سویڈن: اردنی پائلٹ کے قتل کے جرم میں ایک جہادی کو عمر قید
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اگست 2025ء) سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہولم کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے جمعرات کے روز سویڈن کے شہری اسامہ کے کو سن 2015 میں اردن کے ایکپائلٹ کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی۔
واضح رہے کہ اس بدنام زمانہ قتل کیس میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں نے اردن کے پائلٹ کو آہنی پنجرے میں بند کر کے زندہ جلا دیا تھا۔
عدالت نے اسامہ کے کو پائلٹ کو لوہے کے پنجرے میں زبردستی ڈالنے میں مدد کر نے اور انہیں قتل میں حصہ لینے کا مجرم قرار دیا تھا۔ اس ہائی پروفائل قتل میں کردار ادا کرنے والوں میں سے کسی کو پہلی بار پہلی سزا دی گئی ہے۔
اسٹاک ہولم کی عدالت نے کیا کہا؟جج اینا لِلجنبرگ گلیسجو نے ایک بیان میں کہا، "تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم قتل کی جگہ پر وردی میں موجود تھا اور مسلح بھی تھا، اور اس نے خود کو فلم بند کرنے کی بھی اجازت دی۔
(جاری ہے)
"اس قتل سے متعلق جو ویڈیو شواہد ہیں، اس میں گرچہ ایک اور شخص کو آگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس نے پائلٹ کو ہلاک کیا۔ تاہم جج نے کہا کہ اسامہ کے کی شمولیت فیصلہ کن تھی۔ "مدعا علیہ کے اقدامات نے متاثرہ کی موت میں اس قدر اہم کردار ادا کیا کہ اسے مجرم سمجھا جانا چاہیے۔"
ملزم کے خلاف مئی میں فرد جرم عائد کی گئی تھی، جو سن 2015 میں پیرس اور 2016 میں برسلز میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے کے سبب پہلے ہی سزا کاٹ رہے تھے۔
عدالت نے انہیں قتل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے "سنگین جنگی جرائم اور دہشت گردی کے جرائم" کا مجرم قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ اردن کے پائلٹ کے قتل کی، اس کی بربریت کے لیے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی تھی۔
24 دسمبر سن 2014 میں شام میں رائل اردنی ایئر فورس کا طیارہ گرنے کے بعد پائلٹ کو آئی ایس کے جنگجوؤں نے پکڑ لیا تھا۔ پھر انہیں ایک پنجرے میں بند کر کے زندہ جلا دیا گیا تھا۔
اس بہیمانہ قتل کی ویڈیو پہلی بار تین فروری 2015 کو عوامی طور پر جاری کی گئی تھی۔جج لِلجنبرگ گلیسجو نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسامہ کے، " قتل سے پہلے اور اس کے دوران متاثرہ کی حفاظت کرنے اور اسے پنجرے تک لے جانے کے ذمہ دار تھے، جس میں انہیں زندہ رہتے ہوئے جلا دیا گیا تھا۔"
قتل کے بعد جنگجو گروپوں نے اس بے رحم موت کے واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز کی آن لائن تشہیر کی تھی۔
ہمیں اس کیس کے بارے میں مزید کیا معلوم ہے؟جس 32 سالہ شخص اسامہ (فرضی نام) کے خلاف سزا سنائی گئی ہے، وہ سویڈن کے شہری ہیں اور ان کا تعلق مالمو شہر سے ہے۔ شبہ ہے کہ جب اردن کے نوجوان پائلٹ کو گرفتار کیا گیا تھا، تو انہیں زندہ جلا کر ہلاک کرنے کے عمل میں انہوں نے بھی مدد کی تھی۔
تاہم مدعا علیہ کی وکیل پیٹرا ایکلنڈ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ گوکہ ان کے مؤکل نے جائے وقوعہ پر موجود ہونے کا اعتراف کیا، تاہم اپنے اوپر عائد الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا، "وہ اس واقعے کے دوران اس جگہ پر موجود ہونے کا اعتراف کرتا ہے، تاہم اس کا دعویٰ ہے کہ استغاثہ نے حقائق کو جس انداز سے پیش اور بیان کیا ہے، وہ غلط ہے۔"
پیرس، برسلز حملوں میں بھی ملوثسویڈن میں استغاثہ کا کہنا ہے کہ مجرم شخص نے شام میں سن 2014 کے دوران دہشت گرد گروپ آئی ایس (داعش) میں شمولیت اختیار کی تھی اور بعد میں یورپ واپس آگیا۔
اسے نومبر 2015 میں پیرس حملوں میں ملوث ہونے کے جرم میں فرانس میں 30 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس حملے میں 130 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔سن 2016 کے برسلز حملوں میں کردار کے لیے سن 2023 میں بیلجیم میں اسی مشتبہ شخص کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس حملے میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بارہ مارچ کو فرانس نے تفتیش اور مقدمے کی سماعت کے لیے اسامہ کو نو ماہ کے لیے سویڈن کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اب اس عدالتی کارروائی کے اختتام کے بعد اسے اپنی سزا کاٹنا جاری رکھنے کے لیے فرانس واپس بھیج دیا جائے گا۔
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حملوں میں اسامہ کے پائلٹ کو سویڈن کے اردن کے قتل میں دیا تھا گئی تھی قتل کی کے لیے
پڑھیں:
فوڈ پوائزنگ سے انٹرنیشنل کبڈی پلیئر کی ایک اور بیٹی جاں بحق، ہلاکتوں کی تعداد 4 ہو گئی
GUJRANAWALA:گوجرانوالہ کے علاقے موڑ ایمن آباد میں فوڈ پوائزنگ کے دلخراش واقعے میں انٹرنیشنل کبڈی پلیئر نوید پہلوان کی چودہ سالہ بیٹی ایمن فاطمہ بھی چل بسیں، جس کے بعد اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔
پولیس کے مطابق ایمن فاطمہ دو دن سے چلڈرن اسپتال میں زیرِ علاج تھیں جہاں وہ جانبر نہ ہو سکیں۔
اس سے قبل نوید پہلوان کے دو دیگر بچے 11 سالہ نور فاطمہ، 8 سالہ حیدر اور 5 سالہ جنت بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
واقعہ 29 جون کو پیش آیا تھا جب نوید پہلوان کی اہلیہ اور ان کے 6 بچوں نے سالگرہ کی ایک تقریب میں شرکت کے دوران مقامی فاسٹ فوڈ کھایا۔
کھانے کے بعد تمام افراد کی طبیعت بگڑ گئی، جنہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر فوڈ پوائزنگ کو وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ واقعے کے بعد متعلقہ دکانداروں کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے تاہم پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے تاحال حتمی تجزیاتی رپورٹ جاری نہیں کی گئی کہ کھانے میں کون سا مضرِ صحت مادہ شامل تھا۔