روس میں زلزلہ کے بعد سونامی وارننگ سے آفات بارے بروقت آگہی کی اہمیت اجاگر
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 31 جولائی 2025ء) گزشتہ رات روس کے مشرقی ساحل کے قریب سمندر میں 8.8 شدت کا زلزلہ آنے کے بعد سونامی کا انتباہ جاری کیا گیا اور اس سے دنیا بھر میں قدرتی آفات سے بروقت آگاہی کے نظام کی اہمیت ایک مرتبہ پھر نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔
اس زلزلے کے فوری بعد بحر الکاہل کے تمام ساحلی ممالک میں سونامی کے بارے میں اطلاعات کی فراہمی کے نظام فعال ہو گئے۔
زلزلے سے پیدا ہونے والی سمندری لہریں 1,000 کلومیٹر کے فاصلے پر جاپان تک بھی پہنچیں جہاں ساحلی علاقوں میں جوہری تنصیبات کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے۔ Tweet URLیہ لہریں امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا اور ہوائی کے علاوہ چین، فلپائن، انڈونیشیا، نیوزی لینڈ، پیرو اور میکسیکو کے ساحلوں سے بھی ٹکرائیں جہاں لوگوں کو سونامی کے خطرے سے خبردار کیا جا چکا تھا۔
(جاری ہے)
جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) نے بتایا ہے کہ زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں جاپان کے ساحل پر واقع فوکوشیما جوہری مرکز کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ 2011 میں زیرآب آنے والے ایک زلزلے نے اس پلانٹ کو بری طرح نقصان پہنچایا تھا۔
قدرتی آفات کے خطرات کو محدود رکھنے سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ڈی آر آر) نے تصدیق کی ہے کہ زلزلہ آنے سے چند ہی منٹ کے بعد اس بارے میں انتباہ جاری کر دیے گئے تھے۔
اگرچہ اب حکام نے بتایا ہے کہ خطرے کی شدت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن لوگوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ سمندری لہروں کے معمول پر آنے تک پناہ گاہوں میں رہیں۔سونامی سے لاحق خطراتقدرتی آفات سے لاحق خطرات کو محدود رکھنے کے امور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندہ خصوصی کمال کشور نے یو این نیوز کو بتایا ہے کہ 8.
ایسے زلزلے سے پیدا ہونے والی سونامی کی لہریں ایک سے دوسرے ساحل تک تیزی سے سفر کرتی ہیں۔ 2004 میں بحر ہند میں آنے والا سونامی اس کی نمایاں مثال ہے جس سے پیدا ہونے والی لہروں نے بہت سے علاقوں میں تباہی مچا دی تھی اور اس میں دو لاکھ 30 ہزار سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات سے متعلق معلومات کا تبادلہ نہ ہونے کی صورت میں لوگوں کو ان کے بارے میں بروقت خبردار کرنا ممکن نہیں ہوتا جس سے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں اور بنیادی ڈھانچے کے نقصان کا خدشہ رہتا ہے۔
معلومات کے تبادلے کی ضرورت'یو این ڈی آر آر' دنیا بھر میں قدرتی آفات سے بروقت آگاہی کے نظام کی موجودگی یقینی بنانے کے لیے کام کرتا ہے جسے عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) اور اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) کے بین الحکومتی بحری جغرافیائی کمیشن (آئی او سی) کا تعاون بھی حاصل ہے۔
کمال کشور نے بتایا کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک تہائی لوگوں کے لیے یہ نظام دستیاب نہیں ہے جن میں بیشتر کا تعلق کم ترین ترقی یافتہ اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ سونامی کی روک تھام کے لیے کثیرالفریقی اقدامات ضروری ہیں جن میں لہروں کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات کا تبادلہ بھی شامل ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے قدرتی آفات سے سونامی کے کے لیے
پڑھیں:
تعوُّذات: اہمیت و فوائد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ذخیرۂ احادیث کو دیکھا جائے تو ہر موقع و محل کے مناسب تعوذ پر رسولؐ کے عملی اہتمام کو دیکھ پڑھ کر قاری، حیرانگی اور تعجب میں پڑجاتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ تعوُّذات‘ اس قدر اہمیت کے حامل رہے ہیں کہ جنہیں صبح وشام کے وقت، سونے جاگنے، برا خواب دیکھنے، بیمار پرسی، غیض وغضب سے دو چار ہونے، وساوس کی بندش کو توڑنے، سفر کی روانگی، کسی جگہ پڑاؤ، گھر سے خروج، بازار جانے، کوئی چیز خریدنے، بیماری یا بخار میں مبتلا ہونے، سخت آندھی چلنے کے مواقع کے علاوہ نماز کے دوران اور نماز کے بعد پڑھنے کا خاص حکم ہے۔ اور اسی طرح مصائبِ دنیویہ جیسے: برص، جنون، جذام، ذلت، پریشانی، غم، لاچارگی، قرض، فقر وفاقہ، بڑھاپے اور ہر قسم کے ناگہانی آفات کے ساتھ ساتھ اُخروی مصائب، مثلاً: نفاق، کفر، شرک، گمراہی، برے اعمال، برے ساتھی اور برے پڑوسی سے مخصوص استعاذہ کا وارد ہونا بھی آدمی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ تعوُّذ کے معنی میں ذرا سا غور کیا جائے اور اس کی حکمتوں کو سوچا جائے، تو ساری حیرانگی، اللہ کی قدرتِ کاملہ کا استحضار کرتے ہوئے اپنی بے بسی، لاچارگی اور کمزوری سے بدل جاتی ہے کہ انسان کسی بھی آفت، حادثہ یا دشمن کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتا ہے، بلکہ وہ ہر آن، ہر گھڑی، ہر لمحہ اور ہر مصیبت، آفت کے وقت اللہ تعالیٰ کی کامل احتیاج رکھتا ہے، چنانچہ علامہ راغب اصفہانیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المفردات‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’العَوْذ‘‘ دوسرے کی پناہ میں رہنے اور اس کے ساتھ لگے رہنے کو کہتے ہیں اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لیا گیا ہے: ’’أَعُوْذُ بِاللہِ أَنْ أَکُوْنَ مِنَ الْجَاہِلِيْن‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعوُّذ کی وضع، اللہ کی طرف التجاء ہے، مگر حافظ ابنِ کثیرؒ نے ایک اور نکتہ تحریر فرمایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعوُّذات کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، اِنابت اور متوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی لاچارگی، بے بسی اور کمزوری کا اظہار بھی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ: کلام عرب میں پناہ پکڑنے کے لیے دو قسم کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں: 1- الْعَوْذُ، 2- اللَّوْذُ، مگر ان دونوں کے درمیان ایک باریک فرق ہے، جس سے استعاذہ کا مقصد مزید واضح ہوجاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ لفظ ’’لوذ‘‘ کسی کی پناہ میں اپنے فائدہ کے تحت آنے کو کہتے ہیں، جبکہ ’’عوذ‘‘ اپنے آپ کو شر سے بچانے کے لیے کسی کی پناہ پکڑنے کو کہتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ نے استعاذہ کے لطائف بیان کرتے ہوئے مقصد کو مزید واضح کردیا: ’’استعاذہ میں مشغول رہنے سے زبان ہر قسم کے بےہودہ اور بےکار مشاغل سے دور ہوکر پاکیزہ رہتی ہے اور کلام اللہ کی تلاوت کے لیے تیار رہتی ہے، بلکہ استعاذہ میں اللہ کی مدد مانگنے اور ان کی قدرتِ کاملہ کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی لاچارگی اور اپنے اُس کھلم کھلا، آنکھوں سے اوجھل دشمن کے مقابلے سے ناتوانی کا اظہار بھی ہے، جس کے پچھاڑنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جس نے اسے پیدا کیا، جس کے یہاں نہ تصنع کا اعتبار ہے اور نہ کاسا لیسی کا‘‘۔
البتہ اگر کسی کے ذہن میں یہ آجائے کہ ہر ’’مستعاذ منہ‘‘ یعنی ہر وہ چیز جس سے آنحضرتؐ نے اپنے رب کی پناہ مانگی ہے، وہ ہر حال میں مصیبت اور وبال ہی ہے، تو اس حوالے سے جان لینا چاہیے کہ ہر مستعاذ منہ مصیبت یا وبال نہیں ہے، بلکہ یہ خیال حقیقت سے کوسوں دور ہے؛ کیونکہ ایک جانب اگر غیرطبعی یا ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، تو دوسری طرف اسے شہادت بھی کہا گیا ہے، چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے مذکورہ مسئلے کو اپنے اَمالی (العرف الشذي) میں سوال و جواب کی شکل میں بیان کیا، جسے ہم من وعن نقل کرتے ہیں، کیونکہ اس میں پناہ لینے کی حکمت کا بھی ذکر ہے: ’’اگر کوئی کہے کہ ابو داؤد شریف میں ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، جبکہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت شہادت ہے، تو ہم کہیں گے کہ شریعت پناہ مانگنے کا حکم دیتی ہے، تاکہ وصیت یا معاملاتِ شرعیہ فوت نہ ہوں، باقی ناگہانی طور پر انتقال کر جائے، تو وہ شہید شمار ہوگا‘‘ (ابواب الجنائز)۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ حافظ الدنیا حافظ ابن حجر نفعنا اللہ بعلومہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’فتح الباری‘‘ میں ایک حدیث کے ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت لکھتے ہوئے استعاذہ بالغیر کا حکم بیان کیا کہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پناہ پکڑنا درست نہیں، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں: ’’پناہ صرف اللہ تعالیٰ یا اس کی صفاتِ ذاتیہ میں کسی صفت کی لی جاسکتی ہے اور ابن تین ؒ پر یہی مخفی رہا تو انہوں نے کہا کہ حدیث میں صفت کے ذریعے سے قسم کھانے کی بات نہیں، جیسا کہ قائم کردہ باب سے معلوم ہورہا ہے۔ پھر میں نے ابن منیرؒ کے حاشیہ میں دیکھا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’أعوذ بعزتک‘‘ دعا ہے، قسم نہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ پناہ صرف قدیم کی لی جاتی ہے، تو یہ ثابت ہوا کہ عزت اللہ کی صفاتِ قدیمہ میں سے ہے نہ کہ صفاتِ فعل میں سے، لہٰذا اس سے قسم منعقد ہوجاتی ہے‘‘ (کتاب الايمان و النذور)۔
غالباً انہی اقوال کی بنا پر ہمارے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف افشانی صاحب مد ظلہم اکثر اپنے بیانات میں فرمایا کرتے ہیں کہ: ’’أعوذ باللہ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو دنیاوی اور اُخروی ہر قسم کے مصائب سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے مضبوط قلعے میں پناہ گزین بنادیتا ہے‘‘۔
انسان کے خمیر میں چوں کہ یہ بات ہے کہ عموماً مطلب اور فائدہ کے بغیر وہ کسی کام کا اقدام نہیں کرتا، اسی لیے ہم اپنے مضمون کے آخر میں استعاذہ کے چند فوائد ذکر کرتے ہیں:
1-علامہ ابن قیمؒ نے تعوُّذات اور دیگر اذکار کے فوائد تحریر کرتے ہوئے ایک عمدہ فائدہ بیان کیا ہے کہ دوائیاں تب ہی مفید اور سود مند ہیں، جب پہلے سے بیماری نے آکر نقصان سے دوچار کیا ہو، جبکہ تعوُّذ کا کمال اور فائدہ یہ ہے کہ یہ بیماری کے اسباب اور انسان کے درمیان سدِسکندری کی طرح حائل بن جاتی ہے، بہرحال علامہ موصوف کا مطلب یہ ہے کہ تعوُّذات مرض کے خاتمے، مرض سے پیشگی حفاظت اور صحت کے برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور دلائل سے اپنی بات کو ثابت کیا۔
2-علامہ ابن قیمؒ ہی نے اپنی مشہور شہرہ آفاق کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں تعوُّذات کی اہمیت و وقعت کو فوائد کی شکل میں تحریر فرمایا کہ اس آدمی پر لازم ہے جو دنیوی اور اُخروی مصائب سے اپنی حفاظت کا خواہاں ہے کہ وہ ہمہ وقت قلعہ بند اور زرہ زیبِ تن رکھے، یعنی وہ تعوُّذات نبویہ کی پاپندی کرے۔
3- نضرۃ النعیم میں استعاذہ کی مسلسل پابندی کے چودہ فوائد بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے چند ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں:
1- استعاذہ نفس کی راحت وسکون کا سبب ہے۔
2- استعاذہ سے اللہ پر توکل کی صفت پیدا ہوتی ہے۔
3- استعاذہ کی دعاؤں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
4- استعاذہ شیطان سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔
5- استعاذہ سے انسان اپنے اعضاء کے شرور سے محفوظ رہتا ہے۔