں تقریباﹰ ہر جگہ چاقو کے حملوں کی بری خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اس لیے انفرادی طور پر ایسی تمام جگہوں پر چوکنا رہنا اور کسی بھی خطرے کو محسوس کرتے ہی انتظامیہ کو فوری اطلاع کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر سکول دفتر یا ہمسائے میں کوئی بھی پریشان کر رہا ہو تو اس کی فوری طور پر شکایت کرنا نہایت اہم قدم ہے۔
حکومت کی جانب سے دفاتر، کھیل اور خاص کر میڈیا میں مزاح سے لے کے سنجیدہ گفتگو تک نسل پرستی، مذہبی نفرت اور رنگ کی تفریق پر صفر رواداری لاگو کرنا سب سے اہم ہے۔ ان عوامی سماجی مقامات پر بڑھتے ہوئے حملوں کی پیش نظر سیلف ڈیفنس کی تربیت کو بھی قومی سطح پر عام کرنا ضروری ہے۔ خواتین کے لیے بھی بالخصوص ایسے حفاظتی پروگرامز، کورسز اور آگاہی کے مواقع فراہم کرنا ایک کارآمد عمل ہو سکتا ہے۔
مسلم کمیونٹی کو بھی اس بڑھتے ہوئے اسلام و فوبیا سے لڑنے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ آپس میں متحد رہنا، بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور پرامن اور ذمہ دار شہری بننا ضروری ہے۔ بعض اوقات دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے شہری قوانین کو سنجیدگی سے نہیں سمجھتے اور کوئی معمولی قانون شکنی بھی ان کو معاشرے اور پولیس کی نظر میں مشتبہ بنا دیتی ہے۔
تاہم ایک دوسرے کی ایمانداری سے رہنمائی کرنا اور راہ راست دکھانے کی کوشش بھی ہمارا فرض ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی میل جول میں مسلمانوں کے خلاف دقیانوسی تصورات کو چیلنج کریں اور کوئی بھی ایسا مذاق زبان یا رویہ جو کہ امتیازی ہے اور اسلامو فوبیا کو فروغ دے سکتا ہے اس کے خلاف ضرور آواز بلند کریں۔ امتیازی سلوک کی نشاندہی کرنے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے بھی قوانین کو اور اپنے حقوق کو جاننا انتہائی اہم ہے۔اپنے حقوق کی واضح آگاہی کے لیے فعال رہیں، جس میں ملکی زبان سیکھنا سب سے اہم ہے۔ تمام مذاہب اور ممالک سے متعلق صرف قابل احترام جامع گفتگو کی حوصلہ افزائی کریں، جو افہام و تفہیم کو فروغ دے۔ اپنے بنیادی انسانی حقوق پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں، جن میں احترام اور مذہبی آزادی سرفہرست ہیں۔ ہم سب کو ایک بھرپور مشترکہ کوشش کرنی ہے کہ رحمہ عائد کبھی فراموش نہ ہوں اور نہ ہی کبھی یہ ظالمانہ جان لیوا قصہ کسی اور کے ساتھ دہرایا جائے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بڑھتے ہوئے جاتی ہے جاتا ہے کے ساتھ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ہمیں بجلی کے بحران کا مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا،شرجیل انعام میمن
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 جولائی2025ء)سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ ہر دورِ اسمبلی میں کے الیکٹرک، حیسکو اور سیپکو کے خلاف قراردادیں پیش کی جاتی رہی ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ متعلقہ اداروں کے حکام کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی میں رہنے والے شہریوں کے لیے سندھ حکومت نے سولر سسٹم کی فراہمی کا کام شروع کیا ہے، تاہم یہ مستقل حل نہیں، ہمیں بجلی کے بحران کا مستقل اور پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا، کیونکہ یہ ملک ہم سب کا ہے۔شرجیل انعام میمن نے تجویز دی کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں پری پیڈ میٹرز کا نظام متعارف کروائیں تاکہ نہ صرف شکایات کا ازالہ ہو سکے بلکہ بجلی چوری جیسے مسائل سے بھی نجات ملے۔(جاری ہے)
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ یا تو کمپنیاں پری پیڈ میٹرز نصب کریں، یا پھر عوام کو اجتماعی سزا دینے کا سلسلہ بند کریں۔ انہوں نے زور دیا کہ کے الیکٹرک، حیسکو اور سیپکو جیسے اداروں کو اس طرز کا موثر میکنزم اپنانا پڑے گا تاکہ صارفین کو انفرادی بنیاد پر بجلی کی فراہمی ممکن ہو سکے۔
شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ جب ہر شخص کے پاس پری پیڈ کنیکشن ہوگا تو کوئی شکایت باقی نہیں رہے گی۔ انہوں نے وفاقی حکومت، وزیر اعظم اور دیگر متعلقہ حکام سے پرزور اپیل کی کہ بجلی کے نادہندہ علاقوں کے نام پر پورے شہر یا علاقے کو اجتماعی سزا دینا بند کی جائے، کیونکہ جو صارف بل باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، اسے بجلی چوری کرنے والوں کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ بجلی بحران کے خاتمے اور شفاف تقسیم کے لیے پری پیڈ میٹرز کا نظام ہی واحد حل ہے۔